Column

عوامی غیض اور جماعت اسلامی کا دھرنا

رفیع صحرائی
سمجھ نہیں آ رہی حکمرانوں کو کس بات کی جلدی ہے۔ قصائی بھی جانور کو ذبح کرنے سے پہلے پانی پلا لیتے ہیں مگر شہباز حکومت تو سانس بھی نہیں لینے دے رہی۔ اب تو چھری سے بھی عوام کو ذبح نہیں کیا جا رہا بلکہ یوں لگتا ہے کسی آرے کے آگے ڈال دیا گیا ہے جہاں گلا کاٹنے سے پہلے قسطوں میں جسم کے ٹکڑے کر کے عوام کی اذیت میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ عوام ایک جھٹکے سے سنبھال نہیں پاتے کہ انہیں دوسرا جھٹکا دے دیا جاتا ہے۔ جھٹکوں کا ختم نہ ہونے والا یہ سلسلہ عوامی غیض و غضب میں اضافہ کر رہا ہے۔ ہر گزرتا دن حکومت کے لئے شدید ترین نفرت کے جذبات ابھار رہا ہے لیکن محترم وزیرِ اعظم نے کان اور آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ عوام تیل کی قیمت میں اضافے کے جھٹکے سے سنبھل نہیں پائے تھے کہ وفاقی کابینہ نے 5روپے 72پیسے فی یونٹ بجلی کی قیمت میں اضافہ کی منظوری دے دی ہے۔ یہ منظوری بنیادی ٹیرف پر دی گئی ہے۔ یعنی ایک دو ماہ کے لئے نہیں بلکہ مستقل طور پر یہ اضافہ کیا گیا ہے۔ اس اضافے کی منظوری اس مراعات یافتہ طبقے سے تعلق رکھنے والے بے حِس وزراء نے دی ہے جنہوں نے کبھی بجلی کا بل ادا ہی نہیں کیا۔
کتنی ستم ظریفی کی بات ہے کہ قوم کا مقدر ایسے ہاتھوں میں ہے جو خود ارب اور کھرب پتی ہونے کے باوجود بھکاری بنے ہوئے ہیں۔ یہ سرکاری سانڈ بجلی، پٹرول اور گیس مفت اور بے تحاشہ استعمال کرتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ان کے نوکر چاکر بھی اس خیرات سے مستفید ہوتے ہیں۔ آپ بے حسی کی انتہا دیکھئے کہ ایک مبینہ خبر کے مطابق اراکین اسمبلی کو بیرونِ ملک جانے کے لئے سالانہ 25ٹکٹ بطور نذرانہ پیش کئے جاتے تھے جن میں اضافہ کر کے اب 30ٹکٹ سالانہ کر دیئے گئے ہیں۔ یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ کون سی خدمات ہیں جن کے عوضانے میں ان شاہی بھکاریوں کو یہ شہنشاہی بھیک عطا کی جاتی ہے۔ عوام کے ٹکڑوں پر پلنے والے اس مراعات یافتہ طبقے کے افراد کو شرم بھی نہیں آتی جب پانچ چھ سو روپے مزدوری کرنے والے مزدوروں، چھابڑی فروشوں، ریڑھی بانوں،بھٹہ مزدوروں، درجہ چہارم کے ادنیٰ ملازموں، بھیک مانگنے والے اپاہجوں اور بے نظیر انکم سپورٹ کی لائنوں میں لگے ناداروں کی جیبوں پر ٹیکسوں کے ذریعے ڈاکہ ڈال کر یہ اپنے پیٹ کا دوزخ بھرتے ہیں۔ چلچلاتی دھوپ میں تندور جیسے فرشِ زمین پر ننگے زخمی پاں کے ساتھ مزدوری کرنے والوں پر بالواسطہ درجنوں ٹیکس لگا کر رقم اکٹھی کرنے والوں کے دل اللہ کے خوف سے نہیں دہلتے جب ان کے ٹیکسوں سے یہ لوگ ٹھنڈے ٹھار ایئرکنڈیشنڈ کمروں، ایئر کنڈیشنڈ گاڑیوں میں خاندان سمیت لطف اندوز ہوتے ہیں۔
غریب آدمی پر ٹیکسوں کی بھرمار کر دی گئی ہے۔ بجٹ میں ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کر کے عام لوگوں اور سرکاری ملازمین پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے۔ سیمنٹ انڈسٹری پر ٹیکس بڑھایا گیا تو انہوں نے سیمنٹ کی بوری ڈیڑھ سو روپے مہنگی کر دی، فیکٹری کو تو معمولی فرق بھی نہیں پڑا۔ صارفین کی جیب پر ہی بوجھ پڑا۔ لوہا، بجری، اینٹیں اور دوسرے تعمیراتی سامان پر ٹیکسز میں اضافہ کر کے عوام کو ہی نچوڑنے کا بندوبست کیا گیا ہے۔ تاجر، فیکٹری اونرز اور دکان دار قیمت بڑھا کر نقصان سے بچ جاتے ہیں۔ کب تک عوام یہ سب خاموشی سے برداشت کریں گے؟۔ جوں جوں دبا بڑھتا جائے گا عوامی غصے میں شدت آتی جائے گی۔ اور جب یہ لاوا پھٹے گا تو حکمران بچیں گے نہ ان کے تاج سلامت رہیں گے۔
