تدارک

محمد مبشر انوار( ریاض)
قارئین کرام! گزشتہ دو تحریروں میں حالیہ حج کے حوالے سے اپنی گزارشات آپ کے سامنے رکھی تھیں،تاہم اس کے باوجود سمجھتا ہوں کہ ابھی بھی تشنگی باقی ہے اور کچھ باتیںاور آپ کے گوش گذار کرنا چاہتا ہوں۔ مملکت سعودی عرب ،ولی عہد و وزیراعظم جناب محمد بن سلمان کی قیادت میں ،انتہائی برق رفتاری سے وژن 2030کے حصول میں گامزن ہے اور ریاستی مشینری انتہائی تندہی و عزم کے ساتھ،اس کو بروقت پورا کرنے میں جتی ہے۔ ریاستی مشینری کی بدن بولی پر نظر ڈالیں تو یہ واضح ہے کہ وژن 2030جیسے ہدف کو حاصل کرنے کے لئے ،کوئی ایک کل پرزہ بھی رتی بر سستی یا کوتاہی کا شکار نظرنہیں آتا اور تمام زعمائ،ارباب اختیار،پوری ہم آہنگی کے ساتھ اس وژن کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے،اس پر پوری دلجمعی کے ساتھ عمل پیرا دکھائی دیتے ہیں،جیسے یہ ان کے گھر کا طے کردہ ہدف ہو۔ درحقیقت یہی وہ جذبہ ہے جو کسی بھی ریاست کی کامیابی کے لئے انتہائی فیصلہ کن ہوتا ہے اور اسی جذبے کے تحت کہ جہاں ،ریاستی امور کو حقیقی طور پر ذاتی امور/ مفادات سمجھتے ہوئے،حاکم وقت کے نظرئیے کو پوری طرح سمجھ کر،اس کو حاصل کرنے کی جستجو ،ریاست کی کامیابی و کامرانی کو نوشتہ دیوار پر لکھتی ہے۔البتہ جہاں ریاستی مشینری حاکم وقت کے نظرئیے سے اختلاف رکھتے ہوئے،ذاتی مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے،اہداف کے حصول میں لیت و لعل سے کام لے،اس کے حصول میں روڑے اٹکائے،وہاں اہداف کا بروقت حصول ممکن نہیں رہتا بلکہ بسا اوقات پورے اہداف ہی زمین بوس ہو جاتے ہیں،اس کا حل ایک ہی ہے کہ یا تو پوری ایمانداری سے مجوزہ منصوبے کی مین میخ سے گزر کر،اس کے حصول کے لئے صد فیصد کوششیں بروئے کار لائی جائیں یا پھر اس کے ناقابل عمل ہونے یا قائل نہ ہونے کے باعث،اس کے شروع سے قبل ہی کنارہ کشی اختیار کر لی جائے،تا کہ دوران سفر کوئی اگر مگر،اس کی رفتار اور اہداف پر اثر انداز نہ ہوسکیں۔آج بھی ڈاکٹر سمیرہ عزیز ہی کے ایک وی لاگ کی چند باتیں آپ سے شیئر کرنے جا رہا ہوں کہ ان کے مطابق سعودی حکومت،محکمہ صحت نے قریبا 141000عازمین حج کو طبی سہولتیں فراہم کی،ان میں سے تقریبا 83%وہ حجاج تھے جو بلا اجازت حج کا قصد کئے ہوئے تھے۔اس کے باوجودسعودی حکومت نے انسانی بنیادوں پر ان تمام عازمین کو طبی سہولتیں فراہم کی،جو حکومتی قوانین کی خلاف ورزی پر ادائیگی حج کے لئے یہاں موجود تھے،اس پر پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ بوقت ضرورت بالخصوص طبی معاملات میں سعودی حکومت مریض کی قانونی حیثیت کو نظر انداز کردیتی ہے جیسا کہ کورونا کے ہنگام سعودی حکومت نے اقامہ نہ رکھنے والوں ،سیاحتی ویزہ پر آئے مہمانوں اور اقامہ تجدید نہ ہونے والوں کو بھی ویکسینیشن فراہم کی تھی۔اسی طرح عام زندگی میں بھی بالعموم اسی مشق کو روا رکھا جاتا ہے تاہم بعد ازاں ایسے غیر قانونی رہائے پذیروں کے لئے مسائل ضرور رہتے ہیں،جس کی وجہ سے یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ دیار غیر میں غیر قانونی رہائش سے حتی الامکان گریز کریں۔علاوہ ازیں!آپ جس کام سے متعلق ہیں،اپنے اسی کام سے منسلک رہتے ہوئے،اپنے لئے اور اپنے ملک کے لئے نیک نامی کا باعث بنیںبجائے کسی ایسے دوسرے کام میں حصہ دار بنیں جو نہ صرف آپ کے لئے بلکہ ملک اور دو ممالک کے درمیان کسی قسم کی مشکلات کا شکار بنے۔ سعودی حکومت بلکہ حکومتیں،عازمین حج کے لئے مسلسل سہولیات فراہم کرنے میں مصروف عمل ہیں ،حجاج کی تعداد میں دن بدن روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ سعودی حکومت کے وژن 2030کے مطابق حجاج کی موجودہ تعداد میں کئی گنا اضافہ متوقع ہے ،جس کے لئے لازم ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں حجاج کے لئے تمام سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ ماضی میں ہونے والے حج اور آج ہونے والے حج میں عازمین کے لئے جو سہولیات کا فرق ہے ،وہ دو/تین دہائیاں پہلے تصور میں بھی نہ تھا،جبکہ آج دوران حج ہونے والے حادثات میں واضح طور پر بڑی کمی آ چکی ہے،اس کی وجہ یہی ہے کہ مسائل کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ بتدریج انتظامات میں مسلسل بہتری نے اس کو ممکن بنایا ہے،قبل ازوقت آنے والے معاملات کو بھانپ کر اس کے حل کو ممکن بنانے کی کوشش کی گئی ہے،جس کے باعث آج عازمین حج ماضی کی نسبت بہتر طریقے سے ادائیگی حج کر رہے ہیں۔مسائل کی نشاندہی میں ایک طرف ریاستی مشینری ہے تو دوسری طرف یہاں کا میڈیا ہے جو ایسے مسائل کی نشاندہی قومی فریضہ سمجھ کر ،کر رہا ہے لیکن اس کے باوجود چند حدود قیود ہیں،جن کی پابندی لازم ہے،یقینی طور پر جو نظام حکومت یہاں رائج ہے،اس کی یہ ضرورت ہے تاہم مستقبل کو مد نظر رکھتے ہوئے مملکت سعودی عرب بتدریج آزادی اظہار رائے کی جانب گامزن نظر آتی ہے لیکن یہ آزادی شتر بے مہار ممکن نہیں اور قرین قیاس یہی ہے کہ میڈیا کے ماہرین اور اس شعبہ سے منسلک افراد ،جو اس شعبہ کی نزاکتوں کو سمجھتے ہیں،مستند رپورٹنگ کریںنہ کہ کوئی بھی شخص یہ فریضہ اپنے طور پر انجام دینے کی کوشش کرے۔غیر مستند و غیر مصدقہ رپورٹنگ کرنے والوں کے لئے مملکت کے قوانین انتہائی سخت ہیں لیکن تاحال کسی سے بھی ذاتی پرخاش کا معاملہ منظر عام پر نہیں آیا اور قومی مسائل پر کی جانے والی رپورٹنگ پر ارباب اختیار فوری ایکشن کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
دوسری طرف پاکستان کے حالات کا جائزہ لیں تو حالات یکسر مختلف نظر آتے ہیں کہ وہ ملک جس کی استعداد کار ،ہر شعبہ ہائیے زندگی میں بے انتہا و بے شمار ہے،جسے رب کریم نے وسائل سے بے انتہا نوازا ہے لیکن حکمرانوں کی نا اہلی و نالائقی و ہوس زر و اقتدار نے،اس ملک کو آج کنگال کررکھا ہے،حکمرانوں کے ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھ کر،آج مسائل دیمک کی مانند اس کی جڑوں کو کھوکھلا کررہے ہیں لیکن ان حکمرانوں کی بے حسی ٹوٹنے کا نام نہیں لے رہی۔صرف ایک مسئلے کی بات کریں تو پاور/بجلی کے مسائل حل کرنے میں ناکام ریاست کو کیا قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے،ساری دنیا کے سامنے ہے کہ وہ ملک جو سستی ترین ہائیڈل بجلی،پچاس ہزار میگا واٹ تک بآسانی پیدا کرسکتا ہے،اسے تھرمل بجلی بنانے کے لئے مجبور کیا جا چکا ہے۔ آئی پی پیز کے چنگل میں پھنسا کرایسے معاہدے کئے گئے ہیں کہ جو صنعتکاروں کے علاوہ عام شہری کی کمر تک توڑ چکے ہیں لیکن حکمران ذاتی مفادات کی خاطر آئی پی پیز سے جان چھڑانے کی کوئی کوشش بھی نہیں کررہے کہ مبادا کہیں مستقل ذریعہ آمدن ختم نہ ہوجائے۔