Column

کم ظرف

تحریر :علیشبا بگٹی
ایک بادشاہ کو ایک فقیرنی سے پیار ہو گیا۔ وہ اس کے عشق میں اتنا پاگل ہوا کہ اسے پانے کے لئے اس کی ہر شرط اس نے قبول کی۔ یہاں تک کہ اس کے ساتھ مانگتا بھی رہا۔ اور پھر شرط پوری ہونے کے بعد اس مانگنے والی فقیرنی نے بادشاہ کے ساتھ شادی کیلئے ہاں کی۔ یوں بادشاہ اسے اپنی ملکہ بنا کے اپنے محل میں لے آیا۔ اور وہ فقیرنی ملکہ بن کے بادشاہ کے محل میں رہنے لگی۔ بادشاہ اس کی ہر خواہش پوری کرتا تھا۔ اس کے ماتھے پہ شکن تک نہ آنے دیتا تھا۔ ایک دفعہ فقیرنی ملکہ بہت بیمار ہو گئی۔ تو بادشاہ نے اپنے تمام شاہی طبیبوں کو حکم دیا۔ جب تک ملکہ ٹھیک نہیں ہوتی۔ تب تک میرے سمیت کوئی بھی اس کے پاس سے دور نہیں ہوگا۔ اور نہ ہی کوئی آرام کرے گا۔ پھر ویسا ہی ہوا جتنے دن تک فقیرنی ملکہ رانی تندرست نہ ہوئی کسی نے بھی آرام نہ کیا۔۔۔ پھر کچھ ہی ماہ گزرے ہوں گے کہ اس فقیرنی ملکہ نے اپنا خاندانی رنگ دکھانا شروع کر دیا۔ زبان چلانا شروع کر دی اور اسی بادشاہ کو جس نے اُسے فقیرنی سے ملکہ بنایا تھا برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ ادھر اس فقیرنی ملکہ کو ماں کی سپورٹ حاصل ہوتی ہے اور فقیرنی ملکہ بادشاہ کا گھر چھوڑ کے ماں کی جھونپڑی میں رہنے لگ جاتی ہے۔ اور اپنی نیچ ذہنیت کم ظرفی اور اوقات کے ہاتھوں بادشاہ پر طرح طرح کے الزام لگاتی رہتی ہے۔ پھر بھی بادشاہ اسے کچھ نہیں کہتا۔ کیونکہ بادشاہ اس سے پیار کرتا ہوتا ہے۔ منت سماجتوں کے بعد بادشاہ اسے واپس اپنے محل لے آتا ہے۔ اور وہ فقیرنی ملکہ بادشاہ کے سمجھانے پر کبھی کبھی شرمندہ بھی ہو جایا کرتی تھی، لیکن پیچھے سے کیونکہ اسے ماں کی سپورٹ حاصل تھی وہ اکثر و بیشتر بادشاہ کے سامنے زبان چلانا بند نہ کر سکی۔۔ اور چونکہ وہ ایک گھٹیا سوچ اور نیچ خاندان کی عورت تھی اس لئے پھر سے بادشاہ پر کیچڑ اچھالنا شروع کر دیتی۔ اور پھر سے ماں کی جھونپڑی میں جا کہ بیٹھ جاتی اور ماں جو سب کچھ جانتے ہوئے بھی انجان بن جاتی تو انجام کار بادشاہ بھی اس کو اُس کے حال پہ چھوڑ دیتا۔ بادشاہ کو اپنے پیار کے ہاتھوں رسوائی تو ملتی ہے لیکن وہ فقیرنی ملکہ اس محل اور پیار کے قابل نہیں ہوتی اور واپس اسی جھونپڑی میں ذلیل ہوتی ہوئی ذلت کی موت مر جاتی ہے اور بادشاہ کو کم ظرف عورت سے نجات مل جاتی ہے۔ بیوی فقیرنی جیسی کم ظرف، کم نسل، نیچ، احسان فراموش ہو تو بادشاہ کو بھی فقیر سمجھنے لگ جاتی ہے۔ اور پھر خود بھی ذلیل ہوتی ہے۔ مگر ظرف والی بیوی تو صرف کسی خوش قسمت انسان کو ملتی ہے۔
