Column

بجلی بلوں کے بُوجھ تلے دبے بے بس عوام

تحریر : امتیاز یٰسین
سال رواں کے بجٹ پر عملدرآمد کے ساتھ ہی ٹیکسز در ٹیکسز کی بھرمار اور آئی ایم ایف کے ڈو مور مطالبے و تجاویز اور ہدایات کی روشنی میں پاکستان کی تاریخ کے مہنگے ترین بجٹ سے مہنگائی زدہ عوام کی چیخیں نکلنا شروع ہو گئی ہیں۔ ایک خود اختیار اور خود مختار ملک کے اربابِ اختیار کہتے ہیں بجٹ آئی ایم ایف نے بنایا۔ دیگر گرانی ایک طرف صرف بجلی کے مہنگے بنیادی ٹیرف، پالیسی اور ٹیکسز کی طومار نے ایک متوسط اور غریب گھرانے کو بے بسی کی تصویر بنا دیا ہے۔ عوام اور حکومت کے مابین اعتماد اور تال مِیل کا شدید فقدان نظر آنے لگا ہے۔ ایک مزدور سارا ماہ محنت مشقت کرنے کے باوجود صرف بجلی کا بل ہی ادا کرنے سے عاجز ہے۔ سفید پوش طبقہ کی ہزاروں روپئے بلز ادائیگی کے لئے جان پر بنی ہوئی ہے ۔ مضافاتی علاقوں میں تو پھر بھی شہری چارو ناچار بغیر بجلی کے یا کم استعمال سے گزارہ کر لئتے ہیں لیکن گنجان آبادیوں شہروں میں اس کے بغیر ایک پل گزارنا مشکل ہے جس سے ایک معمولی گھرانہ کا بل پندرہ ہزار سے تجاوز کر رہا ہے ۔پورے ملک میں گزشتہ ایک عشرہ سے میڈیا و سوشل میڈیا پر بجلی بلوں کو ایک عذاب و آفت سے تشبیہ دی جا رہی ہے۔ بادی النظر میں حکومت پٹرولیم مصنوعات اور یوٹیلیٹی بلز سے مالی امور سلطنت کا کثیر حصہ بلز کے ذریعے چلانا چاہتی ہے۔ عوام جو نئی حکومت کی طرف سے جو سب سے بڑی یاس و امید لگائے بیٹھی تھی وہ یوٹیلیٹی بلز سمیت مہنگائی میں کمی اور زندگی میں آسانیوں کی توقع تھی جس پر موجودہ عوام دشمن بجٹ نے پانی پھیر دیا۔ غربت سے نچلے درجے کی تعداد میں خوفناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ حالات کے ستائے سٹریٹ کرائم میں اضافہ کی وجہ بن رہے ہیں۔ مزدور، غریب، کسان، ہاری کے گھروں کا چولہا پہلے ہی نیم ٹھنڈا ہو چکا تھا رہی سہی کسر بھاری بجلی بلوں نے مارے کو مارے شاہ مدار کا کردار کر دیا۔ عوام کے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ چکے ہیں۔ معاشی حالت انتہائی دگرگوں اور ناگفتہ بہہ ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے اسے ایک اہم مسئلہ شمار کرتے ہوئے احتجاج کی کال دے رکھی ہے۔ جگہ جگہ شہریوں، سول سوسائٹی کی کثیر تعداد بھی بجلی بلوں پر سراپا احتجاج اور بلوں کو نذر آتش کرتے دکھائی دیتے ہیں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے الیکشن کے دنوں میں سیاسی پارٹیاں بعد از اقتدار جہاں بے روز گاری، مہنگائی ،تعلیم صحت کی سہولیات کی بہتری کے بلند و بانگ دعوی کرتی ہیں۔ یوٹیلیٹی بلز کی زیادتیوں کا حوالہ دیکر اپنے اپنے انتخابی منشور میں اقتدار میں آنے کے بعد اس میں کمی کے دعوے اور وعدے کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن اقتدار ملنے کے بعد مالی دشواریوں قرضوں کا رونا روتے دکھائی دیتے ہیں اور یوٹیلیٹی بلز، پٹرولیم مصنوعات روز مرہ اشیاء اور کچن آیٹمز کا افراط زر بڑھ جاتا ہے۔ ابھی چند ماہ قبل کی بات ہے کہ اپنی انتخابی مہم کے دوران مریم نواز نے دو سو یونٹ اور بلاول بھٹو نے نے تین سو یونٹ استعمال کرنے والے صارفین کو غریب اور تہی دست قرار دیکر اقتدار میں آنے کے بعد فری بجلی کا اعلان کیا تھا لیکن دونوں پارٹیاں شراکت اقتدار کے بعد عوام کو مسائل سے وارستگی دلوانے کی بجائے بجلی کے حوالے سے پالیسی معکوس اپنا کر انہیں سطح کے بجلی صارفین پر بنیادی ٹیرف میں اضافہ سے بجلی کی ملکی تاریخ کے بلند ترین نرخوں دس گنا زیادہ بوجھ تلے دبا کے رکھ دیا ہے۔