امریکہ کو ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کا کوئی حق نہیں

ایم فاروق
پاکستان نے امریکی کانگریس کی طرف سے عام انتخابات میں بے ضابطگیوں کے الزامات کا مطالبہ مسترد کر دیا ہے امریکی کانگریس کی ایسی قرارداد نہ تو تم تعمیری ہے اور نہ ہی بامقصد۔ پاکستان دنیا کی دوسری بڑی پارلیمانی جمہوریت ہے اور دنیا کا پانچواں بڑا جمہوری ملک ہے۔ پاکستان اپنے آئین اور انسانی حقوق کو اہمیت دیتا ہے۔ اس قرارداد کا مقصد اور سیاق و سباق پاکستان امریکہ کے دو طرفہ تعلقات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکہ پاکستان کی سیاست اور انتخابی عمل کی ناقص معلومات رکھتا ہے۔ امریکہ کے نمائندگان نے 8فروری2024ء کو پاکستان میں ہونے والے انتخابات میں ووٹنگ کے بعد ہیر پھیر کے دعوئوں کی غیر جانبدار تحقیقات کے حق میں بھاری اکثریت سے قرارداد منظور کی اور کہا گیا پاکستان میں گزشتہ عام انتخابات میں پولنگ کے دن انٹرنیٹ کی بندش، سیاسی گرفتاریاں، تشدد اور نتائج کے آنے میں غیر معمولی تاخیر کی وجہ سے متاثر ہوئے ہیں۔ یہ تمام عوامل انتخابات کے غیر موثر اور غیر شفاف ہونے کا باعث بنے۔ امریکی نمائندگان نے سات کے مقابلے میں 368امیدواروں نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دئیے جس میں مداخلت بے ضابطگیوں کہ دعوئوں کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا۔ قرارداد میں کہا گیا کہ پاکستان کے لوگوں کو جمہوری عمل میں حصہ لینے سے روکا گیا ان کو ہراساں کیا گیا، تشدد کیا گیا۔ بلا جواز انٹرنیٹ اور مواصلاتی ذرائع کی بندش انسانی حقوق اور سیاسی حقوق کی خلاف ورزیاں ہیں۔ ہائوس ریزولیشن 91میں کہا گیا یہ قرارداد انسانی حقوق اور جمہوریت کے حوالے سے ہے۔
اس قرارداد میں پاکستان کے سیاسی انتخابی اور عدالتی عمل کے اثر انداز ہونے کی مذمت کی گئی۔ یہ قرارداد ری پبلکن رکن کانگرس رچرڈ میک کارمک نے ایوان میں پیش کی۔ اس قرارداد میں امریکہ کے صدر اور وزیر خارجہ پر زور دیا گیا کہ جمہوری، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی یقینی بنانے کے لیے امریکہ پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرے۔
اس قرارداد میں سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف 2022میں تحریک عدم اعتماد اسمبلی کی تحلیل اور بعد میں پیش آنے والے واقعات کا ذکر ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان نے امریکہ کے ساتھ انسانی حقوق کی قرارداد پر دستخط کر رکھے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب یہ قرارداد پیش ہو رہی تھی تو امریکہ میں پاکستانی سفارت خانہ اس وقت کہاں تھا اس نے اپنا کردار ادا کیوں نہیں کیا، کہ پوری دنیا میں انسانی حقوق پر پاکستان نے دستخط کر رکھے ہیں، امریکہ نے نہیں کر رکھے ہیں۔ فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ کیا امریکہ کو نظر نہیں آتا ہے، کشمیر میں جو کچھ مسلمانوں کے ساتھ ظلم و ستم مائوں، بہنوں، بیٹیوں کے ساتھ ہو رہا ہے وہ نظر نہیں آتا ہے۔ فلسطین میں بچے معذور ہو رہے ہیں۔ غزہ میں ابتر ذہنی حالت ہے۔ غزہ میں روزانہ دس سے زیادہ بچے معذور ہو رہے ہیں ۔ ہسپتالوں میں اتنے چھوٹے بچے ہیں کہ اپنا نام بھی نہیں بتا سکتے ہیں۔ عورتیں بیوہ ہو گئیں اور ہو رہی ہیں، بچے یتیم ہو گئے، باپ کے سہارے ختم ہو گئے، کیا یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں امریکہ کو نظر نہیں آتی ہیں۔ امریکی کانگریس کے ان جمہوری علمبرداروں کو مقبوضہ کشمیر اور بھارت کے اندر اقلیتوں اور دلتوں کے ساتھ ظالمانہ اور جابرانہ طریقے سے انسانی حقوق کی پامالی نظر نہیں آتی۔ کیونکہ ان دونوں ملکوں پر امریکہ کا دست شفقت ہے اس لیے ان کو نظر نہیں آتی ہیں۔
