امداد باہمی کی اسلام میں تاکید، معاشرے کی ناگزیر ضرورت

امتیاز یٰسین
معروف یونانی فلاسفر، فاتح دنیا سکندر اعظم کے استاد، ذہین فطین زرخیز دماغ کے مالک ارسطو انسان کو معاشرتی حیوان قرار دیتا ہے۔ انسان اور معاشرہ لازم و ملزوم ہیں۔ امداد باہمی انسانی ضروریات میں ایک دوسرے سے ارتباط، حاجت روائی ، غم خواری کے ناطے بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ نظریہ فطرتِ انسانی کے اصول کے تابع رہ کر زندگی میں انسان کو قدم قدم پر ایک دوسرے کی مدد اور تعاون کی ضرورت پیش آتی ہے۔ حتیٰ کہ انسان اور معاشرہ کی ترقی، مضبوط و مستحکم کرنے کا راز بھی انسان کے آپس کے تعاون ( mutual aid) سے ہی مشروط ہے۔ قرآن ہمیں نیکی و پرہیز گاری کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرنے جبکہ بدی، گناہ، خرافات کے کاموں میں تعاون کو منع قرار دیتا ہے۔ جبکہ جدید سائنس میں سائنسدانوں کی ریسرچ کی مطابق ایک دوسرے کی مدد کرنے سے انسانی صحت و دماغ پر خوشگوار اثرا ت مرتب ہوتے ہیں۔ انسانی دماغ میں ایک عصبی رستہ فعال ہو جاتا ہے جو انسان کے دماغی و اعصابی دبائو، تنائو میں خاطر خواہ کمی لاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات نے حاکمیتِ اعلیٰ اپنے اختیار میں رکھ کر زمین پر معاشی و معاشرتی نظام ہی یوں تخلیق دیا ہے کہ انفرادی و اجتماعی حتیٰ کہ حکمرانوں کے طور پر بھی ہر طاقت ور ترین سے لیکر کمزور ترین تک تمام نوع بشر ایک دوسرے کے تعاون و اشتراک کا دستِ نگر دکھائی دیتا ہے ۔ یہ جذبہ احساس و ضرورت اور تفاعل نہ صرف انسانوں بلکہ جانوروں و حیوانات اور ہر جاندار میں بدرجہ اتم بھی پایا جاتا ہے۔ جانوروں کا کمیونٹیٹر بنا کر وسائل کا اشتراک کرنا اور شکاریوں سے اپنے تحفظ کے لئے غول، ریوڑوں گروہوں کی شکل میں اجتماعی دفاع میں مشغول و مصروف رہنا حیوانات میں باہمی تعاون کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ اسلام میں امداد باہمی، احساس اور ترغیب کا تصور بڑا واضح اور عیاں ہے۔ بلا رنگ و نسل، عربی و عجمی کی تفریق و تمیز سے قطع نظر مسلمان کو مسلمان کا بھائی قرار دیا گیا ہے۔ مسلمانوں کو ایک جسدِ واحد کی طرح قرار دیا گیا جس طرح جسم کے ایک حصہ میں درد ہو تو پورا جسم تکلیف محسوس کرتا یہ امداد و احساس باہمی اور بھائی چارہ کی بہترین مثال ہے۔ خیر القرون میں ہمارے نبی پاکؐ کی معمولات زندگی میں انسانی فوز و فلاح نہ صرف مسلمان سے بلکہ مشرکوں ، مخالفیں، ناقدین تک محیط تھے۔ نماز کیلئے جاتے وقت گلی کی نکڑ پر مشرک خاتون کا آپؐ پر خس و خاشاک گرانے کا معمول، ایک دن ایسا عمل نہ ہونے پر پتہ چلتا ہے کہ خاتون بیمار ہے اجازت سے اس کے گھر جا کر تیمار داری کرنا، اس کو ادویات اور دیگر ضروریات زندگی کی چیزیں مہیا کرنا امداد باہمی و ایثار اور کفالتِ عامہ کی بہترین مثال ہے۔ اس طرح آپؐ کا خندق کھودنے میں حصہ لینا، صحابہ کرامؓ سے ہر کام میں مشورت کرنا، مالی مدد امداد باہمی کی روشن روایات ہیں۔ آپؐ نے اس شخص کو بہترین قرار دیا جو بنی نوع انسان کے لئے سب سے زیادہ نفع بخش ہو۔ انسان میں جس قدر اخلاقی، دفاعی، معاشی، معاشرتی معاملات میں امداد باہمی کا رشتہ جس قدر مستحکم ہو گا اس قدر نتیجہ خیز و موثر ہو گا۔ بڑے سے بڑا منصوبہ ہو یا چھوٹے سے چھوٹا کام حتیٰ کہ خوشی غمی کے لمحات باہمی تعاون کے بغیر اس کا پایہ تکمیل کو پہنچنا نا ممکن ہوتا ہے۔ انسانی انگلیاں سائز میں متفاوت کے باوجود اگر باہم مل کر اکٹھ کا روپ دھار لیں تو ان میں استعداد کاری بڑھنے کے ساتھ وہ طاقت مجتمع ہو جاتی ہے جو اکیلی ایک ایک انگلی میں خال خال ہی دکھائی دیتی ہے۔ معاشی امداد باہمی سے صاحبِ ثروت کو ہمارا اسلام تنگ دست و ضرورت مند کی مالی اعانت کے بدلے بے پناہ اجر و ثواب کی بشارت دیتا ہے، اس طرح کسی مظلوم کو ظلم سے نجات دلانے کے لئے انسان دوسرے انسان سے مدد و تعاون کا طلب گار ہوتا ہے الغرض کوئی شعبہ دین اسلام کی اساس امداد باہمی کے بغیر کامل نہیں۔ عصرِ حاضر کے پر آشوب دور میں بین الاقوامی طور پر ممالک اپنے اپنے مفادات کے گرد گھومنے سے ایک دوسرے کے ساتھ حقیقی تعاون کے انحطاط و انحراف، تنگ نظری سے زمین کا یہ گولہ ایک دوسرے کے لئے بے پناہ مسائل پیدا کر رہا ہے۔ ملتِ اسلامیہ مسلم اجتماعیت کے فقدان و زوال پذیری، متروک ضبط و ربط سے فلسطین، کشمیر سمیت متعدد مسلم ممالک کفر کی چیرہ دستیوں کے نرغے میں ہیں۔
قرآن اللہ کی جس رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنے اور نفاق بازی نہ کرنے کی تلقین تنبیہ کرتا ہے وہ آفاقی عمل یکجہتی کی تائید و ترغیب دیتا ہے۔ باہمی سماجی تعلقات تہذیب، مہذب، آزادی، خوشحالی، ارتقاء و بقا اور مثبت نمو کا رستہ ہے جبکہ مقابلہ بازی اس کی ضد کہلاتے ہیں جس سے تنائو، نفرتیں، مخاصمتیں اپنی جگہ بناتی ہیں۔ خواجہ میر درد کا یہ شعر کمیون کی اہمیت و ضرورت خوبصورتی سے اجگر کرتا ہے
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انساں کو
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
دنیا بھر میں امداد باہمی کے نظریہ کے اقوام متحدہ نے 1992ء کو عالمی دن منانے کا اعلان کیا جس سے دنیا بھر کے ممالک میں بڑے سانحات، زلزلے، سیلاب وغیرہ کے متاثرین کی امداد کے لئے انٹر نیشنل سطح پر انسانی مدد کا شعور اجاگر کرنے میں خاطر خواہ مدد ملی۔





