
تحریر : سی ایم رضوان
پچھلے پانچ سالوں کی سیاسی افراتفری، انارکی، مہنگائی اور چور بازاری کے نتائج اب کھل کھلا کر سامنے آ گئے ہیں۔ غریبوں کی اکثریت خون کے آنسو رو رہی ہے اور امراء کی اقلیت ان کی بے بسی پر گویا کھلکھلا کر ہنس رہی ہے۔ یہ موقع حسب معمول موجودہ حکومت نے پاکستانی تاریخ کا حالیہ بدترین بجٹ منظور کر کے عملی طور پر فراہم کیا ہے۔ اب اگلا پورا سال غریب سر پیٹ کر روئے گا اور امیر پہلے سے زیادہ ٹھاٹ باٹھ سے عیش کرے گا کیونکہ ایک تو اس کے پاس سرمایہ بہت ہے اور وہ کم سرمائے سے زیادہ منافع کمانے کی اپنی ہوس آسانی سے پوری کر سکے گا اور دوسرا یہ کہ اس کو بجٹ میں بھی اس کی مالی حیثیت کے مطابق ٹیکس ادا نہیں کرنا پڑیں گے کہ آئندہ سال کے لئے بھی حکومت نے اسے مکمل ریلیف دیا ہے۔ اس پر ستم یہ کہ حکومت نے اپنے اخراجات میں کمی نہ لانے کی سابقہ روایات کا اس بجٹ میں بھی خوب پالن کیا ہے اور یہ سب کرتے ہوئے حکومت نے یہ سوچا تک نہیں کہ ہم اپنے اخراجات کم کر کے عوام پر مزید بوجھ ڈالتے جیسے گناہ سے بچ جائیں بلکہ مرے کو مارے شاہ مدار جیسی ظالمانہ کہاوت کو عملاً نافذ کر دیا ہے۔ اس ظلم کی ایک جھلک گزشتہ روز سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی بیان کی ہے کہ ملک میں سیکڑوں ارب روپے کے سگریٹ بنتے ہیں جس کے ٹیکسوں کی چوری کھلم کھلا ہو رہی ہے، کیا ایف بی آر نہیں جانتا کہ ملک میں کتنے سگریٹ استعمال ہو رہے ہیں اور کتنے پر وہ ٹیکس اکٹھا کر رہے ہیں، کیا ہم اتنے کمزور ہیں کہ سگریٹ بنانے والوں سے بھی ٹیکس اکٹھا نہیں کر سکتے۔ مطلب یہ کہ سگریٹ ساز حکومت میں بااثر ہیں اور ان کو ریلیف دینا اور لوٹ کھسوٹ کی کھلی چھٹی دینا اس حکومت نے بھی ضروری سمجھا ہے جس طرح کہ سابقہ پی ٹی آئی حکومت نے کیا تھا۔ عوام پر معاشی ظلم کے تسلسل کی ایک اور مثال سابق وزیراعظم عباسی نے یہ بیان کی ہے کہ ہم 20سے 22فیصد چھوٹ پر قرضے لے کر عوام پر مزید بوجھ ڈالتے ہیں، جس ملک کا سود 6سال میں 1500ارب سے بڑھ کر 10ہزار ارب تک پہنچ جائے اور اس کا سارا بوجھ عوام پر ہو اس ملک کی معیشت کیا خاک چلے گی جبکہ آج پاکستان کا سب سے بڑا خرچہ یہی ہے جو تمام حکومتیں 30ہزار ارب مل کر خرچ کریں گی، اس میں ایک تہائی یعنی 10ہزار ارب سود ہے۔ انہوں نے کھل کر بتایا کہ ماضی میں کچھ جگہ ہوا کرتی تھی، ہم غلط فیصلے کرتے تھے، یہ پیسے ایم این اے اور ایم پی ایز میں بانٹتے تھے، گزارہ ہو جاتا تھا لیکن آج تو جگہ ہی نہیں ہے کہ اس قسم کی عیاشیاں برداشت کر سکیں، مگر آج پھر پانچ سو ارب روپے ترقیاتی فنڈ کے نام پر اراکین پارلیمنٹ میں بانٹ دیئے گئے ہیں۔ آج تو ہمیں اپنے اخراجات کم کرنے کی ضرورت ہے۔ شاہد خاقان عباسی شاید یہ سارا سچ اس لئے اگل رہے ہیں کہ وہ آج کل حکومت سے باہر ہیں اور اپنی نئی سیاسی پارٹی لانچ کرنے کا اعلان کر چکے ہیں مگر حقیقت یہی ہے کہ مہنگائی نے اب عام پاکستانی کا جینا دوبھر کر دیا ہے عام پاکستانی سے مراد وہ پاکستانی ہے جو کسی قسم کی چمک سے محروم ہے اور محنت مزدوری ہا حلال کی کمائی پر اکتفا کر کے گزارہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے ورنہ یہاں تو جو ریٹیلر رجسٹرڈ ہیں، وہ مال کی خرید و فروخت پر آدھا فیصد اضافی ٹیکس ادا نہیں کرتے اور غیر رجسٹرڈ ریٹیلر ڈھائی فیصد ٹیکس نہیں دیتے جبکہ ملک بھر میں 30لاکھ میں سے صرف ایک لاکھ ریٹیلرز رجسٹرڈ ہیں۔
