نئے مقدمات

محمد مبشر انوار( ریاض)
اسے جمہوریت کی تنزلی کہیں یا فسطائیت کی انتہا، ہر دو صورتوں میں جمہوریت کے دعویداروں کے لئے باعث شرمندگی ہے کہ کسی جمہوری ملک /معاشرہ میں ایسی روایات نظر نہیں آتی بلکہ بتدریج جمہوری اطوار میں مسلسل بہتری دکھائی دیتی ہے جو معاشروں کو ترقی و خوشحالی کی منزل سے قریب کرتی ہے۔ سیاسی حریفوں کا مقابلہ بھی سیاسی میدان میں کیا جاتا ہے اور عوامی فلاح کے لئے بہتر سے بہتر پالیسیاں ترتیب دی جاتی ہیں،سیاسی نمائندے یا کارکنوں کی اکثریت عوام الناس میں اٹھتی بیٹھتی ہے، عوامی مسائل کا شعور رکھتی ہے اور اسی کے مطابق اپنی قیادت کو پالیسیاں ترتیب دینے کے لئے مشورے دیتی ہے لیکن یہ ان معاشروں میں ہوتا ہے جہاں واقعی جمہوریت اور جمہوری اقدار زندہ ہوں۔ سیاست عوامی میدان میں، عوام کے لئے اور عوامی حمایت سے ہوتی ہو نہ کہ ہوس اقتدار، انتقامی جذبے قومی مفادات و جمہوری اقدار پر حاوی نہ ہوں، ضد و انا کے شکار طاقتوروں کی خواہشات کے احترام میں ریاستی مشینری ،آئین و قانون کی دھجیاں نہ بکھیرتی دکھائی دے بلکہ ایسی کسی خواہش کے سامنے آئین و قانون کو ڈھال بنائے ،رائج الوقت قانون کی عملداری میں سینہ سپر ہو کجا عوامی سیاسی مینڈیٹ کو توڑ مروڑ کر ،قانون کی من پسند تشریح کرتے ہوئے ،نتیجہ کسی شکست خوردہ سیاسی جماعت /امیدوار کے حق میں دکھا کر اسے کامیاب کروا دے۔ بدقسمتی سے پاکستانی سیاسی تاریخ ایسے ہی واقعات سے مزین دکھائی دیتی ہے کہ جہاں تقریبا ہر انتخاب میں ، ریاستی مشینری کی نااہلی و جانبداری کے باعث، انتخابی نتائج کو قبل از انتخاب اور مابعد دھاندلی زدہ قرار دیا گیا ہے اور ہر شکست خوردہ سیاسی جماعت نے اپنا مینڈیٹ چوری ہونے کا واویلا کیا ہے۔ ابتداء میں تو یہ واویلا نسبتا کم رہا لیکن 1977کے عام انتخابات کے بعد سے یہ الزامات ایک تسلسل کے ساتھ انتخابی عمل پر لگ رہے ہیں اور ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اتنے عرصہ میں ہم اس عذاب سے جان چھڑانے کے لئے کوئی حل تلاش کرتے، ہم ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید مشکلات کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ اس پس منظر میں یہ واضح ہے کہ ہر وہ سیاسی جماعت، جس کا مینڈیٹ چھینا گیا یا چھینا جاتا ہے، وہ احتجاج کرے گی، جس میں شدت اس لئے بھی زیادہ ہوتی جار ہی ہے کہ وہ محکمے جو اس کا ازالہ کرنے پر مامور ہیں، وہ بذات خود اس حق تلفی میں ملوث رہتے ہیں لہذا ان سے انصاف کی توقع عبث ہے۔ ان کی ہر ممکن کوشش یہی ہوتی ہے کہ سلب کیا گیا حق کسی بھی صورت حق دار کو نہ ملے، خواہ اس کے لئے انہیں کچھ بھی کرنا پڑے، آئین و قانون کی من مانی تشریح اور جانبداری سے حقدار کو حق سے محروم رکھا جاتا ہے اور عدالتی نظام میں بھی تاخیری حربے استعمال کئے جاتے ہیں۔ اگر اس سے بھی مقصد کا حصول ممکن نہ ہو تو مزید ایسے قوانین متعارف کروائے جاتے ہیں کہ جن کو سرسری نظر سے دیکھتے ہی یہ تاثر پختہ تر ہو جاتا ہے کہ ہوس اقتدار میں اندھے سیاسی و غیر سیاسی کسی بھی صورت اپنی نا پسندیدہ جبکہ عوامی حمایت رکھنے والی سیاسی جماعت کو حق رائے دہی کی بنیاد پر اقتدار دینے کے لئے راضی نہیں۔ کچھ ایسی ہی صورتحال اس وقت بھی ہمیں پاکستانی افق پر دکھائی دے رہی ہے کہ ایک طرف تحریک انصاف کے انتخابی امیدواران اپنی انتخابی عذرداریوں میں اپنی شکست کے خلاف روبہ عمل ہیں تو دوسری طرف عدالتی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسے ججز نظر آ رہے ہیں کہ جو آئین و قانون کی بالادستی کی جنگ میں ہر طرح کا دباؤ مردانہ وار برداشت کرتے نظر آتے ہیں، جس نے سٹیٹس کو، کے لئے مشکلات کھڑی کر رکھی ہیں۔ان مشکلات سے نکلنے کے لئے مبینہ طور پر قوانین میں تبدیلی کی جار ہی ہے، جو اشرافیہ کی سپورٹس مین سپرٹ کو آشکار کر رہی ہے کہ اپنی کامیابی کو برقرار رکھنے کے لئے موجودہ قوانین پر غیر جانبدارنہ عملدرآمد کے باعث،کامیابی ،ناکامی میں تبدیل ہو سکتی ہے لہذا حاضر سروس ججز کی بجائے ،ریٹائرڈ ججز کی تعیناتی کا قانون لایا جارہا ہے تا کہ اپنی کامیابی کو قائم رکھا جا سکے۔
بہرکیف ایسے اقدامات کی توقع فقط ایسی اشرافیہ سے ہی کی جا سکتی ہے جسے اپنی ناکامی نوشتہ دیوار دکھائی دے رہی ہو، جس کا ناقابل تردید ثبوت ایک ایک قدم سے لگایا جا سکتا ہو، ایسی اشرافیہ کی اہلیت و قابلیت کا اس سے بڑھ کر اور ثبوت کیا ہو سکتا ہے کہ انتخابی ریکارڈ کو محفوظ رکھنے کی شق تک صرف اسلئے بدل دی جائے تا کہ کم سے کم مدت میں اسے ضائع کرکے اپنی دھاندلی زدہ کامیابی کو دوام بخشا جا سکے۔ جبکہ اس دوران انتخابی عذرداریوں کو حیلے بہانے اتنا طویل کیا جا سکے کہ یہ کم سے کم مدت گزر جانے پر کسی بھی عدالت کو انتہائی رسانی سے ریکارڈ کی عدم دستیابی کا جواز فراہم کیا جا سکے۔ برسبیل تذکرہ انتخابی ریکارڈ کی عدم دستیابی کے حوالے سے بیرسٹر اعتزاز احسن آج کل اکثر اپنی انتخاب عذرداری کے متعلق بتاتے نظر آتے ہیں کہ انتخابی ریکارڈ کے بکس کھلوانے پر انہیں ردی کا مشاہدہ کرنا پڑا تھا،یہ تب کی بات ہے جب انتخابی ریکارڈ کو محفوظ رکھنے کی کم از مدت پانچ سال ( ایک انتخابی مدت) تھی،اس مدت کو اب انتخابی مدت سے کم کرکے غالبا ایک سال کیا جا چکا ہے، جو یقینی طور پر انتہائی نامناسب اور غلط اقدام ہے کہ جب تک مجوزہ انتخاب کی مدت ہے، ریکارڈ تب تک صحیح حالت میں محفوظ رہنا چاہئے نہ کہ عذرداری میں ردی نکلے۔’’ ووٹ کو عزت دو‘‘ کے جمہوریت ’’ نوازوں ‘‘ کی تاریخ ایسے بے مثال کارناموں سے بھری پڑی ہے کہ انہوں نے کس طرح اس ملک میں جمہوریت کو دیمک کر طرح نگلا ہے، کیسے سیاسی حریفوں پر زمین تنگ کی ہے،کس طرح ریاستی مشینری کا اپنے حق میں بے محاباو شتر بے مہار کی طرح استعمال کیا ہے۔1988کے انتخابی عمل میں بیرسٹر اعتزاز احسن نے قومی اسمبلی کی نشست تقریبا 35000کے واضح فرق سے جیتی تھی اور 1990کے انتخابات میں بھی اعتزاز احسن یہ نشست واضح برتری کے ساتھ جیتے تو تھے لیکن فرق کافی کم ہو چکا تھا جبکہ 1993کے انتخابات میں اعتزاز احسن اپنی نشست جمہوریت ’’ نوازوں‘‘ کی انتخابی پالیسی میں بچا نہیں پائے، جو آج تک بھی ان کے لئے ممکن نہیں ہوا۔ اس انتخابی طریقہ کار کے متعلق تمام حقائق میڈیا کی زینت بن چکے ہیں کہ کیسے ہر حلقہ میں ووٹوں کا اندراج کروایا گیا ہے ،کیسے انتخابی عمل کے روز انتخابی عملے کو اپنے ساتھ ملایا جاتا رہا ہے ،کیسے انتخابی نتائج لے جانے والی الیکشن کمیشن کے عملہ کی گاڑی کہاں اور کیسے اپنی ہم شکل گاڑی سے تبدیل ہوتی رہی،جس میں من پسند انتخابی نتائج الیکشن کمیشن پہنچتے اور نتیجتا جمہوریت ’’ نوازوں‘‘ کے امیدواران کامیاب قرار دے دئیے جاتے۔
