نادر شاہ کا لوٹا مال

تجمل حسین ہاشمی
جیمز فریزر کی کتاب History of Nadir Shah میں، جو 1742میں لندن سے شائع ہوئی، لکھا گیا کہ نادر شاہ نے دلی سے جو کچھ لوٹا اسے واپس ایران لانے کیلئے 1000 ہاتھی، 10,000اونٹ اور 7000 گھوڑے استعمال کئے گئے۔ مال و اسباب اتنا زیادہ تھا کہ اس نے ایران جاکر تین سال کیلئے رعایا کے تمام ٹیکس معاف کر دیئے۔ نادر شاہ 1739 میں ہندوستان پر حملہ آور ہوا تو اس وقت ہندوستان دنیا کا امیر ترین ملک تھا۔ اکبر اور اورنگ زیب عالمگیر کے عہد تک ہندوستان دنیا کی مجموعی پیداوار کا 27فیصد پیدا کرتا تھا۔ امریکہ آج کی تاریخ میں دنیا کی مجموعی پیداوار کا تقریباً 25فیصد پیدا کرتا ہے۔ یہ اسی زمانے کی بات ہے جب ہندوستان دنیا بھر میں سونے کی چڑیا کے طور پر مشہور ہوا، لیکن پھر مغل سلطنت تخت و تاج کی پے در پے جنگوں میں الجھ گئی۔ اورنگ زیب عالمگیر کی 1707میں وفات کے بعد صرف 12سال میں تین بادشاہ بدلے گئے۔ کمزور ہوتی مغل سلطنت کی کمزوریاں سب پر عیاں ہوئیں تو بیرونی حملہ آوروں نے بھی راستہ دیکھ لیا۔ اس کے بعد جو دن بھی آیا مغل سلطنت سکڑتی چلی گئی۔ نادر شاہ کے حملے نے تو گویا دلی کو اجاڑ کر رکھ دیا۔ صحافی و مصنف سجاد اظہر کی تحریر سے لیا گیا اقتباس ہے۔ تاریخی صورت حال مستقبل کیلئے سبق آموز ہے۔ لیکن یہ کامیابی بھی کم نہیں تھی کہ ہندوستان کے مسلمانوں نے قائداعظم محمد علی جناح کی سربراہی میں دو قومی نظریے کی بنیاد پر الگ ریاست حاصل کرلی۔ ہمارے ہاں تاریخ سے لوگوں کو کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ آج حاصل آزادی کو نعمت نہیں سمجھ رہے بلکہ پاکستان کے قیام کے حوالہ سے سوشل میڈیا پر غلط پروپیگنڈا اور بے بنیاد نظریات کی پرورش ہورہی ہے۔ اس ہندوستان سے آزادی حاصل کی جو ماضی میں دنیا کی مجموعی پیداوار کا 27فیصد پیدا کرتا تھا۔ اب ہمیں زبانوں کی نفرت میں جلایا جارہا ہے۔ بھائی دوسرے کیلئے غیر مقامی بنا دیا گیا۔ ریاستوں کی تباہی کا ذمہ دار دوسرا کوئی نہیں ہوتا بلکہ حکمران ہی رعایا کے قاتل ہوتے ہیں۔ کمزور معاشی صورت حال ہی طاقتوں کو حملہ کی دعوت دیتی ہے۔ کسی بھی ریاست کی مضبوطی اس کی رعایا ہوتی ہے، جس کے ٹیکس سے ملک مضبوط ہوتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ ذمہ داری ان حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے جو ریاست کی نمائندگی اور قانون نافذ کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں لوگوں کو ٹیکس دینے کی عادت نہیں۔ اس ذمہ داری کا احساس نہیں۔ ایسی سوچ پروان چڑھ چکی ہے جس کے خمیازہ کی شکل ملک پر قرضوں کا انبار ہے۔ مسلسل ٹیکس نفاذ کئے جارہے ہیں۔ ایف بی آر کی پریس ریلیز کے مطابق مالی سال 24-23کیلئے مقرر ہدف سے 54 ارب روپے زیادہ ٹیکسز اکٹھے کئے ہیں۔ گزشتہ سال کے مقابلہ میں محصولات کی وصولی میں 30فیصد اضافہ ہوا ہے۔ مالی سال کا ہدف 9252ارب روپے کے مقابلہ 9306ارب روپے وصول ہوا ہے۔ ہم اگر عوامی سہولیات کی بات کریں تو عوام کو کوئی بنیادی سہولت میسر نہیں۔ عوام کا حکمران طبقہ پر یقین نہیں رہا۔ لوگوں کا خیال یقین میں بدل چکا ہے کہ حکمران ہمارے ٹیکس کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ اس طبقہ کی پچھلے 40سال میں عوامی کارکردگی کچھ نہیں ہے۔ نعرے بیانیے ہی ہیں، کام کچھ نہیں۔ عوام کی فی کس آمدن میں کوئی بہتری ممکن نہیں رہی بلکہ اسمبلیوں اور اعلیٰ اداروں میں بیٹھے طاقتوروں نے ایک کارٹیل بنا لیا ہے جو تمام کاروباری سرگرمیوں پر قابض ہوچکا ہے۔ اس لئے اس وقت آپریشن عزم استحکام کی انتہائی ضرورت ہے۔ یہ آپریشن بلاتفریق اور گرائونڈ لیول سے شروع کرنا چاہئے۔ سرکاری عہدے داروں کی جانچ پڑتال بھی لازمی ہونی چاہئے۔ تفریق سے پاک آپریشن عزم استحکام ضرورت ہے۔ لوگ خوشی سے ٹیکس دیں گے جب احتساب بلاتفریق ہوگا۔ احتسابی نعرے ماریں گے لیکن عملی شکل کبھی نظر نہیں آئی۔ ان 75سال سے کبھی ممکن نہیں ہوا۔ ماضی میں سکیورٹی کے حوالہ سے کئی آپریشن شروع ہوئے اور ان کے نتائج کافی حد تک بہتر رہے۔ لیکن اس وقت ملک کو غیر مساوی دولت کی تقسیم کا سامنا ہے، جو معاشرہ میں افراتفری کا باعث بن چکی ہے۔ نادر بادشاہ نے تو دلی لوٹی تھی اور اربوں ڈالر اپنے ملک ایران لے جاکر عوام کو تین سال کیلئے ٹیکس فری کر دیا تھا۔ ہمارے ہاں حکمرانی تو سب کر چکے ہیں لیکن نادر بادشاہ ابھی تک کوئی نہیں بنا۔ ہمارے ہاں تو اپنے ہی ملک کو لوٹ کر غیر ملکی معیشت کو مضبوط کرتے ہیں کیوں کہ ان کا مال اور اولاد سب ملک سے باہر ہیں اور کاروبار بھی وہی ہیں، ان کو خوشی سے ٹیکس دیتے ہیں۔ پاکستان میں حکمرانی کرتے ہیں۔ قومی خزانہ سے لوٹ مار کا دروازہ کھلا ہے۔ سالوں گزار گئے۔ نسلیں تبدیل ہو گئیں لیکن اس طبقہ کی واردات ختم نہیں ہوئی۔ ان کے کھاتے ختم نہیں ہوئی۔ اسمبلیوں میں بیٹھے افراد جن کی اوسط عمر 50سال سے زیادہ ہے، کبھی نہیں سوچتے کہ باقی زندگی کا بچا کیا ہے۔ سیلابوں، طوفانوں اور ان دنوں ہائی ڈگری درجہ حرارت میں مرتی قوم کا کوئی احساس نہیں ہے۔ سب ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے گپ شپ کو میٹنگ کا درجہ دے رہے ہیں اور دیکھ رہے ہیں اور کتنے مرنے والے ہیں۔





