Column

حقیقی ہیرو۔۔۔ مہر بشیر احمد

 

رفیع صحرائی
زندگی گزارنے اور زندگی جینے میں بڑا فرق ہے۔ کچھ لوگ پیدا ہوتے ہیں، بڑے ہو کر کام دھندا کرتے ہیں، اپنی نسل آگے بڑھاتے ہیں اور مر جاتے ہیں۔ یہ زندگی گزارنے والے کامن لوگ ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ زندگی کا کوئی مقصد بنا لیتے ہیں اور مخلوقِ خدا کی بھلائی میں جُت جاتے ہیں۔ ایسے لوگ زندگی جیتے ہیں۔ مہر بشیر احمد بھی آخرالذکر لوگوں میں تھے جنہوں نے بھرپور اور بامقصد زندگی گزاری۔ حق تو یہ ہے کہ انہوں نے جینے کا حق ادا کر دیا۔ مہر بشیر احمد کثیرالجہت شخصیت تھے۔ معروف سیاستدان، بہترین مقرر، بلند پایہ عامل، کامیاب بزنس مین، اور بے لوث سماجی ورکر تھے۔ وہ ایک شیر دل اور نڈر شخصیت تھے۔ لیجنڈری سیاست دان مرزا احمد بیگ کے دستِ راست تھے۔ سیاسی جلسوں میں مہر بشیر احمد کی تقاریر مجمعے کو نیا ولولہ اور جوش عطا کرتی تھیں۔ ان کی فلک شگاف، گرج دار اور پاٹ دار آواز سامعین پر سحر طاری کر دیتے تھی۔ مذہبی جلسوں میں جب بولتے تو بڑے بڑے علماء انگشت بدنداں رہ جاتے۔ ہر محفل کی جان سمجھے جاتے تھے۔ بڑوں کے ساتھ بڑے اور نوجوانوں کے ساتھ نوجوان بن جاتے تھے۔ شہر کی بلدیہ کے وائس چیئرمین منتخب ہوئے تو شہر کی تعمیر و ترقی کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کے لئے بہت زیادہ کام کیا۔ انہوں نے نوجوانوں کو منفی سرگرمیوں اور منشیات جیسی لعنت سے بچانے کے لئے کھیلوں کے میدان آباد کئے۔ فٹ بال ان کی ترجیحات میں سرِ فہرست تھا۔ اگر دیکھا جائے تو منڈی احمد آباد ( منڈی ہیرا سنگھ) میں فٹ بال کے فروغ کا تمام تر کریڈٹ سابق وائس چیئرمین بلدیہ، معروف سماجی، سیاسی اور کاروباری شخصیت ’’ مہر بشیر احمد‘‘ کو جاتا ہے۔ انہوں نے فٹ بال کے فروغ کے لئے اپنی پوری زندگی وقف کر دی ۔ مہر بشیر احمد سرخ و سفید رنگت والے بہت خوب صورت نوجوان تھے۔ فٹ بال کے بہترین کھلاڑی تھے۔ انہوں نے بابر فٹ بال کلب کے نام سے فٹ بال کی ٹیم بنائی ہوئی تھی۔ سکول کے طلباء بھی شام کے وقت اسی ٹیم میں کھیلا کرتے تھے جہاں ان کے ساتھ سنیئر کھلاڑی مہر بشیر احمد، میجر محمد صابر، راجہ ظفر اقبال، استاد قمر دین ( سبزی والے) ، چودھری محمد شریف، حاجی ظفر اقبال، شیر علی مُشکا ( کلاتھ مرچنٹ)، احمد دین ( کریانہ مرچنٹ)، سیّد محبوب شاہ، محمد احمد شام، ماسٹر چودھری مشتاق احمد، چودھری محمد یوسف، چودھری خلیل احمد، استاد پیر بخش، محمد رفیق ( کوآپریٹو بنک والے) بھی کھیلا کرتے تھے۔ یہ تمام سینئر کھلاڑی اپنے عروج پر تھے اور جونیئر کھلاڑی ان کے ساتھ کھیل کر فٹ بال کے تمام اسرار و رموز سیکھ رہے تھے۔
مہر بشیر احمد کو اللّٰہ تعالیٰ نے وسیع رزق کے ساتھ وسیع القلبی سے بھی نواز رکھا تھا۔ ہر سال آل پنجاب فٹ بال ٹورنامنٹ منعقد کرواتے تھے۔ جس میں پنجاب بھر سے درجنوں بہتریں ٹیمیں حصہ لیتی تھیں۔ یوں سمجھ لیں کہ پنجاب کی بہترین فٹ بال ٹیمیں اس ٹورنامنٹ میں شرکت کرنا اپنے لئے اعزاز سمجھتی تھیں۔ جن میں حافظ سلمان بٹ کی مشہورِ زمانہ ٹیم وہیب کلب بھی شامل تھی۔ باہر سے آنے والی ٹیموں کے قیام اور طعام کا بندوبست کرنے کے علاوہ انہیں روزانہ کی بنیاد پر معاوضہ (Daily Allowance) بھی دیا جاتا تھا۔ اور یہ سب اخراجات مہر بشیر احمد اپنی جیب سے ادا کیا کرتے تھے۔ کیا دریا دلی انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوئی تھی۔ ریلوے کی زمین میں فٹ بال کی گرائونڈ بھی مہر صاحب نے خود ہی بنوائی تھی۔ آٹھ سے دس دن تک جاری رہنے والے اس ٹورنامنٹ کو مقامی سطح پر ایک فیسٹیول کے طور پر منایا جاتا تھا۔ پورا علاقہ پنجاب کے بہترین کھلاڑیوں کا کھیل دیکھنے کے لئے امنڈ آتا تھا۔
