Column

مُچھ نئیں تے کچھ نئیں

سیدہ عنبرین
جنرل ضیاء الحق مرحوم صدر پاکستان تھے اور جناب تالپور وزیر دفاع تھے ان کے چہرے پر دو چیزیں بہت نمایاں تھیں۔ دو بڑی آنکھیں جن سے بے پناہ اعتماد ٹپکتا تھا اور دو بڑی بڑی مونچھیں جن کے کنارے کئی بل کھانے کے بعد اوپر کی طرف مڑے ہوئے تھے۔ اس زمانے میں بھارت کی طرف سے شر انگریزی کے متعدد واقعات ہوئے۔ جنرل ضیاء الحق صاحب نے ایک موقع پر حیرت انگیز جرأت کا مظاہرہ کیا وہ بھارتی حکومت کی مرضی کے خلاف کرکٹ میچ دیکھنے بھارت گئے اور واپسی پر بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کے کان میں ایک ایسی بات کہی جسے سن کر ان کا رنگ اڑ گیا۔ جنرل ضیاء الحق نے کہا جناب وزیراعظم آپ جو کچھ کر رہے ہیں یا کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں وہ سب کچھ سوچتے ہوئے یہ ذہن میں رکھئے گا کہ ہم نے جو پٹاخہ تیار کیا ہے وہ الماری میں سجانے کیلئے نہیں بلکہ چلانے کیلئے بنایا ہے۔ جنرل صاحب اتنا کہہ کر اپنے جہاز میں سوار ہونے کیلئے پلٹ گئے۔ راجیو گاندھی انہیں رخصت کر کے واپس اپنے دفتر پہنچے تو انہوں سب سے پہلے جو حکم جاری وہ یہ تھا کہ فوجیں پاکستان کی سرحدوں سے پیچھے ہٹا لی جائیں، پھر ایسا ہی ہوا اور راجیو گاندھی اپنے بھگوان کے پاس پہنچنے تک ایسے کاموں سے باز رہے۔ پاکستان کے وزیر دفاع جناب تالپور سے صحافیوں نے ایک موقع پر سوال کیا جناب آپ نے اپنے دورہ بھارت میں بھارتی حکومت کو کیا پیغام دیا ہے تو انہوں نے اپنی مونچھوں کو بل دیتے ہوئے اور انہیں مزید اونچا کرتے ہوئے بھرپور مسکراہٹ سے جواب دیا، میں نے انہیں بتا دیا ہے کہ پاکستان کا وزیر دفاع مونچھوں والا ہے اپنی مونچھ نیچے نہیں ہونے دے گا ان کے اس جواب پر تمام صحافیوں نے قہقہہ لگایا جس میں سب سے بلند آواز جناب تالپور کی تھی، آج ہمارے وزیر دفاع جناب خواجہ آصف ہیں جن کی مونچھیں نہیں ہیں۔ جناب تالپور کے زمانے میں بھارت ہم سے ڈرتا تھا اب بھارت تو دور کی بات ہے افغانستان بھی ہمیں دھمکیاں دیتا ہے اور تخریب کاروں کی پشت پناہی کرتا ہے، اب تو ان کے کرکٹر بھی بکواس سے باز نہیں آتے۔
سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو کلپ عرصہ دراز سے موجود ہے جس میں تخریب کاروں کا ایک گروپ مسلح ہو کر اپنے سفر پر روانہ ہو رہا ہے ایک شخص ان سے پوچھتا ہے کدھر جا رہے ہو ان کا سرغنہ جواب دیتا ہے جہاد کیلئے جا رہے ہیں۔ سوال کرنے والا دوبارہ پوچھتا ہے مگر کہاں، وہ کہتا ہے پاکستان جا رہے ہیں پھر وہ مڑ کر کہتا ہے ہم نے امریکہ کو شکست دی ہے اس سے پہلے روس کو ٹکڑے ٹکڑے کیا پاکستان کو بھی جلد فتح کر لیں گے یہ تو چیز ہی کچھ نہیں۔ تخریب کاروں کے مختلف گروپوں کی طرف سے اس قسم کی گفتگو اور ایسے پیغامات ملتے رہتے ہیں، ان کے خلاف نیا شروع کئے جانے والا ’’ آپریشن استحکام‘‘ وقت کی اشد ضرورت ہے۔ تخریب کاروں کیلئے نرم گوشہ رکھنے والے اپنی آنکھیں کھولیں۔
