وعدے، دعوے اور مصلوب ہوتے عوام

رفیع صحرائی
عام انتخابات کے موقع پر حکمران اتحاد کے رہنمائوں نے عوام کو جو سبز باغ دکھائے تھے وہ وہ تمام باغ خزاں کی نذر ہو چکے ہیں۔ ایک سال پہلے مسلم لیگ ن نے ایک نعرے کو بیانیہ بنایا تھا کہ
’’ میاں جدوں آوے گا
لگ پتا جاوے گا‘‘
واقعی عوام کو لگ پتا گیا ہے۔ مستقبل کے سہانے خوابوں کی ایسی بھیانک تعبیر کے بارے میں تو کبھی کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔ میاں نواز شریف نے انتخابی مہم کے دوران عوام سے بہت سے وعدے کئے تھے، مستقبل کے لئے انہوں نے بہت سے دعوے کئے تھے مگر اپنے بھائی کو وزیرِ اعظم بنوانے کے بعد میاں نواز شریف منظر سے یوں غائب ہو گئے ہیں گویا وہ کسی سے آشنا ہی نہ ہوں۔ پٹرول اور گیس کی قیمتوں میں اضافے پر لندن میں بیٹھے نواز شریف کے آنسو نہیں رکتے تھے۔ اب وہ پاکستان میں ہیں۔ ان کے سامنے عوام کو کند چھری سے ذبح کیا جا رہا ہے مگر میاں نواز شریف خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ جب اس حکومت کا خاتمہ ہو گا تو میاں نواز شریف اپنے بھائی کی بری پرفارمنس سے اسی طرح اظہارِ لاتعلقی کر دیں جس طرح گزشتہ الیکشن کی انتخابی مہم کے دوران انہوں نے شاہد خاقان عباسی اور اپنے بھائی کی سربراہی میں چلنے والی پی ڈی ایم حکومت سے خود کو بری الذمہ قرار دے دیا تھا۔ اگر وعدوں کی بات چل نکلی ہے تو جناب بلاول بھٹو نے بھی انتخابی مہم کے دوران تین سو یونٹ بجلی مفت دینے کا وعدہ بار بار دہرایا تھا۔ مسلم لیگ ن اور میاں نواز شریف کو نشانے پر رکھ کر انتخابی مہم چلانے والے بلاول بھٹو زرداری نے الیکشن کے بعد اسی نواز شریف کی گود میں بیٹھنے کے لئے ایک لمحے کی دیر نہیں لگائی۔ اصولوں کی سیاست ماضی کا قصہ بن چکی ہے۔ اب سیاست کا مقصد اقتدار کا حصول ہی رہ گیا ہے۔ اس کے لئے ہر جائز ناجائز حربہ ہی استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ سخت ترین مخالفوں سے بھی ہاتھ ملانے میں دیر نہیں لگائی جاتی۔ اقتدار کے لئے تو بلاول زرداری اپنے سیاسی حریف عمران خان سے بھی ہاتھ ملانا چاہ رہے تھے مگر چیئرمین پی ٹی آئی نے ان کے ساتھ چلنے سے انکار کر دیا۔ تب مسلم لیگ ن سے انہوں نے تگڑی سودے بازی کی اور اپنے ووٹرز کے اپنے اوپر کئے جانے والے اعتماد کا پورا پورا معاوضہ وصول کر لیا۔ کئی آئینی اداروں کی سربراہی، دو صوبوں کی گورنر شپ اور اپنے باپ کے لئے صدرِ مملکت کا عہدہ حاصل کر کے بلاول بھٹو بھی عوام اور ان کے مسائل سے ایسے ہی لاتعلق ہو گئے جیسے میاں نواز شریف لاتعلق ہوئے ہیں۔ جناب بلاول اور میاں نواز شریف سے عوام یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ
جھوٹے نکلے سبھی تیرے وعدے
یاد کر او بدل جانے والے
تیرے وعدوں پہ ہم مر مٹے تھے
لے کے کرسی او بھول جانے والے
گلے الیکشن میں بیوقوف عوام کے سامنے ایک مرتبہ پھر بھٹو زندہ ہو گا۔ دما دم مست قلندر کے نعرے لگیں گے اور عوام بھنگڑے ڈالتی ہوئی شہید بی بی کے بیٹے کی بارگیننگ کی پوزیشن کو بہتر بنائے گی۔
وعدے تو مریم نواز شریف نے بھی عوام سے بہت کئے تھے۔ آج کل ان کا ایک کلپ سوشل میڈیا پر بہت وائرل ہے جس میں وہ عوام سے مخاطب ہو کر فرما رہی ہیں کہ دو سو یونٹ تک بجلی خرچ کرنے والے بجلی کا بل ادا کرنے کے لئے جائیں گے تو آگے سے جواب ملے گا کہ آپ بل واپس لے جائیں۔ آپ کا بل پنجاب حکومت ادا کر چکی ہے۔
