Column

فیصلے کا انتظار ہے

 

سیدہ عنبرین
ایک شخص قتل ہو گیا، مقتول کے اہلخانہ نے ایف آئی آر درج کرا دی، ان میں ایسے تمام افراد کے نام شامل کر دیئے جن پر انہیں شک تھا کہ یہ قتل انہوں نے ہی کیا ہے۔ ایسے افراد کے نام بھی شامل کئے جو ملزمان کیلئے بھاگ دوڑ کر سکتے تھے یا مالی طور پر ان کی معاونت کر سکتے تھے، انہوں نے یہ سب کچھ اپنے مروجہ کلچر کے مطابق کیا، مقدمہ چلا، ملزمان پیشیاں بھگتے رہے، اسی اثنا میں علاقے سے ایک سربرید لاش ملی اس کے تن پر سفید شلوار قمیض تھا، جو عموماً علاقے کے لوگ زیب تن کیا کرتے تھے، اس کے پائوں میں سیاہ چپل تھی، جو وہاں کے رواج کے مطابق تھی، اس زمانے میں شناختی کارڈ نہ بنے تھے، شناختی نشان یاد رکھنے کا رواج نہ تھا، موبائل فون تو تھے ہی نہیں، جیب میں بٹوہ بھی کم لوگ ہی رکھتے تھے، تھوڑی سی رقم ہوتی تھی، جو قمیض کی اوپر والی جیب میں ڈال لی جاتی تھی، رقم زیادہ ہوتی تو اسے قمیض کے نیچے پہنے ’’ شلوکے‘‘ کے اندرونی جیبوں میں ڈال لیا جاتا۔
پولیس نے لاش قبضے میں لی، آس پاس کے گائوں میں منادی کرائی، مقتول کے ورثا آئے اور مقتول کے قد کاٹھ سے یہی سمجھے کہ یہی ان کا قتل ہونے والا عزیز ہے۔ وہ لاش لے گئے، اسے دفنا دیا گیا، پولیس نے کاغذی کارروائی مکمل کی اور رپورٹ عدالت میں پیش کر دی۔ کچھ لوگ عینی شاہد کے طور پر عدالت میں پیش ہوئے، انہوں نے قرآن سر پر رکھ کر گواہی دی کہ فلاں فلاں کو انہوں نے ایک شام مقتول کے ساتھ جاتے دیکھا، جس کے بعد پھر اس کی خبر نہ ملی، دو گواہوں نے یہ گواہی دی کہ انہوں نے ایف آئی آر میں نامزد افراد کو ایک جگہ بیٹھ کر قتل کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے خود دیکھا اور سنا، انہوں نے اس امر کا بیان حلفی بھی جمع کرا دیا، پولیس نے عدالت میں ایک کلہاڑی پیش کی، جس پر خون جما ہوا تھا، پولیس نے بتایا کہ یہ کلہاڑی ملزمان کے گھر کی ایک خفیہ الماری سے برآمد ہوئی ہے، جو شاید انہوں نے قتل کی یادگار کے طور پر سنبھال رکھی تھی یا شاید اس لئے کہ پولیس کو جب فرصت ملے وہ خون آلود آلہ قتل برآمد کر کے عدالت میں پیش کرے اور انہیں سزائے موت دلوانے کے کیس کو مضبوط کرے۔ اس زمانے میں ہم زمانے سے، دنیا سے بہت پیچھے تھے، لہٰذا فرانزک لیب ہونے کا تو سوال ہی تھا لہٰذا اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی تھی کہ کلہاڑی پر لگا ہوا خون مرغی کا ہے یا مقتول کا ہے۔
مقدمے کی سماعت مکمل ہوئی، آلہ قتل کی برآمدگی، گواہوں کے بیانات واقعاتی شہادتیں دستیاب ہونے پر ملزمان کو سزائے موت سنا دی گئی، انصاف کا بول بالا ہو گیا، ملزمان رنجیدہ ہو گئے، مقتول کے اہلخانہ مطمئن ہو گئے، ان کے گھر مبارک دینے والوں کا تانتا بندھ گیا کہ آپ مقدمہ جیت گئے ہیں، خون ناحق کرنے والوں کو سزا سنا دی گئی ہے، ملزمان کے گھر صف ماتم بچھ گئی جبکہ مقتول کے وکیل صاحب نے اپنی آئندہ کیلئے فیس دو گنا کر دی، ان کی برینڈ مینجمنٹ ٹیم نے ان کی دیانت، شرافت، قابلیت، کبھی نہ بکنے اور کبھی نہ جھکنے کی، خوب تشہیر کی، یوں ہر قتل کا مقدمہ ان کے پاس آنے لگا۔ ملزمان نے عدالت کے فیصلے کے بعد اعلیٰ عدالت میں اپیل کر دی لیکن بدقسمتی سے وہاں بھی فیصلہ برقرار رکھا گیا، پھر اعلیٰ ترین عدالت کا رخ کیا گیا وہاں سے بھی فیصلہ برقرار رہا، اب تو پہلی عدالت کے فیصلہ سنانے والوں کے قصیدے بھی زبان زد عام ہو گئے، گھر گھر یہی بات زیر بحث نظر آتی کہ فیصلہ کرنے والوں نے ایسا فیصلہ لکھا کہ کمال ہو گیا اور آخر تک برقرار رہا، فیصلہ کرنے والوں کو بھی ترقیاں ملتی رہیں، ملزمان کے پاس اب صرف رحم کی اپیل کا آخری ایک موقع بچا تھا، وہ اس کی تیاری میں تھے، انہوں نے اس منزل پر پہنچتے پہنچتے بیس برس کی جیل کاٹ لی، جوان بوڑھے ہو گئے، بوڑھے مزید بوڑھے اور لاغر ہوگئے۔
ایک روز گائوں میں شور مچ گیا، شور کیا تھا زلزلہ تھا، مقتول زندہ سلامت اپنے گھر پہنچ گیا، گھر والے پہلے تو اسے دیکھ کر پریشان ہو گئے، انہوں نے سمجھا کہ ان کے عزیز کی شکل میں کوئی جن بھوت آ گیا ہے، سب نے اسے ایک کمرے میں بند کر دیا، مسجد سے مولوی صاحب اور ہسپتال سے ڈاکٹر صاحب کو بلایا گیا، جنہوں نے اپنے اپنے طریقہ کار کے مطابق سوال جواب اور بیانیے کے بعد بیان جاری کیا کہ وہ جن بھوت نہیں بلکہ ایک صحت مند انسان ہے، تمام تر یقین دہانیوں کے باوجود اس کی بیگم نے اس کے کمرے میں جانے سے انکار کر دیا۔ دیگر اہلخانہ کچھ فاصلے پر رہنے لگے البتہ اس کے بچپن اور جوانی کے دوست رفتہ رفتہ اس کے گرد جمع ہونے لگے لیکن وہ جب بھی گھر سے نکلتا لوگ اس کیلئے راستے چھوڑ دیتے، وہ کسی دکان سے کچھ خریدنی جاتا تو دکاندار اسے سب سے پہلے فارغ کرتا اور پیسے بھی نہ مانگتا، مبارا وہ انہیں چمٹ نہ جائے۔
دوسری طرف اس کے قتل میں ملوث افراد کے گھر خوشی کے شادیانے بجنے لگے، انہیں یقین ہو گیا کہ اب انہیں سنائی جانے والی سزائے موت بہ یک جنبش قلم ختم ہو جائے گی۔ کچھ کا خیال تھا کہ یہ سب کچھ ان کی ماں کی دعا کا اثر ہے، بعض کا خیال تھا کہ یہ ان کی سب سے چھوٹی بیٹی کی دعا کا اثر ہے، لیکن ایک بات پر سب متفق تھے کہ اس جان بچنے کے معاملے میں بڑے شاہ صاحب مرحوم پیر صاحب کے متولی چھوٹے شاہ صاحب کی کرامت کا اثر ہے ، وہ بہت پہنچی ہوئی شخصیت ہیں، یہ کوئی نہ جانتا تھا کہ وہ ہر ویک اینڈ پر لاہور کے کس آستانے پر حاضری دیتے ہیں۔ مقدمہ ایک مرتبہ پھر ان ہی کے سامنے تھا جنہوں نے مختلف موقعوں پر اہم نکات کا بغور جائزہ لیا تھا، الجھی ہوئی گتھیوں کو خوب خوب سلجھایا تھا، وہ سر جوڑ کر بیٹھے اور سوچنے لگے کہ اب کس کو اور کیسے ریلیف دینا ہے، منصف بہت قابل اور جہاں دیدہ ہیں، ان کی سوچ بچار جاری ہے۔ دوسری طرف ملک بھر میں ہر فرد کی نظر ان پر ہے، بعض کا خیال ہے کہ قانونی تقاضے پورے ہو چکے ہیں، لہٰذا ملزمان کو سزائے موت دے دی جائے، بعض کا خیال ہے کہ پہلے سزائے موت ختم کر کے تمام پہلوئوں کا جائزہ لیا جائے، غلطی کہاں ہوئی، جو سزائے موت کی وجہ بنی، فیصلے کا انتظار ہے۔

جواب دیں

Back to top button