ہم تخریب کاروں سے کیسے نپٹتے ہیں آنے والے ایام یہ واضح کریں گے لیکن یہ طے ہو چکا ہے ان سے کوئی رعایت نہیں ہو گی وہ پاکستانیوں کا بہت خون بہا چکے ہیں اب ان کا خون بہے گا۔
آپریشن استحکام تو سکیورٹی کے ذمہ داروں نے کرنا ہے ان سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اگر ہمارے معزز وزیر دفاع بھی بڑی بڑی مونچھیں رکھ لیں تو ان کے دو فائدے ہونگے ایک تو ہمارے دشمن ہم سے ڈرنے لگیں گے دوسرا خواجہ آصف صاحب حسین نظر آئیں گے وہ دبنگ شخصیت کے مالک اور کھرے انسان ہیں اتنے کھرے کہ اپنے الیکشن کے بارے میں خود ٹی وی انٹرویو میں بتا گئے کہ وہ الیکشن ہار رہے تھے انہیں اطلاع ملی تو انہوں نے جنرل باجوہ کو فون کیا اور انہیں کہا کہ آپ کا چاچا ہار رہے جس پر انہوں نے جواب دیا کہ اچھا میں کچھ کرتا ہوں پھر جب الیکشن کا نتیجہ آیا تو خواجہ صاحب بھاری بھر کم ووٹ لے کر کامیاب قرار دیئے گئے۔ یہ تو ایک مثال ہے ایسی درجنوں مثالی ہیں، کسی الیکشن کمیشن نے اس بات کا کبھی نوٹس نہ لیا کسی نے کبھی ’’ سوموٹو‘‘ نہ لیا وہ خلائی مخلوق کے تعاون سے الیکشن بھی جیتے اور وزیر بھی بنائے گئے، وزارت بھی انہیں دفاع پاکستان کی دی گئی جس کے ماتحت دفاع کرنے کے تمام ذمہ دار آتے ہیں پھر وہ دفاع کرنے والوں کا دفاع کرتے نظر آئے۔
امریکی حکومت کی طرف سے پاکستان کے انتخابات اور ان کے نتائج کی شان میں گستاخی کی گئی ہے جس پر انتخابات کرانے والے اس کا پھل پانے والے تو نہیں بولے لیکن ہمارے وزیر دفاع نے اپنے بیانات کے ذریعے ان کا خوب خوب دفاع کیا ہے۔ خواجہ صاحب کھلے ڈھلے سیاستدان کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ایک ویڈیو کلپ میں وہ دوستوں کے ساتھ نظر آ رہے ہیں ان کے تمام دوست اپنے روایتی لباس میں ہیں یعنی شلوار قمیض اور واسکٹ، جبکہ خواجہ صاحب گول گلے کی گرے رنگ کی ٹی شرٹ کے ساتھ کچھا پہنے کچھ ایسی خوبصورت چال چلتے نظر آ رہے ہیں جسے دیکھ کر کیٹ واک کی ماہر خواتین بھی سوچنے پر مجبور ہو جائیں کہ انہیں تو اس حوالے سے کچھ نہیں آتا، خواجہ صاحب کی آمد دوستوں کی طرف سے دی گئی مینگو پارٹی میں تھی جس کے ایک منظر میں وہ نہایت انہماک سے آم چوس رہے ہیں۔ یہ بہت مشکل کام ہے جسے تجربہ نہ ہو وہ آم کا ستیا ناس مار دیتا ہے، خواجہ صاحب کے انداز سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ وہ دفاع پاکستان کے علاوہ اور بھی کئی مشکل کام نہایت مہارت سے انجام دے سکتے ہیں۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے انہوں نے آم کا ایک ایک قطرہ حلق میں اتارا، اسے زمین پر گر کر ضائع نہیں ہونے دیا، وزیر دفاع مقرر کرتے ہوئے آم چوسنے کا ٹیسٹ ہی معیار ہونا چاہئے جو درست طور آم چوس سکتا ہے وہ سب کچھ کر سکتا ہے، یاد رہے مُچھ نئیں تے کچھ نئیں۔

جواب دیں

Back to top button