آپریشن نہیں ڈپلومیسی کی ضرورت ہے

امتیاز عاصی
ہمارا ملک جن حالات سے گزر رہا ہے اس کی روشنی میں جنگ وجدل کی بجائے حکمت عملی سے معاملات کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم طویل عرصے سے سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا شکار ہیں جس سے مملکت کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ پڑوسی ملکوں سے تعلقات خوشگوار رکھنے سے امن قائم ہو سکتا ہے جنگ کسی مسئلے کا مستقل حل نہیں لہذا حکومت کو سوچ سمجھ سے کام لینا چاہیے۔ جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمان نے بہت اچھی بات کی ہے ایران کے ساتھ تعلقات اچھے ہو سکتے ہیں تو افغانستان سے کیوں نہیں ہو سکتے ۔ مولانا کی جماعت ، اے این پی اور پی ٹی آئی آپریشن عزم استحکام کے حق میں نہیں ہیں۔ آپریشن عزم استحکام سے سابقہ فاٹا میں آباد لوگ افغانستان کی طرف ہجرت کریں گے۔ مولانا نے دل ہلا دینے والی بات کی ہے انہیں جنوبی اضلاع میں امارات اسلامی کا قیام نظر آرہا ہے۔ ان کا کہنا ہے مسلح گروپ کے لوگ ٹریفک کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ ناکے لگاتے ہیں لہذا صورت حال بہت گھمبیر ہے۔ بعض حکومتی حلقے عمران خان کو الزام دیتے ہیں جس نے نقل مکانی کرنے والوں کو دوبارہ واپس لا کر آبادکاری کی۔ سوال ہے کیا ان لوگوں کی واپسی عمران خان کا تنہا فیصلہ تھا؟ حکومت خواہ کسی جماعت کی ہو اسے آزادانہ طور پر فیصلے کرنے کی اجازت نہیں ہوتی بلکہ یہ کام طاقت ور حلقوں کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں۔ افغانستان میں روسی جارحیت کے خلاف جنگ میں کودنے کے نقصانات کا اندازہ لگانا ممکن نہیں جنگ کے اثرات سے ہمارا ملک ابھی تک نہیں نکل سکا ہے۔ اہم بات یہ ہے ہماری حکومتوں کی افغان تارکین وطن بارے کوئی واضح پالیسی نہیں ہے چند ماہ قبل غیر قانونی مہاجرین میں سے چند لاکھ کی واپسی مسائل کا مستقل حل نہیں ہے۔ لاکھوں افغان کسی دستاویز کے بغیر وطن عزیز میں نہ صرف رہ رہے ہیں بلکہ کاروبار بھی کر رہے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لوگ مک مکا کرکے انہیں رہنے کی اجازت دے دیتے ہیں چنانچہ ایسے حالات میں غیر قانونی افغان پناہ گزینوں کی واپس کیسے ہو سکتی ہے؟یہ بات سبھی جانتے ہیں افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کو پاکستان کے خلاف بھارت کا بھرپور تعاون حاصل ہے لہذا اس معاملے کو سفارتی سطح پر حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ بسا اوقات معمولی غلطی کے دوررس نقصانات اٹھانے پڑتے ہیں۔ امریکہ تو افغانستان سے چلا گیا وہ جو اسلحہ چھوڑ گیا ہمارے خلاف استعمال ہو رہا ہے۔ جو مسلمان ملک امریکہ کو اپنا دوست سمجھتے ہیں احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں امریکہ نے پاکستان کے ساتھ مشکل وقت میں کبھی وفا نہیں کی۔ پاک بھارت جنگ کے دوران ہم امریکی بحری بیٹرے کا انتظار کرتے رہے۔ بھارت ہمارے ساتھ آزاد ہوا تھا وہ امریکہ کے دبائو میں کیوں نہیں آتا وہ امریکہ پر اسٹریٹجک پارٹنر ہے۔ ہماری سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے سیاسی جماعتیں کسی مسئلے پر یکسو نہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے کا تماشا دیکھتی ہیں۔ آج عمران خان جیل میں ہے اس کے مخالف سیاست دان خوش ہیں ان کی یہ خوشی عارضی ہے وہ بھی جیلوں میں جا سکتے ہیں۔ وہ کب تک ٹوڈی بنے رہیں گے ایک روز ان کا ضمیر جاگ اٹھے گا وہ بھی جیلوں میں ہوں گے۔ دہشت گردی جیسے مسائل نے ہمیں معاشی طور پر بہت کمزور کیا ہے ساتھ داخلی امن و امان کا مسئلہ درپیش ہے سیاسی جماعتیں کسی مسئلے کے حل کی طرف نہیں جانے کی بجائے آپس میں دست و گریبان ہیں۔ سیاست دانوں کو اقتدار میں آنے کی فکر لاحق ہوتی ہے انہیں اقتدار ملنا چاہیے خواہ کسی طرح ملے۔ طاقت ور حلقوں کو بھی چاہیے سیاسی جماعتوں میں افہام و تفہیم کی فضا قائم کرنے کا ماحول پیدا کریں۔ یہ بات درست ہے ہماری بہادر افواج سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ داخلی امن و امان قاءم کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ جہاں تک اقتدار کی بات ہے انتخابات کو شفاف بنانے کے بعد عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والوں کو اقتدار میں لانا
چاہیے ۔ ہمارے ہاں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے ہارنے والا فریق شکست تسلیم نہیں کرتا بلکہ اسے دھاندلی قرار دیتا ہے گزشتہ انتخابات میں جو کھلواڑ ہوا ملکی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ایک ایسا ماحول پیدا کرنے کی بہت ضرورت ہے جس میں ہارنے والا اپنی شکست تسلیم کر لے تو بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ انتخابات میں جو کچھ ہوا اس نے الیکشن کمیشن کو متنازعہ بنا دیا ہے۔ عمران خان کو چیف الیکشن کمشنر پر اعتماد نہیں سوال ہے اس کی تقرری کرتے وقت ان تمام پہلوئوں پر غور کیوں نہیں کیا گیا۔ عمران خان ان دنوں طاقت ور حلقوں کی ناک کا بال بنے ہوئے تھے انہیں ہر بات میں طاقت ور حلقوں کی آشیرباد دکھائی دیتی تھی اقتدار سے علیحدہ ہونے کے بعد انہیں ساری خرابیاں نظر آنے لگیں تھیں۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے عمران خان عوام کی نظروں میں پہلے سے زیادہ مقبول ہے پاکستان کے عوام دل و جاں سے اس سے محبت کرتے ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ خان نے ملک و قوم کی دولت سے بیرون ملک اثاثے بنانے والوں کو عوام کی نظروں میں گرا دیا ہے۔ شریف خاندان جو پنجاب کو کبھی اپنی جماعت کا قلعہ تصور کرتا تھا اپنی مقبولیت کھو بیٹھا ہے۔ نواز شریف وطن واپسی کے بعد مینار پاکستان میں جلسہ نہیں کر سکا جو اس امر کا غماز ہے عوام ان کے ساتھ نہیں ہیں۔ جن حالات کا ذکر کیا گیا ہے ان کی روشنی میں دیکھا جاءے تو ہمارا ملک مشکل میں ہے۔ معاشی مسائل کے ساتھ دہشت گردی اور داخلی امن و امان درد سر بنا ہوا ہے ایسے میں حکومت کو سوچ سمجھ کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ امن و امان کی خراب صورت حال کے پیش نظر شبانہ روز کوششوں کے باوجود سرمایہ کاری نہیں آسکی ہے جس کی وجہ بیرونی سرمایہ کاروں کو وطن عزیز میں تحفظ حاصل نہیں لہذا اس تمام صورت حال کو درست کرنے کے لئے حکومت کو سفارتی سطح پر ڈپلومیسی سے افغانستان کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ اگر ایسا ہو جائے تو ہمیں کسی آپریشن کی چنداں ضرورت نہیں رہے گی۔





