ہمارا مستقبل ہمارے بچے

فیاض ملک
ہمارا مستقبل ہمارے بچے کتنے بڑے خطرے سے دوچار ہیں اس کا اندازہ اس خبر سے بآسانی لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ دنوں آرگنائزڈ کرائم یونٹ نے داتا دربار کے علاقہ میں کارروائی کرتے ہوئے وہاں لاوارث بچوں سے بدفعلی کرانے والے چار رکنی گینگ کو گرفتار کرکے ان کے قبضے سے آٹھ بچوں کو بازیاب کرایا تھا ،پولیس کے مطابق ان ملزمان نے ایک پریشان کن معاوضے کے عوض سرائے میں بچوں کو جنسی زیادتی کے گھنائونے مقصد کیلئے ترتیب دینے کا اعتراف کیا کہ وہ وہاں آنے والوں سے ان گھنائونی حرکتوں کیلئے 500سے 1000روپے تک کی رقم وصول کرتے تھے، ڈی آئی جی آرگنائزڈکرائم یونٹ عمران کشور کے مطابق اس گروہ کے مزید ارکان کی گرفتاری کیلئے کوششیں جاری ہیں، یہی نہیں چند روز قبل اندرون لوہاری گیٹ جیسے گنجان آباد علاقے میں گھر کے باہر کھیلتے ہوئے6 سالہ معصوم بچے کو اغواء کرلیا گیا تھا ،اغواء کی یہ واردات اس وقت پیش آئی جب معصوم بچہ گھر سے پانی لینے نکلا، اسی دوران ملزم نے اس کو موٹر سائیکل پر اغواء کر لیا، تاہم واردات میں ملوث سفاک ملزم کو اے ایس پی سٹی شازیہ اسحاق کی پولیس ٹیم نے دو گھنٹے کے قلیل عرصے میں جدید ٹیکنالوجی کیمروں اور ہیومین ریسورس کی مدد سے ٹریس کرکے ناصرف گرفتار کر لیا بلکہ اس کے قبضے سے بچے کو بازیاب بھی کرا لیا، پولیس کے مطابق سفاک ملزم بچوں کو اغواء کر کے زیادتی کا نشانہ بناتا تھا، ایس پی سٹی قاضی علی رضا کے مطابق ملزم بچوں کو ورغلا کر کے بدفعلی کا نشانہ بناتا، وہ پہلے بھی بچوں کے ساتھ بدفعلی کے مقدمہ میں ریکارڈ یافتہ ہے، سی سی ٹی وی فوٹیج میں ملزم کو بچے کو اپنے ساتھ لیجاتے دیکھا جا سکتا ہے، ان کا مزید کہنا ہے کہ ملزم سے تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے، قارئین کرام! یہ دونوں واقعات پنجاب کے کسی دور افتاد علاقے کی نہیں بلکہ شہر لاہور کے انتہائی بارونق علاقوں کے ہیں، ان واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ اس وقت بچوں کا اغواء بدقسمتی سے جرائم پیشہ عناصر کیلئے اب ایک منافع بخش تجارت کی صورت اختیار کر چکا ہے، معصوم بچے اغواء کاروں کیلئے آسان ہدف ہیں وہ انہیں رنگ برنگے کھلونے، انوکھی ڈیوائیسز، چاکلیٹس کا جھانسہ دے کر یا انہیں کنفیوژ کرنے اور ورغلانے والے جملے استعمال کرکے اغوا کرکے منظم طورپر مختلف شہروں سے اغوا شدہ بچوں کو ٹھیکے پر لیکر آتے ہیں، منتخب علاقوں میں بھکاری بچوں کو رکشہ، بسوں میں بٹھا کر رات کو اکٹھا کرکے مقررہ جگہوں پر لے جایا جاتا ہے، جہاں ان سے مشقت لینے کے ساتھ ساتھ ان معصوموں کو جنسی ہوس کا نشانہ بنایا جاتا ہے، بچوں پر جنسی تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات ہم سب کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ دیکھا جائے تو اس حوالے سے معاشرتی کردار یہ ہونا چاہیے کہ ان معصوم بچوں سے بڑے سمارٹ طریقے سے پوچھا جائے کہ ان کے ساتھ کوئی زبردستی تو نہیں کر رہا۔ کیا وہ والدین کے پاس رہتے ہیں۔ کیا وہ گھر کی معاشی مجبوری کی وجہ سے بھیک مانگتے ہیں یا کوئی اور ان سے مجبوراً یہ سب کرا رہا ہے، لیکن یہ سب کریں گا کون؟ معصوم بچوں کا اغواء ایک انتہائی سنگین جرم ہے اور بدقسمتی سے یہ جرم بطور خاص ترقی پذیر ممالک میں زیادہ پایا جا سکتا ہے، کیونکہ ان ممالک میں بچوں کے اغواء کے پیچھے کئی وجوہ کار فرما ہیں۔ جس میں بچوں سے مزدوری کرانا، بچوں کے ذریعے بھیک منگوانا، لاولد جوڑوں کی اولاد کی ضرورت کی تکمیل کرنا اور قحبہ گری جیسے عوامل شامل ہیں، بچوں سے زیادتی، تشدد، ریپ کیسز میں مسلسل اضافہ بھی اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے، اس مجرمانہ فعل کے پیچھے افلاس، غربت، عوام کیلئے وسائل کی کمی اور حکومت کی اس طرح کے غیر انسانی عمل کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکامی بنیادی محرکات ہیں، بچوں کے ساتھ روز بروز بڑھتے جنسی واقعات کے پیش نظر، بچوں کو جسمانی صحت، جنسی افعال اور خطرات کے بارے میں آگاہ کرنا اور خطرناک صورت حال سے نمٹنے کیلئے ذہنی طور پر تیار کرنا، تعلیمی اداروں، معاشرے، والدین اور سرپرستوں کی اہم ذمہ داری ہے۔ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور استحصال کرنے والے بچوں سے ان کی معصومیت اور ان کا بچپن چھین لیتے ہیں، یہ صرف قانونی مسئلہ نہیں بلکہ سماجی مسئلہ بھی ہے۔ اسی طرح کئی اہم معاملوں میں بچوں کا خیال رکھنا ضروری ہے، معاشرے کی بہتری کیلئے ہماری ذرا سی توجہ ان اغواء کاروں کے منفی عزائم کو ناکام بنانے کیلئے کافی ہو گی۔ مثلاً اگر کوئی شخص کسی کام میں چھوٹے بچے سے مدد کی درخواست کرے تو یہ ایک ریڈ الرٹ یا انتباہی اشارہ ہے کیونکہ عام حالات میں میچور افراد بچوں سے مدد کی التجا نہیں کرتے، اس کے علاوہ اگر کوئی بچہ پریشانی کے عالم میں کسی خاتون یا مرد سے ہاتھ چھڑوا رہا ہو تو بچے سے پوچھنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے کہ سب کچھ ٹھیک ہے؟ اگر تو وہ اغواء کار ہوا تو بچہ چھوڑ کر بھاگ جائے گا کہ لوگ اس کے چہرے کو اپنے ذہنوں میں نقش نہ کر لیں۔ ایسے بھی واقعات رپورٹ ہوئے کہ جب بچوں کو کسی اجنبی نے ہیوی بائیک کی سیر کا لالچ دے کر اغواء کر لیا کہ اگر تم نے سواری کی تو سپرمین لگو گے، بہت کم لڑکے ہی اس طرح کی جوشیلی آفر کو ریجیکٹ کر پاتے ہیں، اگر آپ بھی ایسی صورتحال دیکھیں تو اپنی بصیرت کا استعمال کریں کہ آخر ایک موٹرسائیکل سوار کسی اجنبی بچے کو اپنے ساتھ موٹرسائیکل کی سیر کی پیشکش کیوں کر رہا ہے؟ بسا اوقات مشکوک اشخاص گرائونڈز کے گرد مسلسل چکر لگا کر جائزہ لیتے رہتے ہیں، ایسے افراد زیادہ مشتبہ ہوتے ہیں، انکی تصویر انہی کے سامنے لے لیجیے تاکہ یہ بھی بھانپ لیں کہ وہ شک کے دائرے میں آ چکے ہیں۔ ایسا کرنا ممکنہ اغواء کار کو ہراساں کر دے گا۔ ہماری ایک خامی یہ بھی ہے کہ ہم نے اپنے بچوں کو ٹریننگ ہی نہیں دی کہ لوگ بچوں کو کن حیلے بہانوں سے اغواء کرتے ہیں اور اغواء ہونے سے کس طرح بچا جا سکتا ہے؟ والدین کی اکثریت اپنے بچوں کو وقت نہیں دے پا رہی ہوتی، اگر بچہ اپنی کوئی مشکل بیان کرنے کی سعی بھی کرے تو والدین اس کے کچھ کہنے سے قبل ہی اسے جھڑک دیتے ہیں۔ اس لیے بچے زیادہ تر گھر سے باہر رہنے کو ترجیح دیتے ہیں اور اس طرح کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آجاتا ہے۔ اپنے بچوں کو وقت دیجیے، دوریاں ختم کرکے دوستی کی فضا کو پروان چڑھائیں تاکہ کوئی تیسرا اس تعلق میں نہ گھس سکے۔ میڈیا پر اور تعلیمی اداروں میں اس کی روک تھام کیلئے بچوں اور ان کے والدین کو احتیاطی اور حفاظتی تدابیر سے آگاہی کی ورکشاپس کا اہتمام کیا جائے۔ تعجب کی بات ہے کہ ہے اس قدر اغواء کی وارداتوں کے باوجود کچھ والدین ابھی تک اپنے جگر گوشوں سے بے پرواہی برتتے ہیں، معصوم بچوں کو رات گئے تک تنہا گلیوں اور بازاروں میں بے مقصد گھومتے پھرتے دیکھا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ والدین کی مجرمانہ غفلت بھی وارداتوں میں اضافے کا باعث ہے، اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے سب سے زیادہ ذمہ داری والدین کی بنتی ہے کہ وہ اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھیں۔ معصوم بچوں کا اغواء روکنے اور اغواء کاروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے جہاں ریاستی اداروں کو آپس میں سرجوڑ کر منصوبہ بندی بنانے کی ضرورت ہے وہاں بچوں کے والدین ، سرپرستوں سمیت معاشرے کے مختلف طبقات کو اپنی خدمات پیش کرنا ہونگی۔





