
سی ایم رضوان
یہ امر تسلیم کرنا ہی پڑے گا کہ اس وقت دنیا میں اسلامی نظریات سے قریب تر زیادہ تر قوانین بظاہر کافر ملکوں میں نافذ العمل ہیں اور مسلمان ممالک میں رائج زیادہ تر قوانین اسلامی نظریات سے دور ہیں۔ یہ بدقسمتی بھی آج کے مسلمانوں کے حصے میں آئی ہے کہ موجودہ صدیوں میں جن جن ممالک میں فقط نام کو ہی اسلام نافذ ہوا ہے وہاں کے اسلامی نظام حکومت کے نفاذ کاروں نے سوائے عورتوں کو پردے کا پابند کرنے کے کوئی بھی واضح یا قابل ذکر اسلامی فلاحی یا انقلابی قانون اور ضابطہ نافذ نہیں کیا جس کو ساری دنیا تسلیم کرے کہ ہاں یہ تو اسلام کے خالص انقلابی و اصلاحی انقلاب کا حامل آئیڈیل قانون ہے اور اگر اسلام کے نفاذ کے بعد انسانیت کو اس قدر عظمت و رفعت مل جائے تو پوری دنیا کے ممالک میں اسلام نافذ ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے ایک ناکام اسلامی انقلاب ایران میں آیا اور اب اس کی رخصتی کا وقت بھی آ گیا کیونکہ یہاں اخلاقی پولیس کی تعیناتی کے علاوہ کوئی خاص اسلامی انقلاب برپا کئی دہائیاں گزر جانے کے باوجود بھی نہیں ہو سکا اور یہاں کی لاکھوں خواتین نے گزشتہ سال احتجاج کر کے ظاہر کر دیا کہ وہ اس قدر سخت اور یکطرفہ پابندیوں کا حامل اسلامی انقلاب پسند نہیں کرتیں جبکہ گزشتہ روز ایران کے صدارتی انتخابات میں ایک اصلاح پسند امیدوار مسعود پزشکیان کی تیس لاکھ کی واضح برتری کے ساتھ کامیابی نے اس امر پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔ ایران میں ہر صدارتی انتخاب کے موقع پر ایک سوال ضرور ذہنوں میں پنپتا ہے کہ کیا اب ایران میں کوئی حقیقی، بڑی تبدیلی رونما ہوگی۔ گزشتہ ماہ ایک ہیلی کاپٹر حادثے میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی رحلت کے بعد اب صدارتی انتخاب کے موقع پر پھر یہ سوال اٹھا تھا جس کا جواب موجودہ انتخابی نتائج نے دیا کہ ہاں صرف ایران ہی نہیں دنیا میں جہاں بھی کسی نظام کے ذریعے عوام کو بیزار کیا جائے گا تو وہ اس نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔ یاد رہے کہ اس الیکشن میں صدارتی امیدواروں میں مسعود پزشکیان بھی شامل تھے۔ وہ واضح طور پر اصلاح پسند ہیں یعنی رجعت پسند مذہبی قیادت سے ہٹ کر کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں ایرانی لوگ شکوک میں بھی مبتلا تھے۔ ذہنوں میں یہ سوال بھی کلبلا رہا تھا کہ وہ امید کی واحد کرن ہیں یا محض اسٹیبلشمنٹ کی کسی نئی چال کا حصہ ہیں۔
دوسری جانب ایران میں جو لوگ سیاسی اصلاحات کے حامی ہیں اُن کے لئے مسعود پزشکیان نے اپنی انتخابی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ ملک اب نئی حکمتِ عملی کے تحت آگے بڑھے گا اور یہ بھی کہ ایران میں چند ایک غیر متوقع امکانات دکھائی دے رہے تھے۔ ایران میں ایک عمومی چلن یہ رہا ہے کہ کوئی بھی امیدوار علما کی ایک طاقتور کمیٹی کی طرف سے اجازت ملنے پر صدارتی انتخاب میں حصہ لے سکتا ہے۔ عوام میں اس عمل سے بیزاری بھی نمایاں تھی اور وہ اسی وجہ سے ووٹ ڈالنے سے کنی کترانے کا رجحان بھی رکھتے تھے۔ اسی خیال سے مسعود پزشکیان کو بہت حد تک وائلڈ کارڈ انٹری بھی قرار دیا جا رہا تھا۔ وہ سابق وزیرِ صحت ہیں۔ امراضِ قلب کے ماہر سرجن ہونے کے ناطے وہ ایک باضابطہ پروفیشنل بھی ہیں۔ مسعود پزشکیان کے حوالے سے یہ بات بہت غیر معمولی اور دلچسپ ہے کہ وہ خواتین کو حجاب کی پابندی کرنے پر مجبور کرنے والی اخلاقی پولیس کو غیر اخلاقی قرار دے چکے ہیں۔ وہ کہہ چکے ہیں کہ ڈریس کوڈ کے حوالے سے اپنایا جانے والا رویہ کسی طور درست نہیں کیونکہ مذہب لباس کے معاملے میں ایسی سختی کی اجازت نہیں دیتا۔ اس حوالے سے بھی ایرانی قوم کو مسعود پزشکیان سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں کہ وہ مغرب سے تعلقات بہتر بنانے کا عندیہ دے چکے ہیں اور قومی معیشت کو بحالی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے اہم مسائل پر گفت و شنید کی بات بھی کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں دو سابق صدور حسن روحانی اور محمد خاتمی کی حمایت بھی حاصل رہی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ سابق وزیر خزانہ جواد ظریف بھی ان کی حمایت کرتے ہیں۔ ایران میں عام خیال یہ بھی تھا کہ اسٹیبلشمنٹ اس بار بھی انتخابی عمل پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔ جمعرات کو دو امیدواروں کے انتخابی دوڑ سے الگ ہو جانے کو بھی اِسی تناظر میں دیکھا جا رہا تھا۔ مسعود پزشکیان کے بڑے حریف محمد باقر موجودہ سپیکر اور پاسدارانِ انقلاب کے سابق کمانڈر ہیں جبکہ جوہری مذاکرات میں کلیدی کردار ادا کرنے والے سعید جلیلی بھی صدارتی انتخاب کی دوڑ میں شریک تھے جو کہ اب واضح طور پر شکست کھا گئے ہیں۔ آزاد انتخابی تجزیہ کار انتخابات سے قبل ہی قرار دے چکے تھے کہ ایرانیوں کو مسعود پزشکیان سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں مگر ابھی پورے یقین سے کہا نہیں جاسکتا کہ وہ اپنے وعدے نبھا بھی پائیں گے اور یہ کہ وہ ویسے ہی ثابت ہوں گے جیسے کہ کمپین میں دکھائی دے رہے تھے۔ یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جاتا تھا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے انہیں کھڑا کیا ہو بہرحال اب مسعود کی پالیسیوں اور آئندہ ایران کے حالات سے سب واضح ہو جائے گا۔
ایران میں صدارتی انتخابات کے دوران ٹرن آئوٹ پچاس فیصد سے بھی کم رہا۔ گو کہ سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے عوام سے کہا تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں گھروں سے نکلیں اور ووٹ کاسٹ کریں۔ یہ سارے عوامل ظاہر کرتے ہیں کہ خاص طور پر ایران کی نئی نسل قدامت پسندی کا خاتمہ چاہتی ہے۔ متوسط طبقے کا بھی یہی خیال ہے۔ ایسے میں یہ صدارتی انتخاب بہت حد تک نظریاتی معرکہ آرائی کے روپ میں ڈھل گیا اور ثابت ہوا کہ نئی نسل چاہتی ہے کہ حقیقی تبدیلی رونما ہو۔ یاد رہے کہ 2022میں مہسا امینی کی پولیس کی حراست میں موت کے بعد ملک میں ہنگامے پھوٹ پرے تھے۔ اس سے عوام اور ریاستی مشینری کے درمیان پہلے سے موجود خلیج مزید وسیع ہوگئی تھی کیونکہ مظاہرین کے خلاف پُرتشدد کارروائیوں نے حکومت سے متعلق نفرت اور بیزاری پر مبنی خیالات کو مزید تقویت دی تھی خصوصاً نوجوان نسل میں۔ عوام میں مجموعی طور پر مایوسی اس لئے بھی تھی کہ ماضی میں اصلاح پسندوں نے اپنے وعدے پورے نہیں کیے تھے۔ یہ بھی کہ اس بار سابق صدر حسن روحانی کو انتخاب لڑنے کی اجازت ہی نہیں دی گئی تھی۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مسعود پزشکیان کو محض اس لئے صدارتی انتخاب لڑنے کی اجازت دی گئی تھی کہ ٹرن آئوٹ بہتر ہو سکتا ہے جبکہ یہ کسی نے سوچا ہی نہیں تھا کہ یہ ٹرن آٹ خود ان کے حق میں ہی ہو گا۔
بہرحال یہ حقیقت ہے کہ ایران میں خواتین کی ایک بڑی تعداد گفتنی اخلاقیات پر مبنی لا یعنی قسم کے قوانین کی کھل کر خلاف ورزی کرتی ہے۔ ایسے میں 69سالہ نو منتخب ایرانی صدر مسعود پزشکیان جنہوں نے اپنی الیکشن مہم میں واضح طور پر یہ کہہ رکھا ہے کہ اگر مخصوص کپڑے پہننا گناہ ہے تو خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ اختیار کیا جانے والا یہ رویہ بھی سو گنا بڑا گناہ ہے۔ مذہب میں کسی کے لباس کی وجہ سے ان سے سختی کی اجازت نہیں۔ مسعود پزشکیان نے اپنے عوام کے ساتھ یہ وعدہ بھی کیا ہے کہ وہ جوہری مذاکرات کو بحال کریں گے تاکہ ملک کی معیشت کو کمزور کرنے والی عالمی پابندیوں کا خاتمہ کیا جا سکے۔ جیسا کہ بتایا گیا ہے کہ انتخابات میں مسعود کو عوامی سطح پر دو سابق اصلاح پسند صدور حسن روحانی اور محمد خاتمی کی حمایت بھی حاصل تھی۔ سابق وزیر خزانہ جواد ظریف بھی ان کے حامیوں میں شامل تھے۔ اس پر مستزاد یہ کہ الیکشن سے ایک روز قبل ان کی انتخابی ریلیوں میں بڑے بڑے مجمعے دیکھے گئے۔ اس سے قبل جمعرات کو دو امیدوار الیکشن کی دوڑ سے باہر ہو گئے تھے۔ چند تجزیہ کاروں کی جانب سے اسے ملک کی رجعت پسند اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے قدامت پسند ووٹوں کی تقسیم کو روکنے کی کوشش کے طور پر دیکھا گیا مگر نتائج بالآخر رجعت پسندوں کے خلاف آئے ہیں۔ چند روز قبل جب قدامت پسند امیدوار محمد باقر کے حامیوں نے مرکزی تہران میں موٹر سائیکل ریلی نکالی تو آزاد سروے میں مسعود پزشکیان کو ہی حریف محمد باقر پر سبقت حاصل ہونے کی پیش گوئی کی گئی تھی۔
گو کہ سعید جلیلی جو نتائج کے مطابق قریب ترین حریف ثابت ہوئے ہیں نے بھی ماضی میں جوہری مذاکرات میں اہم کردار ادا کیا تھا مگر عوام نے بیداری کا ثبوت دیا ہے۔ واضح رہے کہ ایران میں قدامت پسند طبقہ مغرب سے بات چیت کا مخالف ہے۔ اس کا ماننا ہے کہ عالمی پابندیوں کے باوجود ایران کامیاب ہو سکتا ہے لیکن بڑی تعداد میں ایرانی نوجوانوں اور مڈل کلاس ووٹرز نے ثابت کر دیا کہ وہ ایرانی ریاست کی جانب سے منظم ہونے والے کسی بھی متوقع سیاسی عمل سے بیزار ہو چکے ہیں اور 45سالہ قدامت پسند دور کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ انہوں نے اسی امید میں پولنگ سٹیشن کا رُخ کیا ہے کہ انہیں مسعود پزشکیان کی شکل میں ایک امید کی کرن نظر آتی ہے۔





