ColumnImtiaz Aasi

عمران خان اور بھوک ہڑتال

امتیاز عاصی
اس حقیقت میں دو آراء نہیں سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان مضبوط اعصاب کے مالک ہیں، نواز شریف کی طرح ہوتے تو کب کے طاقتور حلقوں کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھا لیتے۔ عمران خان کی دو عشروں پر مشتمل سیاسی جدوجہد کو دیکھا جائے تو انہوں نے بہت تھوڑے عرصے میں عوام کے دلوں میں جگہ بنا لی۔ اقتدار سے ہٹائے جانے اور پس زندان بھیجے جانے کے باوجود وہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے۔ عمران خان سے ہماری صرف ایک بار اسلام آباد کے پنج ستارہ ہوٹل میں ملاقات ہوئی، جب وہ قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان تھے اور جڑواں شہروں کے سپورٹس رپورٹر کو مدعو کیا تھا۔ ایک اردو معاصر میں شائع ہونے والی خبر نے ہمیں مایوس کیا عمران خان جیل میں بھوک ہڑتال کرنے کے لئے سوچ بچار کر رہے ہیں۔ عمران خان کو بھوک ہڑتال بالکل نہیں کرنی چاہیے عام طور پر جیلوں میں بھوک ہڑتال جرائم پیشہ افراد کرتے ہیں جب جیل حکام ان کی کوئی غیر قانونی فرمائش پوری نہیں کرتے تو وہ بھوک ہڑتال پر اتر آتے ہیں۔ ویسے بھی جیل میں قیدیوں کا بھوک ہڑتال کرنا ایک بڑا جرم سمجھا جاتا ہے۔ عمران خان جیسے بہادر لیڈر کو بھوک ہڑتال کا سوچنا نہیں چاہیی۔ بھوک ہڑتال کرنے والوں کو زبردستی کھانا کھلایا جاتا ہے تاکہ کہیں قیدی کی موت واقع نہ ہو جائے لہذا عمران خان کو اگر کسی نے بھوک ہڑتال کا مشورہ دیا ہے وہ غلط ہے۔ معزز قارئین! شائد آپ نے سنا ہوگا ذوالفقار علی بھٹو نے جیل میں کہا تھا انہیں اس بات کا علم نہیں تھا ملک میں دو وزیراعظم ہوتے ہیں ایک ملک کا وزیر اعظم اور دوسرا سپرنٹنڈنٹ جیل ہوتا ہے۔ بھوک ہڑتال کرنے والے قیدیوں کے ہسٹری کارڈ پر جیل حکام فوری طور پر سرخ سیاہی سے قیدی کے اس طرز عمل کا اندراج کر دیتے ہیں ساتھ سپرنٹنڈنٹ جیل کو اس بات کا اختیار ہوتا ہے وہ صوبائی سیکرٹری داخلہ کی منظوری سے ایسے قیدیوں کو کسی دوسری جیل میں شفٹ کر دیتے ہیں۔ عمران خان کو جیل گئے ایک سال ہوا ہے ان کو نیلسن منڈیلا کی مثال سامنے رکھنی چاہیے جنہوں نے ملک و قوم کی خاطر برسوں جیل میں گزارے لیکن بھوک ہڑتال نہیں کی۔ یہ بات درست ہے اس وقت عمران خان کی جماعت پر غیر قانونی قدغنیں لگائی جا رہی ہیں یا عمران خان سے ان کی پارٹی کے رہنمائوں کی ملاقات کرانے میں لیت و لعل کیا جاتا ہے اس کا عمران خان کو بھی علم ہے جیل سپرنٹنڈنٹ اور اس کا عملہ اس سلسلے میں بے بس ہے ورنہ جیلوں میں کسی قیدی یا حوالاتی سے ملاقات کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہوتا۔ عمران خان کو حق تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے اسے جیل میں جو سہولتیں میسر ہیں وہ کسی عام قیدی کو میسر نہیں ۔ اگرچہ وہ ملک کے وزیراعظم رہ چکے ہیں اور عوام کے مقبول لیڈر ہیں انہیں ذوالفقار علی بھٹو کے حالات کو مدنظر رکھنا چاہئے۔ بھٹو عمران خان سے کم عوام کا مقبول لیڈر نہیں تھا لیکن اس کی تدفین کے موقع پر اس کے خاندان کے لوگوں کو چہرہ دیکھنا نصیب نہیں ہوا تھا۔ گو ہمارا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں نہ کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق ہے، عمران خان کو اپنے رویے میں تبدیلی لانے کی بہت ضرورت ہے، ایک ہی وقت میں بہت سے محاذ کھولنے کا نتیجہ انہوں نے دیکھ لیا ہے۔ ہم عمران خان کی اس بات سے متفق ہیں ہمیں کسی کی غلامی نہیں کرنی چاہیے، مسلمان کو غلامی صرف آقائے دو جہاںؐ کی کرنی چاہیے تاکہ ہماری دنیا اور آخرت سنور جائے۔ عجیب تماشا ہے پی ٹی آئی کو اسلام آباد میں جلسہ کرنے کی اجازت دینے کے بعد چیف کمشنر نے ڈپٹی کمشنر کی طرف سے جاری ہونے والا اجازت نامہ معطل کر دیا۔ دراصل حکومت پی ٹی آئی کی عوامی مقبولیت سے خائف ہے، پی ٹی آئی کے جلسہ میں عوام دیوانہ وار چلے آتے ہیں جبکہ اس کے برعکس مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کو گھروں میں گاڑیاں بھیج کر جلسہ گاہ بھرنی پڑتی ہے۔ جیل میں سکون صرف اسی صورت میں حاصل ہوتا ہے جب قیدی آزاد دنیا کو بھلا کر اپنے رب سے لو لگا لیں تو جیل ان پر بھاری نہیں ہوتی۔ تعجب ہے عمران خان قرآن پاک کی تلاوت اور نمازوں کی ادائیگی کے باوجود بھوک ہڑتال پر اتر آئے ہیں۔ ہمارا عمران خان کو مشورہ ہے کوئی ملاقات کے لئے آئے یا نہ آئے جب تک جیل میں ہیں حق تعالیٰ کی یاد کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیں تو ہمیں یقین ہے ان کی بیقراری ختم ہو جائے گی۔ عمران خان کو تہجد کا اہتمام کرنا چاہیے، یہ ایک ایسا وقت ہوتا ہے جب رب تعالیٰ کی ذات تیسرے آسمان پر آجاتی ہے، وہ تہجد پڑھنے والوں کو ندا دیتی ہے مجھ سے جو مانگنا ہے مانگ لو۔ سینٹرل جیل راولپنڈی میں جہاں عمران خان کو رکھا گیا ہے اس کے پہلو میں سزائے موت کے منتظر وہ قیدی بند ہیں جن کی آخری اپیلیں سپریم کورٹ میں یا صدر مملکت کے پاس ہیں۔ عمران خان تو پھر اچھی خوراک اور ورزش کر لیتے ہیں، ان کے قریب سزائے موت کے سیلوں میں بند قیدیوں کو چوبیس گھنٹے میں صرف دو گھنٹے چہل قدمی کرائی جاتی ہے۔ عمران خان کے لئے جیل ایک امتحان ہے، اگر وہ اس امتحان میں پاس ہو جاتے ہیں تو کوئی طاقت اس کے سامنے نہیں ٹھہر سکے گی۔ طاقتور حلقے ہمارے ملک کی سرحدوں کے محافظ ہیں اقتدار میں لانے والے بھی وہی تھے عمران خان کو جیسے بھی عدم اعتماد سے اقتدار سے علیحدہ ہونا پڑا ہے اگر وہ اپوزیشن میں بیٹھ جاتے تو آج صورتحال کچھ اور ہوتی۔ ہم عمران خان کی اس بات کو داد دیتے ہیں انہوں نے ملک و قوم کو لوٹنے والوں کے چہروں سے قوم کو متعارف کرا دیا ہے۔ خواہ وہ کچھ کر لیں عوام انہیں کبھی ووٹ نہیں دیں گے۔ نواز شریف ملک گیر دوروں کا کئی مرتبہ پروگرام بنا چکے ہیں مگر انہیں عوام کی پذیرائی حاصل نہیں، اسی لئے ابھی تک وہ کسی صوبے کا دورہ نہیں کر سکے ہیں۔ نواز شریف اور آصف علی زرداری کی سیاست کا مرکز و محور طاقتور حلقے ہیں، وہ ان کی بیعت نہ کرتے تو کب کے جیلوں میں ہوتے، یہی ان کی کامیابی کا راز ہے۔ عمران خان نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی مقبولیت کو خاک میں ملا دیا ہی۔ ہمار ا عمران خان کو یہی مشورہ ہے وہ کسی صورت میں بھوک ہڑتال نہ کریں ورنہ ان کی مشکلات اور بڑھ سکتی ہیں۔

جواب دیں

Back to top button