’’ اگر کسی پر احسان کرو تو اُس کے شر سے بچو‘‘۔ حضرت علیؓ کے قول کی تشریح کرتے ہوئے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان کا اشارہ ’’ کم ظرف‘‘ انسان کی جانب ہے۔ جس کے دامن میں زیادہ کچھ سمیٹنے کی جگہ نہیں ہوتی۔ اس کا احساسِ کمتری سرکشی کا روپ دھار کر اُس ہستی کے مقابل لے آتا ہے کہ وہ احسان کرنے والے کو خود سے برتر سمجھ کر اُس سے مخاصمت پر تُل جاتا ہے۔ جنابِ علیؓ کے قولِ فیصل کی رو سے ایسے لوگوں سے محتاط رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔ انسان کی پہچان اس کا ظرف ہے۔ انسان کی اخلاقی اقدار اس کے اعلیٰ ظرف ہونے کی آئینہ دار ہیں۔ کم ظرف انسان جب مفاد اور اخلاق کے دوراہے پر پہنچتا ہے تو یک لخت مال و مفاد کے حق میں فیصلہ سنا دیتا ہے، جبکہ عالی ظرف اپنے مال و مفاد کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اخلاقی تقاضا پورا کرتا ہے۔ کم ظرف اپنے محسن کو اُس کے احسان کو بھول جاتا ہے۔ وہ بس اپنے مفاد کو جانتا ہے۔ دوسروں کو سیر کرنا عالی ظرفوں کا شیوہ ہے۔ عالی ظرف کھاتا نہیں بلکہ کھلاتا ہے۔ ظرف کا پہلا امتحان اپنے سے کمزوروں غریبوں ماتحتوں سے شروع ہوتا ہے۔ مال و منصب ہمارے ظرف کا امتحان ہیں۔ وہ لوگ جو ہمارے مال کے محتاج ہیں، اور وہ جو ہمارے منصب کے ماتحت ہیں۔ ان کے ساتھ اخلاق اور کشادہ روی ہمارے عالی ظرف اور عالی نسب ہونے کا پتہ دیتی ہے۔۔۔۔۔۔ ظرف دراصل اس برتن کو کہتے ہیں، جس میں انسان اپنا اور اپنے قوم خاندان کا نام وقار ، عزت، شہرت، اقتدار طاقت یہاں تک کہ دولت سنبھالے پھرتا ہےکم ظرف انسان کے پاس یہ سب سنبھالنے کے لیے برتن ہی نہیں ہوتا ہے۔۔۔۔۔ ایسے انسان کو اگر ذرا سی بھی دولت کرسی مل جاتی ہے یا کسی بادشاہ کا پہلو مل جاتا ہے تو وہ فورا چھلک پڑتا ہے اور اپنا آپ کھو دیتا ہے۔
کم ظرف انسان دور اندیشی سے کوسوں دور ہوتا ہے ، اس کی نظر اس کے پاں سے آگے نہیں بڑھتی۔ وہ ہمیشہ حسد کی آگ میں جل رہا ہوتا ہے ، اس سے دوسرے کی ترقی یا عزت دیکھی نہیں جاتی ہے اور کم ظرف کو جب کبھی موقع ملتا ہے ، وہ پنجہ مار لیتا ہے ، وہ دوسروں کو ستانے تنگ کرنے یا نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ ایسا کرنے کے بعد اسے تکلیف ، دکھ یا ندامت نہیں ہوتی بلکہ یہ سب کرنے کو وہ اپنی کامیابی گردانتا ہے۔ دراصل اس کے دل و دماغ کو کم ظرفی کی مہلک بیماری لگ گئی ہوتی ہے۔ کم ظرف انسان مثبت سوچ سے کوسوں دور ہوتا ہے بلکہ وہ ہر بات میں منفی پہلو نکال لیتا ہے ، کسی شخص میں لاکھ اچھائیوں کے باوجود وہ صرف اس کی کسی معمولی کمی یا خامی کا رونا روتا ہے۔ کم ظرف انسان معاف نہیں کرتا کیونکہ وہ ویسے ہی احساس کمتری کا شکار ہوتا ہے اور معاف کرنے اور درگزر کرنے کو وہ اپنی کمزوری بلکہ ہار مانتا ہے۔ معاف اور درگزر کرنا ویسے بھی بہادر اور اعلیٰ ظرف انسان کے اوصاف ہوتے ہیں۔ کم ظرف سے اگر غلطی ہو جائے تو وہ معافی نہیں مانگتا ہے بلکہ ضد پر اڑ جاتا ہے۔ دراصل معافی مانگنے کے لیے بھی ظرف چاہئے جو کم ظرف کے پاس نہیں ہوتا۔ کم ظرف کو بھولنے کی بیماری بھی ہوتی ہے ایسی شخص کو اگر دولت اور عہدہ مل جاتا ہے تو یہ اپنے ماضی کو فوراً بھول جاتا ہے اور اپنی دولت اور عہدے کو دائمی سمجھنے لگتا ہے۔ ایسے شخص کو جب اقتدار مل جائے تو رعایا کی شامت آ جاتی ہے یہ کسی کی نہیں سنتا ہے بلکہ جو من میں آئے کر لیتا ہے اور ایسا کرنے پر اسے ندامت بھی نہیں ہوتی کیونکہ اسے لگتا ہے کہ جو کر رہا ہے اچھا کر رہا ہے۔ ایک کہاوت ہے خدا گنجے کو ناخن نہ دے اور یہ کہاوت کم ظرف انسان پر صادق آ جاتی ہے۔ کم ظرف انسان احساس سے خالی ہوتا ہے۔ ایسے شخص کو اگر سلام بھی کی جاتی ہے تو اسے اس میں بھی اپنی بڑھائی نظر آتی ہے نہ کہ سامنے والے کی۔ ایسے شخص کو اگر ذرا بھی عزت دی جائے تو وہ اپنے آپ کو تیس مار خان سمجھنے لگتا ہے۔ دراصل اس میں یہ سب سنبھالنے کی ہمت نہیں ہوتی ہے۔ اس میں ظرف ہی نہیں ہوتا ہے۔ اس کی باتوں سے حوصلہ افزائی نہیں بلکہ حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ کم ظرف انسان کی ایک اور نشانی یہ بھی ہے کہ یہ راز دار نہیں ہو سکتا۔ اس کے ساتھ ذرا سی تلخ کلامی بھی اگر ہو جائے تو وہ آپ کے سارے راز فاش کر دے گا کیونکہ اس کا ظرف اتنا ہی ہے ، ذرا سی بات پر چھلک پڑتا ہے۔ دراصل اس کی اوقات ہی یہی ہوتی ہے۔ کم ظرفی کی ضد اعلی ظرفی ہے، ایسا شخص جس میں عزت وقار ، نام ناموس ، حوصلہ، شہرت، اقتدار سنبھالنے کی ہمت ہو۔ اعلیٰ ظرف انسان کے آگے یہ سب چیزیں کوئی معنی نہیں رکھتی وہ جانتا ہے کہ یہ سب عارضی ہے اور ان میں سے کوئی بھی چیز رہنے والی نہیں ہے۔ وہ ہمیشہ دوسروں کی بھلائی کرتا ہے اور اجر بس اپنے رب سے مانگتا ہے ، وہ دوسروں پر احسان کرتا ہے اور احسان جتانا بہت بڑا گناہ سمجھتا ہے۔ ایسے شخص میں بھی انکساری اور عاجزی ہوتی ہے لیکن عارضی نہیں بلکہ دائمی۔ اعلیٰ ظرف انسان دور اندیش ہوتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ وقت بدلنے میں دیر نہیں لگتی۔ یہ اقتدار اور یہ جاہ و حشمت ہمیشہ رہنے والی نہیں ہے۔ اعلیٰ ظرف انسان کا دل و دماغ وسیع ہوتا ہے ، اس کے مقاصد جلیل ہوتے ہیں، وہ دوسروں کے کام آنا ہی زندگی کا مقصد مانتا ہے ، بلکہ اعلیٰ ظرف انسان اپنے لیے کم اور دوسروں کے لیے زیادہ جیتا ہے۔ ایسا شخص بدلہ لینے میں یقین نہیں رکھتا ہے بلکہ معاف اور درگزر کرنا ایسے شخص کے اوصاف میں شامل ہوتا ہے۔ ایسا انسان دشمن کے راز بھی اپنے سینے میں دفن کرتا ہے اور اعلیٰ ظرف انسان سے دشمن بھی پیار کرتے ہیں۔ اعلیٰ ظرف انسان کی مثال شمع کی ماند ہوتی ہے جو خود جلتا ہوتا ہے اور دوسروں کو روشنی فراہم کرتا ہے۔ دیکھا جائے تو کم ظرف دوست سے اعلیٰ ظرف دشمن بہتر ہوتا ہے۔
پھل دار درخت کا سایہ بھی بڑا اور پھیلا ہوا ہوتا ہے جبکہ وہ درخت جس پر پھل نہیں لگتے گو کہ قد میں کتنا ہی بڑا نظر آئے ۔۔۔ مگر اس کا سایہ تنگ اور چھوٹا ہوتا ہے۔
بس یہی فرق ہے صاحب ظرف اور اور کم ظرف کا۔۔۔ ظرف والا چاہے معاشی اور معاشرتی لحاظ سے کتنا ہی چھوٹا نظر آئے۔ لیکن تم دیکھو گے کہ وہ سخی ، رحم دل اور طاقت رکھتے ہوئے بھی معاف کرنے والا ہوگا۔ دل کا بڑا ہوگا اور وہ احسان فراموش نہیں ہوگا۔ بلکہ وقت پڑنے پر ایسے آپ کی مدد کرے گا کہ آپ کو پتہ بھی نہیں لگنے دے گا۔ وہ آپ کے دوست کا دوست آپ کے دشمن کا دشمن ہوگا۔ مگر کم ظرف کسی زندہ لاش کی طرح صرف مفاد پرست ہوگا۔

جواب دیں

Back to top button