حالانکہ ایک تہائی انرجی استعمال سولر پینل پر منتقل ہونے، اور قبل از اقتدار موجودہ حکمرانوں کے بجلی ریلیف کے بلند و بانگ دعوئوں میں سنجیدگی لے جاتی تو بجلی نرخوں اور لوڈ شیڈنگ میں خاطر خواہ کمی متوقع تھی مگر اُلٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا۔ عوام کے جان و مال کا تحفظ اور زندگیوں میں آسانیاں ، سہولیات پیدا کرنا حکومتِ وقت کی ذمہ داریاں ہوتی ہیں بقول فیض احمد فیض مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے؟ غریب، کمزور پر ہمارا سلام بھی رحم کھانے اور ان کو صدقات خیرات عشر ،زکوٰۃ کے ذریعے مالی اعانت کا حکم دیتا ہے۔ ہمارے ہاں ایسے کمزور طبقے سے ہی ٹیکسز اکٹھا کرنا آسان سمجھ کر انہی پر کند چھری چلا دی جاتی ہے۔ عوام کو مفت سولر پینل کی فراہمی کی باز گشت سنائی دیتی تھی وہ بھی تاحال حسبِ روایت تَلَون مزاجی کی عکاس اور طفل تسلیاں ہی نظر آتی ہیں۔ ٹاک شو میں بیٹھ کر حکومتی شخصیات عوامی درد آشنائی میں الفاظ کے گورکھ دھندوں سے دودھ کی نہریں بہا دیتے ہیں لیکن زمینی حقائق اس سے کوسوں میل الٹ سمت میں ہیں۔ عوام کی زندگیاں اجیرن ہو چلی ہیں جبکہ حکومتی اشرافیہ کی شاہ خرچیاں اتنی ہی زیادہ بڑھی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ ہر آنے والی نئی حکومت ساری خرافات اور مسائل کی جڑ سابقہ حکومت کی ناقص مینجمنٹ اور نا اہلی کو قرار دے کر بغیر عقدہ کشائی کے خود بری الذمہ ہو جاتی ہے اور عوام بے یارو مدد گار حالات کی ستم ظریفیوں کے ہاتھوں درگت بنے نئے نجاتِ دہندہ کے انتظار میں کربناک، تلواس، صبر آزما زندگیاں گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
ہمارا قریبی برادر اسلامی ملک افغانستان ساری زندگی جنگ زندہ رہا آج ان کی کرنسی ڈالر کے مقابلہ میں ہم سے کہیں زیادہ مستحکم ہے ۔ قرض لینا تو دور کی بات وہ تو شائد ورلڈ بینک، آئی ایم ایف کے نام سے بھی واقف نہ ہوں۔ امریکہ جیسا طاقتور ملک ہم سے زیادہ ان کو اہمیت دیتا ہے جس کی بڑی وجہ ان کا حقیقی معنوں میں آزاد و خود مختار ہونا ہے۔ مقتدر شخصیات کے اللّے تللّوں کے ہاتھوں عوام بڑے بڑے صبر آزما سالوں سے گزرے لیکن آج تک کسی بھی حکمران میں ایسی اخلاقی جرات نہیں کہ اس کے دور میں ہونے والی سختیوں کا موجب خود کو قرار دیں بلکہ خود کو اگلے الیکشن میں حقدار قرار دے کر ڈھٹائی سے ایک موقع اور مانگ کر سابقہ وعدوں کی تکمیل کا عزم دکھایا جاتا ہے اور مجرمانہ قومی نا اہلی کا یہ سلسلہ سالہا سال سے جاری و ساری ہے ۔ زمینی حقائق اور ارباب اختیار کے دعوئوں میں اس قدر تضاد پایا جاتا کہ غریب دیہاڑی دار اور سفید پوش طبقہ کی غیر معمولی بجلی بلوں نے نیندیں اڑا رکھی ہیں، شدید گرمی کی تمازت میں پنکھا چلانے سے عاجز ہیں، پانی کیلئے الیکٹرک موٹروں کی بجائے ہیڈ پمپ استعمال کرتے دکھائی دے رہے ہیں جبکہ وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری قوم پر تین ہزار دو سو چوہتر ارب سالانہ کا اضافی بوجھ پڑنے کے باوجود اسے معمولی اضافہ قرار دے رہے ہیں۔ حکومت اپنے وعدوں اور ذمہ داریوں کا ادراک کرتے ہوئے صارفین کو یوٹیلیٹی بلز میں ریلیف دے اتنا مالی بوجھ نہ ڈالیں جنہیں وہ برداشت کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔

جواب دیں

Back to top button