قوم کو یاد ہے کہ موجودہ بجٹ پر بجا تنقید کرنے والے یہ شاہد خاقان عباسی نواز شریف کی اس حکومت کا حصہ تھے جو 12 اکتوبر 1999کو برطرف کر دی گئی تھی اور جس کا بینظیر بھٹو نے خیر مقدم کیا تھا اور اگلی باری حکومت کی انہوں نے لی تھی اور عوام پر کم و پیش وہی معاشی مظالم انہوں نے بھی ڈھائے تھے جو کہ یہاں ایوب خان سے لے کر شہباز شریف تک سارے حکمران ڈھاتے رہے ہیں۔ بہر حال پھر سیاسی بساط نے ایک اور پلٹا کھایا اور 2011کے پہلے کامیاب جلسے کے بعد پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین نے ماضی میں اقتدار کی باریاں لینے والی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی قیادت کو کرپٹ قرار دے کر اپنی سیاست کو عروج پر پہنچایا تھا جس کے بعد 2013کے الیکشن میں پانچ سالہ مدت مکمل کر کے پیپلز پارٹی کی حکومت کے بعد مسلم لیگ ن کی حکومت تیسری بار اقتدار میں آئی تھی اور 1988 سے 1999تک 11سال میں یہ دونوں پارٹیاں اقتدار کی دو دو باریاں لے چکی تھیں اور کسی نے اپنی مدت پوری نہیں کی تھی اور دونوں پارٹیوں کے وزرائے اعظم بینظیر بھٹو اور نواز شریف دو سویلین صدور غلام اسحاق خان اور سردار فاروق لغاری کے ہاتھوں انہیں حاصل 58؍2۔Bکے اختیارات کے تحت کرپشن کے الزامات کی بنیاد پر برطرف ہوئے تھے حالات نے ایک پلٹا اور کھایا اور 1999میں جنرل پرویز نے نواز شریف کو ہٹا کر اقتدار پر قبضہ کیا اور نواز شریف، بینظیر بھٹو اور ان کے شوہر آصف زرداری پر کرپشن کے الزامات لگائے تھے۔ یوں جنرل پرویز مشرف نے اقتدار میں آ کر بینظیر اور نواز شریف دونوں کو اپنا ٹارگٹ بنایا دونوں پر کرپشن کے الزامات لگائے اور نیب بنا کر دونوں سابق وزرائے اعظم اور آصف زرداری پر کرپشن کے مقدمات بنائے تو بینظیر بھٹو جنرل پرویز کے تیور دیکھ کر باہر چلی گئیں اور نواز شریف کو طیارہ اغوا کے جھوٹے مقدمے میں سزا دلوائی گئی تو آصف زرداری جیل میں تھے۔ سزا ملنے کے بعد نواز شریف کو دس سالہ معاہدے کے تحت فیملی سمیت جلا وطن کیا گیا۔ آصف زرداری طویل قید کاٹ کر ضمانت پر باہر آئے اور بیرون ملک چلے گئے اور بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے جلا وطن ہو جانے کے بعد جنرل مشرف نے سمجھا کہ اب دونوں کی سیاست ختم ہوگئی۔ جنرل پرویز مشرف نے 2002میں الیکشن کرائے اور مسلم لیگ قائد اعظم بنوائی۔ 2002کے الیکشن میں جنرل پرویز کی حکومت میں دونوں جلا وطنوں پر کرپشن کے الزامات لگائے گئے مگر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے متعدد رہنما الیکشن میں کامیاب ہو گئے جن میں سے کافی لوگ نیب کے ذریعے جنرل مشرف کی حمایت پر مجبور کرائے گئے اور پیپلز پارٹی کے ارکان توڑ کر پی پی پٹریاٹ بنائی گئی۔ دونوں پارٹیوں کے رہنماں کو وزارتیں بھی دے دی گئیں۔ ادھر سے عمران خان نے حصول اقتدار کی دوڑ میں جنرل پرویز مشرف کے صدارتی ریفرنڈم کی حمایت کی مگر جنرل پرویز ایک سیٹ رکھنے والے عمران خان کو وزیر اعظم بنانے پر تیار نہ ہوئے تو انہوں نے جنرل پرویز مشرف سے مایوس ہو کر نواز شریف اور بینظیر بھٹو پر مبینہ کرپشن کے الزامات لگانا شروع کر دیئے۔ جنرل پرویز مشرف کے اقتدار چھوڑنے، آصف زرداری کے صدر بننے اور پنجاب میں ن لیگ کی حکومت 2008میں بننے کے بعد عمران خان نے شریفوں اور زرداری فیملی کو کھلے عام چور چور کہنا شروع کر دیا اور 2011کے بعد انہیں بالآخر طاقت ور حلقوں کی حمایت حاصل ہو گئی۔ ان کی قیادت میں پی ٹی آئی میں دوبارہ بھرتیاں ہوئیں اور اس تیار شدہ جماعت نے ملک بھر میں 2013کے الیکشن کی بھرپور مہم چلائی مگر عوام نے ان کے کرپشن کے الزامات تسلیم نہ کیے اور دیگر دونوں پارٹیوں کو وفاق، پنجاب، سندھ اور بلوچستان کا اقتدار دے دیا مگر کے پی کے میں پی ٹی آئی کی حکومت بن گئی۔ ملک بھر میں نواز شریف اور آصف زرداری کو عمران خان نی کرپٹ کہہ کر نئی نسل میں ان کے خلاف نفرت بڑھائی۔ ماضی میں ان کے کرکٹ کی دلدادہ خواتین جو کہ اب بڑے بڑے گھروں کی بیگمات بن گئی تھیں وہ بھی چور چور کے اس بیانئے سے متاثر ہو کر اس پارٹی کے مفلر لے کر جلسوں میں آ گئیں۔ بانی پی ٹی آئی کو عدالتی طور پر صادق و امین بھی بنایا گیا مگر عوام کی اکثریت نے 2018میں پھر بھی مسلم لیگ ن کو پنجاب میں اور پیپلز پارٹی کو سندھ میں سب سے زیادہ ووٹ دیئے مگر اکثریت نہ ملنے کے باوجود آر ٹی ایس بٹھا کر اور اتحادی دے کر پی ٹی آئی کی کے پی کے، پنجاب اور وفاق میں حکومت بنوائی گئی۔ نواز شریف، آصف زرداری کو کرپٹ قرار دینے کی بھرپور مہم اب سرکاری اور عسکری طور پر جاری ہو گئی۔ حکومت اور طاقت میں ہونے کے باوجود یہ لوگ انہیں عدالتوں میں کرپٹ ثابت نہ کروا سکے۔ یہاں تک کہ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر متحد ہو جانے والی اپوزیشن نے عمران خان کی حکومت ختم کر کے سولہ ماہ حکومت کی اور اب پھر دونوں اقتدار میں آ گئے ہیں مگر دونوں نے عمران خان کے بیانیے کو عدالتوں میں چیلنج نہیں کیا نہ ہی دونوں نے مبینہ الزامات پر عمران خان کو ہتک عزت کا کوئی نوٹس دیا جب کہ عمران خان اپنی حکومت ہوتے ہوئے بھی سرتوڑ کوشش کے باوجود ان دونوں لیڈروں کو عدالتوں میں کرپٹ ثابت نہ کرا سکے مگر عوام کی قلیل اکثریت میں دونوں کے متعلق عمران خان کا قائم کردہ ان کے کرپٹ ہونے کا تاثر اب بھی برقرار ہے جسے دونوں مل کر بھی اور حکومت میں ہو کر بھی ختم نہیں کرا سکے یہاں تک کہ ٹی وی چینلز کو پی ٹی آئی سے زیادہ چمک نہیں دکھا سکے۔
دوسری جانب ایک سال سے جیل میں بند بانی پی ٹی آئی اپنے کرپشن اور جھوٹے آنٹی اسٹبلشمنٹ بیانیے کو ہی آگے بڑھا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کے تنخواہ دار عناصر بھی بدستور کام کر رہے ہیں اور انویسٹر بھی اپنی خدمات جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ حکومتی پارٹیاں حکومت میں ہوتے ہوئے بھی دفاعی پالیسی پر گامزن ہیں۔ دوسرا تھوڑا بہت جو ان کا ملکی معیشت کو بچانے کا کام ہے وہ اس بجٹ نے برابر کر دیا ہے۔ یوں سیاست کا حمام تو مدت ہوئی گندا ہو گیا تھا اب معاشی گجر نالہ بھی کچرے سے اٹا پڑا ہے اور صفائی نام کے اقدامات کہیں نظر نہیں آ رہے۔