بزعم خود اس ’’ حکمران خاندان‘‘ نے ،جو بذات خود جمہوریت اور ووٹ کو عزت دو کے بیانئے کی نفی ہے،سیاسی مخالفین کے لئے زمین تنگ کئے رکھی ایک طرف سیاسی میدان میں قبضہ کیا جا رہا تھا تو دوسری طرف سیاسی مخالفین کے خلاف انتقاما مقدمات کی بھرمار کر کے،انہیں عدالتوں میں گھسیٹا جاتا رہا تا کہ وہ یکسوئی کے ساتھ سیاسی میدان میں بروئے کار نہ آ سکیں۔ اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ عدالتوں میں اپنے سیاسی مخالفین کو جھوٹے مقدمات میں سزائیں دلوانے تک ،کارروائی ڈالی گئی،اعلی عدالتوں کے ججز کو فون کالیں کرنا اور ان مقدمات میں سزاؤں کی مدت تک کا تعین خود کیا جاتاتا کہ سیاسی مخالفین اس گھن چکر سے باہر نہ نکل سکیں۔نجانے ایسے ذہن نارسا کیسے اس حکمران خاندان کو میسر ہوئے جنہوں نے قانون کا غیر قانونی سہارا استعمال کرنے کانادر ترین مشورہ اس خاندان کو دیاتاہم اس کے باوجود،اپنی تمام تر خواہش اور فطرت ،وہ سیاسی مخالفین کو میدان سے نکال باہر کرنے میں ناکام ہی رہے وگرنہ ان کا بس چلتا تو یہ بعینہ عوامی مسلم لیگ ،نیپ کی مانند مخالفین کی سیاسی جماعتوں پر پابندی لگوانے سے گریز نہ کرتے۔ تاہم ان کے موجودہ حریف عمران خان پر ان کی ’’ نوازشات‘‘ ماضی کے کسی بھی حریف سے کہیں زیادہ ہیں کہ عمران خان پر بنائے گئے مقدمات نے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے ہیں البتہ اس مرتبہ فرق یہ پڑا ہے کہ عدالتیںاپنی کارروائی میں قدرے سرعت سے بروئے کار آ رہی ہیں اور خواہشات کے برعکس فیصلے سامنے آ رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ایک طرف امریکی کانگریس کی اکثریت پاکستان انتخابی عمل پر سوال اٹھا رہی ہے تو دوسری طرف اقوام متحدہ کی ورکنگ کمیٹی کی جانب سے جاری کردہ تحقیقاتی رپورٹ یہ کہہ رہی ہے کہ عمران خان کو ذاتی خواہشات کی بنیاد پر غیر قانونی طور پر قید رکھا گیا ہی تو تیسری طرف اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل عمران کے حوالے سے مثبت مستقبل کی توقع کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔اس پس منظر میں پنجاب کابینہ نے ان عوامل کے برعکس،عمران خان اور تحریک انصاف کے خلاف ’’ غداری‘] کے مقدمات قائم کرنے کی منظوری دے کر،اپنی ہٹ دھرمی کا اظہار کیا ہے ،اپنی کمزوری کا اظہار کیا ہے یا ناجائز طریقے سے حاصل کی گئی حکومت کو قائم رکھنے کی سعی کی ہے؟کسی بھی سیاسی جماعت کو بوجوہ آزادی اظہار رائے کی بنیاد پر ’’غدار‘‘ قرار دینا،فسطائیت کے زمرے میں ہی آتا اور ایسے مقدمات کی حیثیت، موجودہ صورتحال میں مخالفین کو اسیر رکھنے ،لاکھ کوشش کے باوجود صفر سے زیادہ کچھ نہیں البتہ اپنے سیاسی دامن پر موجودداغوں میں ایک اور کا اضافہ ضرور ہے۔