بابر فٹ بال کلب کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ڈسٹرکٹ فٹ بال ایسوسی ایشن کے تحت ہونے والے ٹورنامنٹ میں اس ٹیم نے مسلسل 18مرتبہ ڈسٹرکٹ چیمپئن ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ یہ ایک ایسا ریکارڈ ہے جو شاید کبھی نہ ٹوٹ سکے۔
مہر بشیر احمد کی شخصیّت کی خاص بات ان کی بذلہ سنجی تھی۔ ہر وقت ہنستے ہنساتے رہتے تھے۔ البتہ کھیل کے دوران ان کا رویّہ بے حد سخت ہو جاتا تھا۔ دورانِ کھیل ہی کھلاڑیوں کو خوب ڈانٹتے تھے ۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ کھلاڑی کم سے کم غلطیاں کرتے تھے۔ انہوں نے کلب کا نام اپنے سب سے بڑے بیٹے ’’ مہر بابر بشیر‘‘ کے نام پر ’’ بابر فٹ بال کلب‘‘ رکھا تھا۔ تب بابر اپنی عمر کے پہلے سال میں تھے، جبکہ آج اسی کلب سے بابر کا بیٹا ہمایوں ( جو یونیورسٹی سٹوڈنٹ ہے) بھی کھیل رہا ہے۔
مہر بشیر احمد حقیقی فائٹر تھے۔ ہارٹ اٹیک کو شکست دینے کے بعد انہوں نے ہارٹ سرجری بھی بہادری سے کرائی تھی۔ ہر مشکل کا انہوں نے ہمیشہ مردانہ وار مقابلہ کیا اور کبھی شکوے کا ایک لفظ زبان پر نہیں لائے۔ چند سال پہلے جب ان کی بیگم داغِ مفارقت دے گئی تھیں تو بہت رنجیدہ ہو گئے تھے مگر اولاد کو کبھی ماں کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ کبھی اولاد کے سامنے اپنے اندر کا دکھ نہیں کھولا۔
مہر بشیر احمد دوستوں کے دوست تھے اور محفلوں کی جان سمجھے جاتے تھی۔ جب ان کے قریبی دوست منشی محمد اسلم طاہر، محمد احمد شام، رانا محمد اسلم اور چودھری شبیر احمد یکے بعد دیگرے وفات پا گئے تو مہر بشیر احمد ایک لحاظ سے گوشہ نشین ہو کر رہ گئے تھے۔ اب ان کی بیٹھک معروف نعت خواں احمد رضا قادری صاحب کے پاس زیادہ ہو گئی تھی۔ بڑی شوق اور جذب کے عالم میں ان سے نعتیں سنا کرتے۔ 21فروری کی رات تھی۔ چنگے بھلے سوئے تھے، اچانک دل دغا دے گیا اور وہ جنت کے مسافر ہو گئے۔
مہر بشیر احمد کے بیٹے مہر ناصر بشیر، مہر نوید بشیر اور مہر غلام اکبر بھولا بہت اعلیٰ پائے کے فٹ بالر ہیں۔ مہر بشیر احمد نے بابر فٹ بال کلب کی صورت میں جو پودا لگایا تھا اسے نہایت محنت سے ایک تناور درخت بنا دیا تھا اور اب ان کے ہونہار بیٹے مہر ناصر بشیر اس تناور درخت کی آبیاری بڑی محنت اور جانفشانی سے کر رہے ہیں۔ انہوں نے عوامی سٹیڈیم میں فلڈ لائٹ کے لئے کھمبے بھی لگوا دیئے ہیں جہاں رات کے وقت میچ کرانے ممکن ہو گئے ہیں۔ وہ فلڈ لائٹ میں فٹ بال کے ٹورنامنٹ اعلیٰ سطح پر منعقد کراتے ہیں۔
بلاشبہ ’’ مہر بشیر احمد‘‘ اس شہر کے ہی نہیں پورے علاقے کے ہیرو ہیں جنہوں نے کھیل کے میدانوں کو آباد کر کے نہ صرف صحت مند سرگرمیوں کی بنیاد رکھی بلکہ نوجوانوں کو آوارگی اور منشیات جیسی لعنتوں سے بچانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ ایسی ہی شخصیّتیں ’’ پرائڈ‘‘ آف پرفارمنس” کے اہل ہوتی ہیں۔

جواب دیں

Back to top button