Column

پاکستان پھر صاحب اولاد

تحریر : سید ہ عنبرین

ایک اور سیاسی زچگی ہو گئی، زچہ و بچہ بخیر و عافیت ہیں، بچے کا نام روٹین سے ہٹ کر رکھا گیا ہے۔ ’’ عوام پاکستان ‘‘ یہ بچہ کس کا نتفہ ہے، اس نے کس رحم میں پرورش پائی ہے، سب راز کی باتیں ہیں، کچھ عجب نہیں کچھ برس بعد معلوم ہو سب کچھ نہایت بے رحمی سے کیا گیا ہے۔ مقصد مثبت نتائج حاصل کرنا ہے لیکن ایک بات واضح ہے یہاں عدت کا کوئی معاملہ نہیں تھا، بچہ کچھ عرصہ پالنے میں رہے گا۔ پالنے میں ہی اس کے پائوں نظر آ جائیں گے، اگر اس نے دانت پہلے نکالے تو چلنا دیر سے شروع کرے گا، اگر پہلے چلنے کے قابل ہو گیا تو دانت دیر سے نکلیں گے، ختنے کرانے کا فیصلہ کب ہوتا ہے عوام کو اس کا انتظار رہے گا، معاملہ نائی کے سپرد کیا تو کچھ کا کچھ ہو سکتا ہے، ماہر سرجن کی خدمات حاصل کی گئیں تو مطلوبہ نتائج برآمد ہوں گے، پرورش ماں کے دودھ پر کی گئی تو تندرست ہو گا، اوائل میں ہی ڈبے کے دودھ پر ڈال دیا گیا تو وزن زیادہ، عقل موٹی ہو گی، گائے یا بھینس کے دودھ میں پانی ملا کر پلانا شروع کیا تو حرکتیں گائے، بھینسوں جیسی ہوں گی، کبھی کیچڑ میں گھس کر خوش ہو گا، تو کبھی جوہڑ میں جا کر پھولے نہیں سمائے گا، لہٰذا نئے تجربے کرنے کی بجائے بزرگوں کے کہے اور ان کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ بزرگ کہتے ہیں خون اور دودھ کا اثر کبھی نہیں جاتا۔
’’ عوام پاکستان‘‘ کی ضرورت کیوں پیش آئی، ضرورت تھی بھی یا نہیں، تو اس کا جواب حالات اور پاکستان کی حالت زار دے رہی ہے، ملک دو لخت ہونے کے بعد بھٹو صاحب خوبصورت نعروں سے اقتدار میں آئے، انہوں نے نیا پاکستان بنانے کا عندیہ دیا، ان کی حکومت کی ایک خوبی قوم کو ہمیشہ یاد رہے گی کہ ان کے زمانہ اقتدار میں ان کے کسی وزیر کا لوٹ مار کا ایک بھی معاملہ سامنے نہ آیا، نہ ہی ان کے لگائے گئے اداروں کے سربراہوں نے اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اقربا پروری کی یا مال سمیٹا۔ ان کے زیر انتظام کرائے گئے انتخابات میں بعض حلقوں میں دھاندلی کی گئی، انہیں اپنی مقبولیت کا زعم تھا وہ خود بلامقابلہ منتخب ہو گئے۔ معاملہ یہاں ہی رک جاتا تو اپوزیشن کو ہضم ہو جاتا۔ انہوں نے اپنے چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو بلامقابلہ منتخب کرانے کے علاوہ مزید درجن بھر حلقوں میں الیکشن انجینئرنگ کی، جس کے بعد انتخابات کے نتائج مسترد کر دیئے گئے، مخالف تحریک شروع کسی نکتے سے ہوئی، اختتام کسی اور رنگ میں ہوا، آئندہ 10برس کسی اور ایجنڈے کی تکمیل میں گزرے۔ بے نظیر اقتدار میں لائی گئیں تو ان کی ٹانگ کے ساتھ آئی جے آئی کا بھاری پتھر باندھ دیا گیا، عورت کی حکمرانی کے خلاف مذہبی رہنمائوں سے فتوے حاصل کر لئے گئے، انہیں سکیورٹی رسک قرار دینے والے چند برس بعد ان کے ساتھ چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کر کے آپس میں بہن بھائی بن گئے، دو پارٹی اتحاد نے طویل عرصہ کیلئے اقتدار پر قبضہ رکھنے کی بندر بانٹ یوں کی مرکز میں ایک ایک باری طے کر لی، اس کے ساتھ اپنے، اپنے صوبے کی حکومتیں بھی اپنا حق کم اور حق مہر سمجھ کر اپنے پاس رکھ لیں۔ چھوٹے صوبوں سے وہ سلوک کیا جو ورکشاپ کا لیڈ مستری ورکشاپ کے چھوٹے سے کرتا ہے، لوٹ مار کا ایسا بازار گرم ہوا جس نے پاکستان کا بال بال قرضوں میں پھنسا دیا۔ دونوں سیاسی جماعتوں کے زمانہ اقتدار ہر مرتبہ نئی تباہی لائے، پاکستانیوں کی ولدیت کے خانے میں کبھی امریکہ کا نام لکھا گیا، کبھی چین کا، پاکستانیوں کی وہی حیثیت بن گئی جو حرام کی اولاد کی ہوتی ہے، ہمارا پاسپورٹ، ہمارا عدالتی نظام، ہماری اقتصادی حالت، ہماری معاشرتی و اخلاقی حالت، جو کبھی آسمان پر تھی زمین بوس ہوئی، ہم وہ ملک تھے جس نے جنگ عظیم سے تباہ حال ملکوں جرمنی اور جاپان کو قرضے دیئے۔ روٹی کے دو ٹکڑوں کے ایسے محتاج ہوئے کہ کئی برس اسلامی ملکوں کے ٹکڑوں پر پلتے رہے۔ خود داری و غیرت نام کی کوئی شے ہمارے پلے نہ رہی۔ ایک امریکی کا فقرہ ہمارے شجرہ نسب میں اس طرح لکھا گیا ہے کہ اسے مٹانے میں برسوں لگ جائیں گے۔ کہا گیا پاکستانی دولت کیلئے اپنی ماں بھی بیچ دیتے ہیں۔ کسی حکمران نے ماتھے پر لگی کالک صاف کرنے کی کوششیں نہیں کی، بلکہ اس میں اضافہ ہی ہوتا نظر آیا، آج فخریہ ادارے بیچے جا رہے ہیں، ایئر پورٹ گروی رکھے جا رہے ہیں، قرضوں کا سود ادا کرنے کیلئے رقم موجود نہیں، اشرافیہ کے اللے تللے حسب سابق جاری ہیں، کسی کی مراعات کم نہیں ہوئیں، غریب پر ٹیکسوں کا بوجھ ہر دم بڑھ رہا ہے، جو پہیہ جام کرنے کی طاقت رکھتا ہے، اس پر لگایا ٹیکس معاف ہو جاتا ہے، واپس لے لیا جاتا ہے، ملک میں کوئی چیز خالص دستیاب نہیں۔ خان حکومت نے 90دن میں نظام بدلنے کا خواب دکھایا، پھر ایک سال، پھر 5سال کی بات کی، جب الیکشن قریب آنے لگے تو ایک اور ٹرم فرمائش شروع کر دی۔ طاقتوروں کو پلیٹ میں رکھ کر ایکسٹشن دی، جو کمزور تھے، ناپسند تھے انہیں گھر بھیجنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ فیصلوں کی عمر 4گھنٹے ہوتی تھی، صبح کچھ، دفتر میں کچھ، گھر پہنچ کر کچھ اور میرٹ کا شاہکار جناب عثمان بزدار اور جناب محمود خان تھے۔ پہلی اور آخری پسند اندھے، گونگے اور بہرے تھے جو اشاروں کی زبان سمجھیں اور بلاچون و چرا ان پر عمل کریں۔ پس حکومت اسی طرح بدلی گئی جس طرح اس سے قبل بدلی گئی تھیں۔
سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کی مکمل ناکامی کے بعد نئی سیاسی جماعت کی ضرورت عرصہ دراز قبل پیدا ہو چکی تھی، ڈیڑھ برس کی پی ڈی ایم اور بعد کے انتظامات کے بطن سے مسائل کا حل برآمد ہونے کے امکانات نہیں، خان نے انتخابات میں جھاڑو پھیرا ہے، آزادانہ و منصفانہ انتخابات میں دو بڑی سیاسی جماعتوں کا نشان شاید نظر نہ آئے لیکن اگر پھر ہمارے مقدر میں کوئی نیو بزدار اور نیو محمود خان لکھ دیئے گئے تو ہم کیا کر لیں گے، پس ڈھنگ کے لوگوں اور کرپشن کے داغوں سے دور ایسی شخصیات کا کسی نئے پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونا برا شگون نہیں، عوام پاکستان پارٹی اگر مختلف مافیاز کے ہاتھوں یرغمال بن گئی تو اکھاڑے سے اس طرح باہر ہو گی جس طرح استحکام پاکستان پارٹی آج غیر مستحکم نظر آتی ہے، ہر طرف اندھیرا نظر آیا تو آخری آپشن قومی آپشن ہو گی، سربراہ وہی ہونگے جو ہمیشہ ہوتے ہیں۔ پاکستان غیر مستحکم ہوتا جا رہا ہے مگر ایک مرتبہ پھر صاحب اولاد ہو گیا ہے۔

جواب دیں

Back to top button