ColumnImtiaz Aasi

محاصل کی وصولی کا چیلنج

امتیاز عاصی
کسی ملک کی معاشی حالت کی بہتری میں محاصل کی وصولی کا اہم کردار ہوتا ہے۔ جن ملکوں میں عوام اور کاروباری طبقہ بغیر کسی جدوجہد کے اپنے حصے کا ٹیکس ادا کرتے ہیں ایسے ملکوں کو معاشی مسائل کا کم ہی سامنا ہوتا ہے۔ قیام پاکستان سے اب تک کسی حکومت نے ٹیکس کی وصولی کے معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا اس مقصد کے حصول کے لئے بلاتفریق ٹیکس نادہندگان کے خلاف کارروائی کی جاتی تو ٹیکس وصولی میں حکومت کو جن مشکلات کا سامنا ہے وہ نہ ہوتیں۔ وطن عزیز کو اس وقت جہاں دیگر مسائل کا سامنا ہے وہاں محاصل کی وصولی حکومت کے لئے بہت بڑا چیلنج ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب نے درست کہا ہے ایف بی آر اور ٹیکس دہندگان دونوں چوری میں ملوث ہیں۔ ہم ماضی کی طرف لوٹیں تو کسی حکومت نے کاروباری طبقہ پر ٹیکس لگایا تاجروں نے شٹر ڈائون کی کال دے دی جس کے سامنے برسر اقتدار حکومت نے گھٹنے ٹیک دیئے اور ٹیکس وصولی کا کام وہیں رہ گیا۔ ملک کی بڑی بدقسمتی ہے ریاست پاکستان پر زیادہ تر کاروباری طبقہ کے لوگ برسراقتدار رہے ہیں جن کے ہوتے ہوئے حکومت کو ٹیکسوں کی وصولی میں مشکلات کا سامنا رہا ہے۔1985سے اب تک پیپلز پارٹی کے علاوہ ملک پر کاروباری لوگوں کی حکمرانی رہی ہے لہذا ان کی موجودگی میں تاجر برادری سے محاصل کی وصولی خواب رہا ہے۔ ایک دانشور کے بقول کاروباری لوگوں کے اقتدار میں آنے کی صورت میں ایسے ملک کبھی ترقی نہیں کرتے بلکہ معاشی طور پر تباہ ہو جاتے ہیں۔ پنجاب سے وفاق تک شریف خاندان برسراقتدار رہا ہے ان کی طویل حکمرانی کے دور میں حکومت نے ٹیکس وصول کے سلسلے میں تاجر برادری کے سامنے ہاتھ کھڑے کر دیئے انہیں ملک و قوم کی ترقی کا احساس ہوتا وہ کسی صورت میں ٹیکس وصولی کے ٹارگٹ سے پیچھے نہیں ہٹتے۔ سرکاری ملازمین ہیں جن سے حکومت جبرا ٹیکس وصول کرتی ہے۔ عجیب تماشا ہے کئی لاکھ تاجروں کی موجودگی کے باوجود سرکاری ملازمین سے ٹیکسوں کی مد میں ان سے زیادہ ٹیکس حکومت کو وصول ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں سب سے بڑا مسئلہ قانون کی حکمرانی کاہے جس روز مملکت کے امور قانون اور آئین کے مطابق معاملات چلائے جائیں گے نہ ٹیکس وصولی میں کوئی مشکل پیش آئے گی بلکہ ہر شہری خود بخود ٹیکس جمع کرانے کی طرف راغب ہو گا۔ وفاقی وزیر خزانہ کے مطابق بیالیس ہزار رجسٹرڈ ریٹیلرز پر ٹیکس کا نفاذ ہو گیا ہے جو ایک مثبت پیش رفت ہے۔ جس طرح حکومت آپریشن عزم استحکام کی طرف رواں دواں ہے اگر اسی طرح ٹیکس وصولی کے لئے ایک بڑے آپریشن کا آغاز کیا جائے تو اس کے بہتر نتائج نکل سکتے ہیں۔ حکومت کو محاصل کی وصولی کے سلسلے میں نئی اصلاحات کی بھی ضرورت ہے۔ حکومت نے رٹییلرز پر ٹیکس لگایا ہے اس ضمن میں شہروں میں کاروباری طبقے کی مشاورت سے سمینار ز کا انعقاد کرکے ٹیکس دینے کی طرف رغبت دلائی جاتی تو اس کے بہتر نتائج نکل سکتے تھے۔ اگرچہ وفاقی وزیر خزانہ کا یہ اقدام ٹیکس وصولی کی طرف اہم پیش رافت ہے جس میں کئی ہزار رٹییلرز کو رجسٹرڈ کیا گیا ہے اس کے ساتھ حکومت کو بڑے بڑے کاروباری لوگوں کو ٹیک نیٹ میں لانے کی ضرورت ہے۔ عمران خان کے دور میں کئی لاکھ نئے ٹیکس دہندگان کو رجسٹرڈ کیا گیا تھا تو موجودہ حکومت کو بھی چاہیے وہ بلاتفریق اشرافیہ سے کوئی لحاظ رکھے بغیر ٹیکس وصولی کو یقینی بنائے۔ توجہ طلب پہلو یہ ہے بڑے بڑے کاروباری لوگوں نے ٹیکس سے بچنے کے لئے مختلف خیراتی ادارے بنائے ہوئے ہیں جن میں ضرورت مندوں کو مفت کھانا فراہم کیا جاتا ہے انسانیت کے ناطے ان کا یہ اقدام قابل ستائش ہے اس کے باوجود ٹیکس حکام کو ان کے بارے پوری چھان بین کرنی چاہیے کہیں وہ ٹیکسوں سے بچنے کی خاطر رفاعی ادارے تو نہیں بنائے ہوئے ہیں۔ جس روز حکومت چھوٹے بڑے کا لحاظ رکھے بغیر ٹیکس وصولی کو یقینی بنائے گی اس روز ہمارا ملک ترقی کی طرف گامزن ہو جائے گا۔ ٹیکس سے بچنے کی خاطر بڑے بڑے کاروباری لوگوں نے کم سے کم ٹیکس دینے کے لئے ٹیکس ماہرین کی خدمات حاصل کی ہوتی ہیں جو انہیں کم سے کم ٹیکس دینے کے نئی نئی راہیں دکھاتے ہیں لہذا اس کلچر کو ختم کرنے کے لئے ایف بی آر میں راست باز اعلیٰ افسران کی تعیناتی کو یقینی بنایا جائے ورنہ ٹیکس وصولی کی یہ مشق کہیں رائیگاں نہ چلی جائے۔ حکومت کا یہ اقدام خوش آئند ہے وہ رئیل اسٹیٹ اور ڈویلپر ز پر ٹیکس عائد کر رہی ہے بڑی بڑی ہائوسنگ سوسائیٹوں کے لوگ کھربوں روپے کا کاروبار کرنے کے باوجود ٹیکس ادا کرنے سے گریزاں ہیں۔ وفاقی وزیر خزانہ کے نئے اقدامات سے ہمیں قوی امید ہے آئندہ مالی سال کے دوران ٹیکس وصولی کا ٹارگٹ توقع سے بہت زیادہ ہوگا اور تمام لوگوں کو بلاامتیاز ٹیکس ادا کرنا پڑے گا ۔ ہمارا ملک معاشی مسائل کے گرداب سے نکلنے میں اسی وقت کامیاب ہو سکتا ہے جب حکومت ٹیکس وصولی کے ضمن میں کسی کا لحاظ رکھے بغیر ٹیکس وصولی کو یقینی بنائے تو ریونیو وصولی کا ہدف پورا کرنے میں کامیابی یقینی ہے۔ افسوسناک پہلو یہ ہے ایک طرف حکومت ٹیکس وصولی کا رونا روتی ہے دوسری طرف ارکان پارلیمنٹ کی مراعات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ اس سلسلے میں وفاقی وزیر خزانہ کا موقف ہے بارہ چودہ سالوں سے ارکان پارلیمنٹ کی مراعات میں اضافہ نہیں ہوا تھا لہذا اس لئے ان کی مراعات میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ سوال ہے کیا ارکان پارلیمنٹ کا تعلق غرباء طبقے سے ہوتا ہے بعض ارکان پارلیمنٹ حکومتی مراعات سے دستبردار ہو جاتے ہیں۔ اخلاقیات کا تقاضا ہے ایسے لوگ جو پارلیمنٹ یا کابینہ کا حصہ ہوتے ہیں انہیں قومی خزانے کی مراعات سے دستبردار ہو نا چاہیے۔ اگر ان کی سیاست کا مقصد عوام کی خدمت ہے تو انہیں عوام کے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی مراعات سے بھی دستبردار ہو جانا چاہیے نہ کہ حکومت سے زیادہ سے زیادہ مراعات حاصل کریں۔ حکومت کو ٹیکس ڈیفالٹرز کو سزائیں دینے کے قوانین میں ترامیم کی بہت ضرورت ہے تاکہ لوگ سزائوں کے خوف سے ٹیکس دینے کی طرف راغب ہوں۔

جواب دیں

Back to top button