ایک آپریشن ایسا بھی ہونا چاہئے !

یاور عباس
دنیا میں جوں جوں لوگوں میں آزاد اور خود مختار زندگی گزارنے کے لیے شعور بیدار ہوتا گیا تو دنیا سے بادشاہی نظام ختم کر کے جمہوری نظام قائم کیا گیا، جن ممالک میں جمہوریت کی حقیقی جڑیں مضبوط ہوتی گئیں وہاں ترقی اور خوشحالی کے دور کا آغاز ہوگیا، مغربی ممالک میں جمہوری روایات قابل تحسین ہیں، جہاں معاشرہ کے فرد کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، ریاستیں اپنے شہریوں کی آزادی، حقوق اور انہیں بہترین سہولتوں کی فراہمی کے لیے کوشاں رہتی ہیں جبکہ آمرانہ جمہوریت کے حامل ممالک کے عوام آج بھی اپنی ہی حکومتوں سے آزادی اظہار کے لیے جدوجہد میں مصروف عمل دکھائی دیتے ہیں، ایسے ممالک کے عوام بدحال اور اشرافیہ خوشحال ہوتے ہیں، چند فی صد لوگ پوری قوم پر اپنے فیصلے مسلط کرتے ہیں، خاندانی، موروثیت سیاست کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں جبکہ عوام کو بھیڑ بکریاں سمجھ کر ان پر فیصلے مسلط کیے جاتے ہیں ۔
حقیقی جمہوریت صرف انہی ممالک میں ہوتی ہے جہاں ریاست کے تمام اداروں اپنے عوام کے حقوق کے تحفظ اور ان کی خوشحالی کے لیے کوشاں رہتے ہیں ۔ ریاستی ادارے عوام کے خدمتگار کے طور پر کام کرتے ہیں ۔ بیوروکریسی سمیت ہر محکمہ ریاست کا اہلکار ہوتا ہے مگر خادم عوام کا ہوتا ہے، جہاں سرکاری اہلکار خود کو افسر سمجھتے ہوئے عوام کو حقیر سمجھے وہاں جمہوریت نہیں آمریت ہوتی ہے، جمہوریت انہی ملکوں میں مضبوط ہوتی ہے جہاں قانون کی حکمرانی ہو اور قانون معاشرے کے ہر فرد کے لیے ایک جیسا ہو، جہاں قانون امراء کو سہولت دے اور غرباء کو جیل کی سلاخوں میں ڈال دے وہاں ترقی ہوسکتی ہے نہ خوشحال کا دور آسکتا ہے۔ قیام پاکستان کے اغراض ومقاصد پڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستان اسلامی فلاحی جمہوری ریاست بنانے کے لیے قائم کیا گیا جہاں عوام خوشحال ہوسکے، اخوت، مساوات اور رواداری کو فروغ مل سکے مگر بدقسمتی سے 76سال میں ہم ان مقاصد کے حصول میں کامیاب نہیں ہورہے ۔
پاکستان میں کبھی جمہوریت اور کبھی آمریت کا دور رہا ، ریاستی اداروں نے بالادستی کی جنگ لڑتے لڑتے پاکستان کو دولخت کر دیا، مگر اس کے باجود ہم ملک میں امن قائم کر سکے نہ معاشی طور پر اسے مضبوط بنا سکے ۔ پاکستان معاشی دلدل میں دھنستا رہا اور آئی ایم ایف کے شکنجے میں جکڑتا رہا ، ملک و قوم خوشحالی کی بجائے قرضوں کی زنجیر میں جکڑتے رہے۔ ملک میں معاشی، سیاسی استحکام ایک خواب بن کر رہ چکا ہے ، امن و امان کی بات کی جائے تو یہاں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ہزاروں بے گناہ لوگوں کی جانیں چلے گئیں ، بم دھماکے ، خود کش حملوں سے صرف عوام ہی نہیں ریاستی ادارے بھی محفوظ نہ رہے ، ملک میں معاشی ، سیاسی ، اقتصادی استحکام ، دہشت گردی کے خاتمہ اور امن و امان کے قیام کے لیے گزشتہ دو دہائیوں میں کوئی 11آپریشن کیے گئے 2001ء سے پاک فوج نے جو آپریشنز کیے ان میں جنرل پرویز مشرف کے دور میں آپریشن المیزان چار سال تک رہا ، پھر جنرل اشفاق پرویز کیانی کے دور میں آپریشن راہ حق ، آپریشن صراط مستقیم، آپریشن زلزلہ ، آپریشن شیردل ، آپریشن راہ راست ، آپریشن راہ نجات ، آپریشن کوہ سفید، آپریشن راہ شہادت ، جنرل راحیل شریف کی قیادت میں آپریشن ضرب عضب اور جنرل قمرجاوید باجوہ کے دور میں آپریشن ردالفساد کیا گیا اور اب جنرل عاصم منیر کے دور میں آپریشن عزم استحکام پاکستان کا اعلان کیا گیا ہے ۔
جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں جب ملک میں عملی طور پر جمہوریت اپاہج تھی پرویز مشرف ملک کے چیف ایگزیکٹو تھے تو انہوںنے افغان جنگ میں امریکہ کی حمایت کی جس کے بدلے میں پاکستان طالبان کی دہشت گردانہ کارروائیاں بڑھ گئیں ، خود کش حملے اور بم دھماکے ہونا شروع ہوگئے جس کے نتیجے میں آپریشن کرنا پڑا ، اس دور میں اگرچہ امریکہ سے ڈالرز آتے رہے مگر ہزاروں قیمتی جانیں چلی گئیں اور ملک میں دہشت گردی کی وجہ سے امن و امان کا ناپید ہوگیا، جنرل پرویز مشرف نے مذہبی انتہا پسندی کو روکنے میں بنیادی کردار ادا کیا اور ملک میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کی کمر کافی حد تک توڑ دی ، شدت پسند مذہبی جماعتوں کو کالعدم قرار دیا، جنرل اشفاق پرویز کیانی کے دور حکومت میں سب سے زیادہ آپریشن ہوئے امریکہ بھی ڈرون حملے کرتا رہا ، 9؍11کے سب سے بڑے مبینہ ملزم اسامہ بن لادن کو بھی پاکستان سے فوجی آپریشن کرکے لے جانے کا اعلان ہوا جس سے پاکستانی حکومت نے پہلے لاعلمی کا اظہار کیا پھر کامیابی پر مبارک دے دی، سلالہ چیک پوسٹ پر فوجی جوانوں کی ہلاکت کے بعد امریکی اڈوں کو خالی کروا لیا گیا ، مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں جنرل راحیل شریف کے دور میں جب ملک میں سیاسی عدم استحکام عروج پر تھا ، اسلام آباد میں پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک کے دھرنے چل رہے تھے کہ سانحہ آرمی پبلک سکول پیش آگیا جس میں ایک سو سے زائد معصوم طلبہ کو شہید کر دیا گیا پورے ملک کی فضاء سوگوار ہوگئی تو اس کے بعد آپریشن ضرب عضب شروع ہوگیا، پاک فوج کے اس آپریشن کی بدولت ملک سے دہشت گردی کی جڑیں تقریباً کاٹ دی گئیں اور ملک میں امن و امان کی فضاء کافی حد تک بہتر ہوگئی ، 2018ء کے الیکشن کے بعد ملک میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوگئی ، وزیر اعظم عمران خاں کے دور میں ڈرون حملوں کو بھی روک دیا گیا، سیاحت کو فروغ حاصل ہوا، کورونا کے باوجود معاشی استحکام رہا پھر عدم اعتماد کے ذریعے حکومت تبدیل کردی گئی اور پی ڈی ایم حکومت پر الزام لگایا گیا کہ یہ امریکہ اور اسٹیبلشمنٹ کی سازش کا نتیجہ ہے جس سے ملک میں عوامی احتجاج بڑھتا گیا، ریاست اور عوام آمنے سامنے آتی رہی جس کا نتیجہ 9مئی کی صورت میں دیکھنے کو ملا، جنرل انتخابات میں کو عوام اور اپوزیشن نے دھاندلی زردہ قرار دیا ہے اسے فارم 47کی جعلی حکومت قرار دیا جارہا ہے، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، مسلم لیگ ق ، پی ٹی آئی کی حکومتوں میں متعدد آپریشن ہوئے مگر عوام خوشحال ہوئے نہ ہی جمہوریت مضبوط ہوئی، آپریشن عزم استحکام پاکستان کی کابینہ نے منظوری دے دی مگر اپوزیشن جماعتیں اور عوام اس کی مخالفت کر رہے ہیں، ایک آپریشن ایسا بھی ہونا چاہیے جس سے ملک میں آئین کی بالادستی قائم ہو، تمام ادارے اپنی اپنی حدود میں رہ کر عوام پاکستان کی خدمت کریں، آئی ایم ایف سے نجات مل سکے، مہنگائی ، غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ ہوسکے، پاکستان ایک خود مختار معاشی قوت بن کر دنیا کے نقشے پر اُبھرے ۔ اس آپریشن کو عوام مدتوں یاد رکھے گی، ایسے حکمرانوں کے نام بھی سنہری حروف میں لکھیں گے۔