ہائیڈل بجلی کے علاوہ بھی کئی ایک دوسرے ذرائع موجودہیںکہ جن سے سستی بجلی بنائی جا سکتی ہے لیکن اس کی بجائے،سونا اگلتی زمینوں پر کوئلے سے چلنے والے پلانٹ نصب کئے گئے ہیں جو ایک طرف زرخیز زمینوں کو ہڑپ کر چکے ہیں تو دوسری طرف آلودگی سے فصلوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں،نجانے یہ عالی دماغ کب تک اس ملک کے وسائل کو مزید لوٹیں گے؟پاکستان کے حوالے سے یہ ایک مثال نہیں بلکہ ایسی کئی ایک مثالیں ہیں جو مفادات کے ٹکراؤ کے باوجود،ان عالی دماغوں کی وجہ سے وسائل سے مسائل میں تبدیل ہو چکی ہیں،پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائن،جو اپنے وقت میں بہترین ائیر لائن تصور ہوتی تھی،جس کے عملہ نے دنیا کو سات/آٹھ عالمی معیار کی ائیر لائینز بنا کر دی،آج خسارے کی بدترین مثال بنی دکھائی دیتی ہے،اس کی وجوہات اظہر من الشمس ہیں،ان کو درست کرنے کا طریقہ بھی سب کو ازبر ہے لیکن بدنیتی کا کیا کیا جائے کہ اس ائیر لائن کو درست کرنے کی بجائے،نجکاری کرنا ضروری ہے تا کہ اونے پونے کسی فرنٹ مین کے ذریعے اس کو خریدا جا سکے۔یہ حقیقت بھی عیاں ہے کہ جیسے کسی زمانے میں پی ٹی سی ایل کو بیچا گیا تھااورخریدار نے اس کو خریدتے ہی،سب سے پہلا کام اس کی زائد افرادی قوت کو فارغ کرکے ،ادارے کو منافع بخش بنا لیا تھا،بعینہ پاکستان انٹرنیشنل ائیرلا ئن کے ساتھ بھی یہی سلوک روا رکھا جائے گا اور خریدار اس کا زائد سٹاف فارغ کرکے اس کو منافع بخش بنا لے گا لیکن اس کا فائدہ ریاست پاکستان کو نہیں ہو گا کہ ریاست پاکستان ازخود یہ اقدام اٹھانے سے گریزاں ہے مگر سالان اربوں کا خسارہ پورا کرنے کے لئے تیار ہے۔یہی صورتحال پاکستان سٹیل کی ہے کہ چونکہ حکمرانوں کے ذاتی مفادات سے میل نہیں کھاتی لہذا جیسے ہی لوہے کا کاروبار کرنے والے،خیر یہ تو اب نمائشی سی بات رہ گئی ہے کہ نجانے کتنے اور کہاں کہاں کاروبار ان کے موجود ہیں لیکن اس کے باوجود پاکستان سٹیل پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں،حکمران بنتے ہیں تو یہی سٹیل مل خسارے کا شکار ہو جاتی ہے۔یہاں سعودی عرب سے موازنہ کروں ، تو حیرت کا شدید جھٹکا لگتا ہے کہ سعودی عرب ایک طویل عرصہ تک تھرمل بجلی پیدا کرتا رہا ہے لیکن حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے،سعودی عرب جیسا ملک متبادل سستے ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے اور اس کا انحصار تھرمل بجلی سے کم ہوتا جا رہا ہے۔ سولر انرجی کے حصول میں جا بجا،پینل لگے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، قصبوں،چھوٹے شہروں اور جامعات سولر بجلی میں تقریبا خود کفالت حاصل کرچکے ہیں جبکہ اس پر مزید کام مسلسل اور تیز رفتاری سے جاری ہے جبکہ پاکستان میں اس حوالے سے کوئی یقینی پالیسی ہی نہیں کبھی سولر بجلی پیدا کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے اور بعد ازاں اس پر نیٹ میٹرنگ یا ٹیکس کا نفاذ کر دیا جاتا ہے۔حد تو یہ ہے کہ گردشی خسارہ پورا کرنے کے لئے ،بجلی کے اس میٹر پر بھی ٹیکس لگا دیا گیا ہے،جو صارف کا اپنا خرید کردہ ہے،تا کہ آئی پی پیز کو معاہدوں کے مطابق رقم ادا کی جا سکے۔مسائل قوموں کی زندگی میں آتے ہیں لیکن ان کو حل کرنے کے لئے ایسی بونا قیادتیں روپذیر نہیں آ سکتی،سعودی ولی عہد و وزیراعظم محمد بن سلمان جیسے بیدار مغز اور قوم پرست ہی ان مسائل کا قبل از وقت ادراک کر کے،آ نے والا وقت یہ ثابت کرے گا کہ شہزادہ محمد بن سلمان نے کس طرح اپنی قوم کے لئے ترقی و خوشحالی کی راہ کا تعین کیا ہے، ان کاتدارک کرسکتے ہیں۔