امیرِ جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے 12جولائی کو احتجاجی دھرنے کی کال دے دی ہے۔ انہوں نے حکومت کو خبردار کیا ہے کہ وہ عوام کو خاطر خواہ ریلیف نہیں دے گی تو نتائج بھگتنے کے لئے تیار رہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ غلامی کی انتہا ہے کہ آئی ایم ایف کے کہنے پر ٹیکسز لگائے جا رہے ہیں۔ غریبوں کے سکولوں کو پہلے تباہ کیا گیا اور اب انہیں بیچا جا رہا ہے۔ آٹا، چینی اور دالوں پر ٹیکس لگا کر وزیرِ اعظم کہتے ہیں مہنگائی کم ہو گئی۔ بجلی اور پٹرول کے بم عوام پر گرائے جا رہے ہیں۔ انہوں نے وزیرِ اعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف صاحب! قوم کو ریلیف دو، کہیں قوم بپھر نہ جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 12جولائی کو دھرنے میں بیٹھنے کا اعلان کیا ہے، اٹھنے کا نہیں۔
دیکھا جائے تو حافظ نعیم الرحمان وہ پہلے سیاسی رہنما ہیں جنہوں نے عوام کے حقوق کی بات کی ہے۔ بلاشبہ اس میں ان کے سیاسی مقاصد بھی شامل ہوں گے۔ لیکن ان کے علاوہ کسی دوسرے سیاسی رہنما نے عوام کی چیخوں پر کان بھی تو نہیں دھرا۔ ان کے علاوہ دیگر تمام سیاسی پارٹیاں کسی نہ کسی طور اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہیں۔ وہ کیوں چاہیں گے کہ اپنے تعیّشات میں کمی کر کے عوام کو ریلیف دیا جائے۔ پی ٹی آئی خیبر پختون خوا میں برسرِ اقتدار ہے۔ پیپلز پارٹی سندھ میں راج سنگھاسن پر براجمان ہے۔ مرکز اور پنجاب مسلم لیگ ن کے زیرِ تسلط ہے۔ بلوچستان میں وہاں کی چھوٹی بڑی پارٹیاں حکومتی پنگھوڑے پر جھولے لے رہی ہیں۔ مولانا فضل الرحمان اپنی سیاسی بارگیننگ میں مصروف ہو کر فائدہ اٹھانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ ایسے میں جماعت اسلامی ہی قابلِ ذکر سیاسی پارٹی بچتی ہے جس نے عوام کے حقوق کی بات دبنگ انداز میں کی ہے۔
عوام حکومت کے ہاتھوں ستائے ہوئے ہیں۔ وہ سخت ڈپریشن اور غصے میں ہیں۔ احتجاج کے لئے لوہا پوری طرح گرم ہے اور حافظ نعیم بھی تپے ہوئے ہیں۔ اگر محترم وزیرِ اعظم نے عوام کو ریلیف دینے کے بروقت اقدام نہ کئے تو پھر آزاد کشمیر جیسے احتجاج کا سامنا کرنے کے لئے ذہنی طور پر تیار ہو جائیں۔ وہاں شہباز شریف صاحب کو گھٹنے ٹیکنے پڑے تھے۔ پنجاب میں احتجاج زیادہ شدید بھی ہو سکتا ہے کیونکہ یہاں پر سیاسی گھٹن زیادہ ہے۔ لوگ اس حبس سے نکلنا چاہتے ہیں۔
جناب وزیر اعظم! اپنے وعدے کے مطابق اشرافیہ سے مراعات واپس لیجئے۔ تنخواہ دار طبقے اور عوام کو ریلیف دیجئے۔ منتخب اراکین اسمبلی، ججز اور بیوروکریسی سمیت تمام مراعات یافتہ لوگوں کے سے مفت بجلی، گیس، پٹرول اور ٹیلی فون کی سہولیات واپس لی جائیں۔ یہ سب تنخواہیں لیتے ہیں۔ انہی میں گزارا کریں۔ بجلی، گیس اور پٹرول کے بل اپنی تنخواہوں سے ادا کریں۔ تب ہی بہتری کے آثار پیدا ہوں گے۔ عوام کو لوٹ کر اشرافیہ میں بانٹنے کا عمل ختم کر کے ہی ملک کو صحیح سمت میں آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو مسلم لیگ ن بھی مستقبل کی مسلم لیگ ق بن کر اپنی تباہی کر بیٹھے گی۔

جواب دیں

Back to top button