ColumnQadir Khan

خودمختاری کا دفاع

قادر خان یوسف زئی
پاکستان ایک خودمختار قوم کے طور پر اپنے جمہوری عمل میں کسی بھی بیرونی مداخلت کو مسترد کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ امریکی کانگریس کے اقدام کی مذمت کرتے ہوئے قومی اسمبلی سے کثرت رائے سے منظور کی گئی حالیہ قرارداد ملک کی آزادی اور اس کے جمہوری اداروں سے وابستگی کا ایک جائز دعویٰ ہے۔ تاہم حزب اختلاف کی جماعت پی ٹی آئی کی جانب سے اس قرارداد کی مخالفت میں جو موقف اختیار کیا گیا وہ اہم خدشات کو جنم دیتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی قوت پی ٹی آئی کو امریکی قرارداد کے مطابق ہونے کی بجائے قومی خودمختاری کے دفاع کے لیے حکومت کی کوششوں کی مثالی حمایت کرنی چاہیے تھی۔ یہ مخالفت نہ صرف ایک متضاد پیغام دیتی ہے بلکہ بیرونی مداخلت کا مقابلہ کرنے کے لیے درکار متحدہ محاذ کو بھی کمزور کرتی ہے۔ یہ بات قابل فہم ہے کہ جیل میں بند سابق وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں پی ٹی آئی کو 2024کے انتخابات کے حوالے سے خاصی شکایات ہیں، تاہم پاکستان کے تمام انتخابات کی تاریخ رہی ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت نے کبھی اپنی شکست تسلیم نہیں کی اور دھاندلی کے الزامات عاید کئے۔ بہر حال، امریکی قرارداد پر حکومتی ردعمل کو مسترد کرنا الٹا نتیجہ خیز ہے اور ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کے جمہوری ڈھانچے کو کمزور کرنے کی کوشش کرنے والوں کے ہاتھوں میں کھیلا جا رہا ہے۔
امریکی قرارداد، جمہوریت کی حمایت کے اپنے بیان کردہ مقصد کے باوجود، پاکستان کے پیچیدہ سیاسی منظر نامے کی نامکمل تفہیم سے جڑی ہوئی ہے۔ انتخابی بے ضابطگیوں اور دھاندلی کے الزامات بے شک سنگین ہوتے ہیں، اور اس صورتحال کا سامنا ہر انتخابات میں ہوتا ہے ، اداروں پر جانب داری کے الزامات بھی لگائے جاتے ہیں ،تاہم پاکستانی ادارے آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کی ضمانت دیتے ہیں، نہ کہ بیرونی دبا کے ذریعے کسی ڈکٹیشن کو۔ پاکستان کا ردعمل خودمختاری اور خود ارادیت اہم ہیں۔ جمہوریت کو فروغ دینے کی آڑ میں کوئی بھی مداخلت پاکستان کے سیاسی ماحول کے نازک توازن کو بگاڑ سکتی ہے۔
امریکہ کی کسی بھی ملک میں سیاسی و عسکری مداخلت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ، دنیا میں جہاں بھی تنازعات ہیں وہاں امریکہ کا کسی نہ کسی صورت کردار موجود ہے ۔ اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ امریکہ کی تنازعات والے ممالک میں موجود گی اور اثر انداز ہونا ، دنیا کے امن کے لئے بذات خود ایک بڑا خطرہ تسلیم کیا جاتا ہے ، اس صور ت حال میں کسی بھی ملک خاص طور پر پاکستان کے اندرونی معاملات میں حد سے متجاوز ہونا قابل فہم ہے کہ حسب روایت امریکہ سیاسی عدم استحکام والے ملک میں اپنا اثر رسوخ بڑھا کر ’’ ڈومور ‘‘ کا مطالبہ کرنا چاہتا ہے ۔ خاص طور پر عظیم مشرق وسطیٰ کی پیچیدہ صورت حال اور چین و روس سے بڑھتی قریبی تعلقات میں پاکستان کے رجحان سے امریکہ ناخوش ہی نظر آیا ہے ۔ ان حالات میں اس قسم کی قرار دادوں کا آنا اور کسی بھی سیاسی جماعت کی حمایت کرنا ، جمہوری روایت کے برخلاف اور مملکت میں سیاسی عدم استحکام بڑھانے کا موجب بنتا ہے ۔ پی ٹی آئی کی جانب سے سیاسی مفادات کے لئے ملکی خود مختاری کو بالائے طاق رکھنا ایک افسوس ناک رویہ ہے۔ بلاشبہ پاکستان کے تمام سیاسی اداروں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھیں اور کسی بھی قسم کی بیرونی مداخلت کے خلاف متحدہ محاذ پیش کریں۔ پاکستان کے جمہوری عمل کی خودمختاری اور سالمیت کا تحفظ کیا جانا چاہیے، خواہ وہ کسی بھی پارٹی کی وابستگی سے بالاتر ہو۔ بیرونی دبا کے خلاف لچک کا مظاہرہ کرنے اور قومی مفادات کے تحفظ کے لیے ایک متحد نقطہ نظر ضروری ہے۔
