Column

واپڈا گردی

صفدر علی حیدر ی
گرمی سے ستائے ہوئے عوام پر بجلی کی قیمتوں بڑھنے کی خبر آسمانی بجلی کی طرح گری اور ان کی امیدوں کو جلا کر راکھ کر ڈالا۔ نئی حکومت جیسی بھی ہو، اس کو ہم پسند کرتے ہوں یا نہ ہو، ان سے ہمیں بھلائی کی توقع ہو نہ ہو، کم از کم یہ امید ضرور ہوتی ہے کہ وہ اپنے عوام کو ریلیف فراہم کر کے ان کا دل جیتنے کی کوشش کرے گی مگر برا ہو پاکستانی سیاست کا کہ یہاں کے عوام کو ہمیشہ ڈھور ڈنگروں کی طرح پیچھے دھکیلا گیا ہے۔ کسان کے ساتھ گندم کے حوالے سے جو ظلم روا رکھا گیا اس کے اثرات کاروباری طبقے پر کتنے منفی پڑے ہیں، محتاج بیاں نہیں۔ کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گئے ہیں۔ مہنگائی نے عوام کو جینا دوبھر کر دیا ہے۔ گرمی حبس اور لو کے موسم میں کہیں سے بھی کوئی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا نہ آ رہا۔ گرمی سے ستائے ہوئے عوام بجلی کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ نے جو قہر برپا کیا تھا اسے دیکھ کر مرے پر سو درے کی بات صادق آتی ہے۔ ابھی زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ بجلی صارفین کو ریلیف دینے کی بات ہو رہی تھی مگر۔۔۔۔ کیا کیا جائے کہ حکومت آئی ایم اے کے آگے لیٹ گئی ہے۔ جہاں عوام کی خوشیاں گروی رکھ کر کشکول بھرنے کا چلن عام ہو وہاں اسی سب کی توقع ہوتی ہے۔
آپ کو ذاتی واقعہ سناتا ہوں۔ پچھلے ماہ ایک سو تیس یونٹ کا بل دو ہزار روپے آیا۔ امید تھی کہ جون کے مہینے میں بھی اتنا ہی بل آئے گا مگر۔۔۔ ہوا یہ دو سو دس یونٹ کا دس ہزار بل بھیج دیا گیا۔ یہ بل مئی سے ستمبر تک کے مشترکہ بل سے بھی زیادہ ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہمارے میٹر نے آج تک دو سو کا ہندسہ کبھی عبور نہیں کیا کہ نہ گھر میں اے سی ہے نہ کولر۔۔ کولر ہے بھی تو چلانے کی نوبت کم کم آتی ہے۔ اس بار رات کو چلانے کی غلطی کا ارتکاب کر بیٹھے، سو یہ تو ہونا ہی تھا۔
کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ دو سو سے اوپر یونٹ جائیں تو ایک یونٹ پانچ ہزار کا پڑتا ہے۔ یہ اضافہ کس اصول کے تحت کیا جاتا ہے۔ کوئی بتائے کہ ہم بتلائیں کیا۔ کوئی ہے جو اس کا جواب دے سکے اور جواز پیش کر سکے۔ عوام کا نمائندہ کہلانے والی تجربہ کار حکومت یوں خاموش ہے جیسے اس کے منہ میں زبان ہی نہ ہو۔ کل تک آئی ایم ایف پروگرام کو غلط کہنے والے اسی پروگرام کا کلمہ پڑھتے ہوئے فخریہ بتا رہے ہیں کہ بجٹ آئی ایم ایف کی مرضی کا بنایا گیا اور ان کی ہر شرط تسلیم کر لی گئی ہے۔
فیس بک کر ہر شہری چیخ رہا ہے۔ کئی دل جلے یکم جولائی سے شٹر ڈائون ہڑتال کا اعلان کر رہے ہیں۔ قرائن یہی بتاتے ہیں کہ ہم بارہ آنے کا گلاس ہی توڑیں گے۔ اور سارے لوگ اسی تنخواہ پر کام کرتے دکھائی دیں گے۔
اس ملک کا کوئی ادارہ ایسا نہیں جس کی کارکردگی مثالی ہو۔ جس کا عوام سے جتنا براہ راست تعلق ہے وہ اتنا ہی گرا پڑا اور گیا گزرا ہے ۔
ایک وقت تھا معمولی معمولی باتوں پر سو موٹو ایکشن لے لیا جاتا ہے۔ آج کل تو بڑے سے بڑے ایشو پر سو موٹو تو رہا ایک طرف ’’ سو پتلو ‘‘ ایکشن تک نہیں لیا جاتا
ہمارا المیہ دیکھیں کہ سب سے بڑا جج صاحب بس اسی فکر اور چکر میں ہے کہ کسی طرح انہیں ایکسٹینشن مل جائے ۔ وہ خود پارٹی بنے ہوئے ہیں۔ سارا دن ججوں کا مجمع لگا کر سیاسی ایشوز پر گفتگو فرما رہے ہیں۔ واضح طور پر انصاف کا قتل عام ہو رہا ہے مگر ۔۔۔۔ ’’ سیاسی جماعتوں دی خیر تے سیاسی مقدماں دی خیر ‘‘۔۔۔
ہمیں عدالت سے بھی انصاف کی کوئی امید نہیں ورنہ زنجیر ضرور ہلاتے۔ اب یہی ہو سکتا ہے کہ گرمی برداشت کی جائے اور کوشش کی جائے کہ میٹر کی سوئی دو سو کا ہندسہ عبور نہ کرنے پائے۔ تاکہ بچوں کے منہ سے روٹی کا لقمہ چھین کر واپڈا گردی کی نذر نہ کرنا پڑے۔
تاریخ گواہ ہے کہ ہر بار عوام کو ہی قربانی کا بکرا بننا پڑا ہے۔ اور اس بار بھی ایسا ہی ہو گا۔ اس بار تو حالات پہلے کی نسبت زیادہ زیادہ خراب ہیں۔

جواب دیں

Back to top button