پاکستان خطے میں شاید وہ واحد ملک ہے جہاں انسانی حقوق کی سب سے زیادہ پاسداری کی جاتی ہے۔ جہاں اقلیتوں کا خاص طور پر خیال رکھا جاتا ہے۔ پاکستان میں سب کو آئینی، قانونی مساوی حقوق حاصل ہے۔
طاہر اشرفی نے کہا کہ انتخابات پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے، امریکہ کا اپنا دہرا معیار اور منافقانہ کردار اس طرح کی قرارداد کے قابل نہیں۔ اپنے ایک پیغام میں علامہ طاہر اشرفی نے کہا کہ پاکستان کی سیاسی و مذہبی جماعتوں اور عوام نے اس کو حل کرنا ہے، حکومت کی طرف سے امریکی قرارداد مسترد اور اس پر قرارداد لانے کا فیصلہ درست سمت میں قدم ہے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان کی آزادی و خودمختاری کی سنگین خلاف ورزی ہے، تاریخ بھری پڑی ہے امریکا نے مقبول جمہوری حکومتوں کا بستر گول کرایا، مشرق وسطیٰ میں انسانی حقوق کی پامالی اور فلسطینیوں کی نسل کشی کی پشت پناہی پر امریکا نے اپنی رہی سہی اخلاقی ساخت بھی کھودی ہے۔ امریکی ایوان میں منظور کردہ قرارداد کی پاکستان کی ریاست پابند نہیں ہے۔ کانگریس کے اس اقدام کی پرزور مذمت کی جانی چاہئے، پاکستان ایک غلام ریاست نہیں بلکہ ایک خود مختار ریاست ہے۔ ویسے تو امریکہ کو ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کا کوئی حق نہیں لیکن ہم معاشی اور سیاسی طور پر چوراہے پر بیٹھے ہیں تو ہر آنے جانے والا ہماری گدی گرم کر کے چلا جاتا ہے۔ مشکل وقت صرف حکومت کے لیے نہیں، ریاست کے لیے بھی ہے۔ شادیانے بچانے والوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اس قرارداد سے ہونا کچھ بھی نہیں ہے۔ کیونکہ اس قرارداد کی ویسے بھی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ہم امریکیوں کا ساتھ دینے کا خمیازہ آج تک دہشتگردی کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ یہ قرارداد بھی کچھ نادان دوستوں کی وجہ سے منظور ہوئی جن کو ان کے اثرات کا جلد پتہ چل جائے گا۔
پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے اور جغرافیائی لحاظ سے ایک ایسے خطے میں آباد ہے جہاں دنیا کی دو بڑی سپر طاقتیں ہیں۔ ان میں ایک روس اور دوسرا پاکستان کا ہمسایہ دوست چین ہے جس نے ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دیا مشرق میں پاکستان کو ایک بدترین چالاک اور مکار بھارت جیسے دشمن کا سامنا ہے جو ہر سطح پر پاکستان کو خارجی اور سفارتی سطح پر نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ اگر بھارت کے بجائے پاکستان کا کوئی ہمسایہ ملک مشرق میں ہوتا تو پاکستان کی اہمیت آج کچھ اور ہوتی۔
پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے اور اس کا زیادہ تر انصار بیرونی امداد پر ہے اور بیرونی امداد دینے والے ممالک پاکستان کے سیاسی معاشی اور اقتصادی معاملات میں بھی اثر انداز ہوتے ہیں جیسا کہ ماضی میں روس افغانستان میں اثر انداز ہوتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی میں زیادہ ترقی یافتہ ممالک کو اہمیت دی جاتی ہے اور امداد دینے والے ممالک کے مفادات کو بھی مد نظر رکھا جاتا ہے۔
امریکی قرارداد کے بدلے پاکستان نے 28جون کو قومی اسمبلی شائستہ پرویز ملک نے قومی اسمبلی میں قرارداد پیش کی جو کہ ایک خوش آئند بات ہے۔ اس میں ملک کی سلامتی، ملک کے اندرونی معاملات کو مد نظر رکھا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ امریکہ کا اپنے اندرونی معاملات کو دیکھے ہماری اندرونی معاملات کو نہ دیکھے۔ ہمارے اندرونی معاملات ہماری حکومت ہماری آئینی اداروں اور عوام نے حل کرنے ہیں نہ کہ امریکہ۔ اس قرارداد سے امریکہ کو ایک مثبت جواب ملا ہے جو کہ ایک خوش آئند روایت ہے۔