جہاں امریکی قرارداد پر پاکستان کا ردعمل جائز ہے، وہیں اپوزیشن کا حکومتی موقف کو مسترد کرنا افسوسناک ہے۔ ایک بڑی سیاسی قوت کے طور پر، پی ٹی آئی کو امریکی قرارداد کا ساتھ دینے کے بجائے پاکستان کی خودمختاری کے دفاع کے لیے حکومت کی کوششوں کی حمایت کرنی چاہیے تھی۔ اس سے غلط پیغام جاتا ہے اور بیرونی مداخلت کے خلاف ملک کے متحدہ محاذ کو نقصان پہنچتا ہے۔ تمام سیاسی اسٹیک ہولڈرز کو ملک کی خودمختاری کو ترجیح دینا چاہیے اور اس کے جمہوری اداروں کو بیرونی مداخلت سے بچانے کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔ اتحاد اور جمہوری اصولوں کے عزم کے ذریعے ہی پاکستان کو درپیش چیلنجز پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ امریکی قرارداد پر پاکستان کا رد عمل جائز ہے، جس میں ملکی خود مختاری پر زور دیا گیا ہے۔ تمام سیاسی اسٹیک ہولڈرز کو ملک کی خود مختاری کو ترجیح دینا چاہیے اور اس کے جمہوری اداروں کو بیرونی مداخلت سے بچانے کے لیے باہمی تعاون سے کام کرنا چاہیے۔ صرف اتحاد اور جمہوری اصولوں کے ساتھ ثابت قدمی کے ذریعے ہی پاکستان کو درپیش چیلنجوں سے نکل سکتا ہے اور اپنی جمہوری بنیاد کو مضبوط بنا سکتا ہے۔
اس کے ساتھ ہی، امریکی کانگریس کو باہمی احترام اور افہام و تفہیم کی بنیاد پر پاکستان کے ساتھ زیادہ تعمیری روابط کی حکمت عملی اپنانے پر غور کرنا چاہیے۔ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی کوششیں، حتیٰ کہ ’’ نیک نیتی‘‘ کے ساتھ بھی، الٹا نتیجہ خیز ہیں اور پاکستان اور امریکہ کے پہلے سے نازک تعلقات کو مزید کشیدہ کر سکتے ہیں۔ تعمیری بات چیت اور تعاون پر مبنی کوششوں کو یکطرفہ قراردادوں اور مداخلت کی جگہ لینی چاہیے۔ امریکہ کو اپنی توجہ غزہ و مقبوضہ کشمیر کی بدترین صورت حال پر مرکوز کرنی چاہیے جہا ں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہو رہی ہے ، بھارت میں تاریخ کے انتہائی متنازع انتخابات ، جس میں نسلی و مذہبی منافرت منعقد ہوئے ، اس پر توجہ دینا چاہے کہ متشدد و منافرت پر مبنی انتخابات کے بعد مذہبی اقلیتوں کو شدید تحفظات اور بقا کا سامنا ہے ۔امریکہ کانگریس پر سوالیہ نشان بھی اٹھتا ہے کہ بھارت میں جس قسم کے انتخابات ہوئے کیا یہ جمہوری اقدار کے مطابق تھے ، جس میں مذہبی اقلیتوں کو براہ راست نشانہ بنایا گیا ۔
امریکی کانگریس نے جس قسم کی روایت کا مظاہرہ کیا ہے اس پر پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور ریاست کا ردعمل دینا ایک بامعنی پیغام دینا تھا، گوکہ پی ٹی آئی نے عوام کو مایوس کیا کیونکہ بانی تحریک انصاف کا یہ بیانیہ رہا ہے کہ غیر ملکی مداخلت ، پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کا موجب رہی ہے۔ غیر ملکی مداخلت کی مخالفت کرنے والی سیاسی جماعت کی جانب سے پارلیمان میں پیش کی گئی قرار داد کی مخالف یہ ظاہر کرتی ہے کہ موجودہ پی ٹی آئی قیادت ، اپنے بیانیہ سے یو ٹرن لے چکی ہے اور فروعی مفادات کے لئے ملکی خو د مختاری پر سمجھوتہ کرنے سے بھی گریز نہ کرنے کی پالیسی اپنائی جوکہ افسوس ناک حکمت عملی ہے۔

جواب دیں

Back to top button