محترمہ مریم نواز شریف اس وقت پنجاب کی وزیرِ اعلیٰ ہیں۔ سب سے بڑے صوبے کے سب سے زیادہ بااختیار عہدے پر جلوہ گر ہیں۔ اپنے وعدے کے مطابق عوام کو بجلی کے مہنگے بلوں سے وہ بھی نجات نہیں دلوا سکیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ عوام کے لئے بہت کچھ کر رہی ہیں۔ مریم کی دستک ان کا انقلابی پروگرام ہے جو یقیناً صوبہ پنجاب کی تقدیر بدل دے گا۔ وہ اس وقت بھارت کی عام آدمی پارٹی کے سربراہ ارویند کیجریوال کے نقشِ قدم پر تیزی سے رواں دواں ہیں۔ شاید چند ماہ کے اندر ہی پنجاب کے خدوخال بدلے ہوئے نظر آئیں گے۔ مریم نواز شریف کو بھی اس حقیقت کا ادراک ہے کہ مسلم لیگ ن کے سیاسی مستقبل کا انحصار پنجاب میں ان کی پرفارمنس پر ہی ہے۔ لیکن باقی فلاحی، رفاہی اور ضروری کاموں کے ساتھ بجلی کے ہوش ربا بلوں سے اپنے عوام کو نجات دلانا بھی مریم نواز شریف کی ذمہ داری ہے کہ انہوں نے خود اس کا وعدہ کیا تھا۔ 2008سے 2013تک پاکستان پیپلز پارٹی ملک پر برسرِ اقتدار رہی تھی۔ 2013 کے انتخابات میں عوام نے پیپلز پارٹی کو بری طرح سے مسترد کر دیا۔ یہاں تک کہ یہ پارٹی صرف سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی تھی۔ اس عبرتناک شکست کی ایک بڑی وجہ ملک میں بجلی کی بے تحاشہ لوڈ شیڈنگ تھی۔ ممکن ہے مسلم لیگ ن اسی بجلی کا آئندہ، شکار ثابت ہو۔
گزشتہ نگران حکومت کے ہاتھ یہ زبردست فارمولا لگ گیا تھا کہ تمام حکومتی اخراجات بجلی، گیس اور تیل کی قیمتیں بڑھا کر پورے کرنے ہیں۔ کاکڑ حکومت نے بے حسی کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے تھے۔ موجودہ شہباز حکومت بھی کاکڑ فارمولے پر عمل پیرا ہے۔ عوام کی قوتِ خرید جواب دے چکی ہے۔ ننھی ننھی بیٹیوں کے کانوں کی بالیاں بجلی کے بلوں کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ سہاگنوں کے ہاتھ چوڑیوں سے محروم ہو کر حکومتی پالیسیوں پر نوحہ خواں ہیں۔ حکومت نے بچوں کے ہاتھوں سے ٹافیاں، کھلونے اور کتابیں چھین کر انہیں بچپن میں ہی مزدوری پر مجبور کر دیا ہے۔
اگر بجلی، گیس اور تیل کی قیمتیں بڑھا کر ہی تمام حکومتی اور سرکاری اخراجات پورے کرنے تھے تو الیکشن کی کیا ضرورت تھی؟۔ یہ کام تو نگران حکومت آپ سے بھی احسن انداز میں سرانجام دے رہی تھی۔ کہاں گئے سیاسی وعدے اور دعوے؟۔ کہاں گئیں جھوٹی عوامی ہمدردیاں اور مگرمچھ کے آنسو۔ آپ نے تو اپنے اخراجات کے لئے 25سے 62فیصد تک بجٹ بڑھا کر اسے منظور بھی کروا لیا ہے۔ اشرافیہ کی عیاشیوں کی قربان گاہ پر تو عوام کو ہی مصلوب ہونا پڑ رہا ہے۔ جناب وزیرِ اعظم نے تو دعویٰ کیا تھا کہ اب حکومت اور اشرافیہ قربانی دے گی۔ مگر ہوا اس کے برعکس ہے۔
خدارا لوگوں کو زندہ رہنے دیں۔ ان سے زندہ رہنے کا حق نہ چھینیں۔ عوام کی قوتِ خرید اور اشرافیہ کی قوتِ خرید میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اب بس کر دیجئے۔ عوام کا غصہ بڑھ رہا ہے۔ چھوٹے چھوٹے احتجاج شروع یو چکے ہیں۔ اپنی شہنشاہی مراعات کا خاتمہ کر کے اور عوام کو ریلیف دے کر ان احتجاجوں کو تحریک بننے سے روک لیں۔ اگر ایک مرتبہ آپ کے خلاف تحریک شروع ہو گئی تو پھر آپ کا اقتدار سخت خطرے میں پڑ جائے گا۔ ہر صاحبِ اقتدار کی طرح اپنی حکومت کو دائمی سمجھنے کی غلطی نہ کریں۔





