CM RizwanColumn

امریکی مداخلت نامنظور

 

سی ایم رضوان
پاکستان گو کہ اس وقت سیاسی ڈیڈ لاک اور سیاست دانوں کی انائوں کے درمیان بیچ منجدھار کے کھڑا ہوا ہے۔ اسے سیاسی ڈیڈ لاک کے ساتھ سیاسی افراتفری، ماحولیاتی تباہی، پھیلتی ہوئی دہشت گردی اور بڑھتے ہوئے معاشی بحران کا سامنا ہے۔ معاشی محاذ پر ملک کو کمر توڑ افراطِ زر، روپے کی قدر میں کمی اور خطرناک حد تک کم ذخائر زرمبادلہ کا سامنا ہے۔ پاکستان کی معاشی بدحالی نے بحران کی وجوہات کے بارے میں ایک کشیدہ بحث کو جنم دیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہ آیا بیرونی شراکت دار ایک بار پھر پیسوں کی تنگی کے شکار پاکستان کو اس بحران سے باہر نکال سکتے ہیں یا نہیں اور کیا وہ اس کو ریسکیو کرنے کے سیاسی فوائد بھی لیں گے۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ پاکستان اپنے بگڑتے ہوئے معاشی بحران سے نمٹنے کے لئے جدوجہد کر رہا ہے، امریکہ اور چین کے مابین مسابقت پاکستان کے لئے ایک پیچیدہ چیلنج رہا ہے، تاہم حالیہ معاشی بحران کا جغرافیائی و سیاسی استعمال اسلام آباد پر اثر انداز ہونے کی ان کی مسابقتی کوششوں کو بڑھاتا ہے۔ جب بیجنگ اور واشنگٹن اس بحران کے لئے ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں تو پاکستان اپنے آپ کو ان کے جغرافیائی سیاسی مسابقت کے شکنجے میں دیکھتا ہے، جس سے بگڑتے ہوئے معاشی بحران کو مزید نقصان پہنچتا ہے۔
پاکستان کے ساتھ کشیدہ تعلقات کے باوجود واشنگٹن اسلام آباد میں بیجنگ کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے چوکنّا ہے۔ اگرچہ پاکستانی اشرافیہ اور عوام چین کے بڑے کردار اور سرمایہ کاری کے بارے میں بظاہر پرامید نظر آتے ہیں لیکن مغربی خدشات پاکستان کو چین اور امریکہ کے درمیان متوازن طرزِ نظر اپنانے میں دقت سے دوچار کئے ہوئے ہیں۔ حال ہی میں امریکی ایوان نمائندگان میں پاکستان کے سیاسی معاملات کے بارے منفی اثرات و نتائج کی حامل قرارداد منظور کئے جانے پر پاکستان نے جس ایبسولوٹلی ناٹ مہم کا اعتماد کے ساتھ آغاز کیا ہے اس کی مثال بھی ماضی میں نہیں ملتی۔ جس انداز سے موجودہ حکومت چین پر اپنا انحصار اور اعتماد امریکہ کے مقابلے میں ظاہر کر چکی ہے اب حالات کسی نئے رخ کا اشارہ دینے لگے ہیں اور یوں محسوس ہو رہا ہے کہ مسائل میں گھرا پاکستان اب گھبرانے کی بجائے ڈٹ جانے کو ترجیح دے رہا ہے۔ ماضی قریب میں اسلام آباد کے دورے کے دوران امریکی محکمہ خارجہ کے قونصلر چولٹ ڈیرک نے پاکستان پر چین کے قرضوں اور ان کے دوطرفہ تعلقات کو لاحق ’’ خطرات ‘‘ پر واشنگٹن کی تشویش کا اظہار کیا تھا۔ جواباََ چین کی وزارت خارجہ نے امریکہ پر ڈھکا چھپا طنز کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک کی معاشی مشکلات کے پیچھے’ مغربی غلبے والے مالیاتی ساہوکاروں‘ اور’ ایک مخصوص ترقی یافتہ ملک‘ کی مالیاتی پالیسیاں ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب پاکستان امریکہ اور چین کے مابین سفارتی تنازعے کی زد میں آیا ہے۔ اس کی مثال یہ بھی ہے کہ گزشتہ سال امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے جب تباہ کن سیلاب کے پیش نظر پاکستان کے لئے چینی قرضوں کی ادائیگی کی تنظیمِ نو کا مطالبہ کیا تھا تو چین کی وزارت خارجہ نے واشنگٹن کو پاک چین تعاون پر ’ غیر ضروری تنقید‘ کے خلاف متنبہ کرتے ہوئے امریکہ پر زور دیا تھا کہ وہ پاکستانی عوام کے لئے کچھ’ حقیقی اور فائدہ مند‘ کام کرے۔ اس سے قبل امریکہ نے پاکستان کو خبردار کیا تھا کہ وہ آئی ایم ایف کا پیسہ چینی قرضوں کی ادائیگی کے لئے استعمال نہ کرے، جس کا بڑا سبب واشنگٹن کی جانب سے سی پیک پر تنقید ہے۔
یہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ ماضی قریب میں چین نے آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیڈ لاک کے دوران پاکستان کو اضافی قرضے دینے کا اعلان کیا تھا اور اسلام آباد میں جاری غیر یقینی سیاسی صورتحال کے باوجود بیجنگ کی جانب سے قرضوں کی تنظیمِ نو پر غور کرنے کا امکان ظاہر نہ کیا گیا۔ تب اس سوال پر کہ کیا چین پاکستان پر جون میں واجب الادا آٹھ ارب ڈالر کا قرضہ رول اوور ( ادائیگی میں تاخیر) کرنے دے گا، جواباََ چینی وزارت خارجہ نے دونوں’ آئرن برادرز‘ کے درمیان کل موسمی تزویراتی اور تعاون پر مبنی شراکت داری کے جملوں کو دہرایا اور قرضوں کی واپسی میں تاخیر کے بارے میں تفصیلات بتانے سے محض اس بنیاد پر احتراز کیا کہ ایک دوست ملک ہونے کے ناطے چین پاکستان پر واجب الادا قرضے کے حوالے سے دبا نہیں ڈال سکتا جبکہ اب صورتحال پہلے سے زیادہ پر اعتماد اور قابل بھروسہ ہے خاص طور پر اس وقت کہ جب امریکہ کھل کر پاکستان میں مداخلت کر رہا ہے اور یہ بھی سامنے آ گیا ہے کہ سی پیک پر حالیہ تیز رفتار پیش رفت نے امریکی دم پر پاں رکھ دیا ہے۔ واضح رہے کہ چین سی پیک بطور اپنے فلیگ شپ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو ( بی آر آئی) منصوبے، کے ذریعے کئی بلین فراہم کر کے پاکستان کا اہم اقتصادی شراکت دار بن گیا ہے۔ اسلام آباد میں جہاں سی پیک کو معاشی گیم چینجر کے طور پر پہچانا جاتا ہے وہیں واشنگٹن نے اس منصوبے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ اس نے پاکستان کے لئے ناقابل برداشت قرضے کا بوجھ چھوڑا ہے۔ اس وقت بھی جیسے جیسے پاکستان کا معاشی بحران شدت اختیار کر رہا ہے، ناقدین، خصوصاََ مغربی دارالحکومتوں میں موجود پی ٹی آئی کے کرایہ پر حاصل کئے گئے ناقدین، پاکستان کے چینی قرضوں کو موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ ٹھیک ہے کہ اسلام آباد کے سو بلین ڈالر کے مجموعی بیرونی قرضوں کا بیس فیصد بیجنگ کا قرضہ ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی تو خوش آئند امر ہے کہ یہ قرض ایک دوست اور اقتصادی شراکت دار ملک کا قرض ہے جس میں مستقبل میں کسی بھی قسم کی رعایت حاصل کی جا سکتی ہے اور علاقائی اور خطے کی ترقی کے عمل میں اشتراک کے ثمرات حاصل کر کے بیرونی اور مخالفانہ مداخلت کو روکا جا سکتا ہے۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ اگرچہ پاکستان کا معاشی بحران براہ راست چین کا کام نہیں ہے، کیونکہ غیر ملکی زرمبادلہ پیدا کیے بغیر، چینی منصوبوں کے ارد گرد بڑھتے ہوئے قرضوں نے ملک کی معاشی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ سی پیک کے آغاز کے تقریباََ ایک دہائی بعد بھی، پاکستان کو شدید معاشی بحران کا سامنا تھا مگر یہ سب کچھ اس دور حکومت میں سامنے آیا جس حکومت کا مقصد امریکی مفادات کا حصول تھا اور سی پیک کے خلاف اقدامات اور پروپیگنڈے کو روز بروز بڑھانا اور بالآخر اسے ختم کرنا تھا۔ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ پاکستان کی معاشی بدحالی کے پیچھے چین کا عامل ایک حقیقت ہے یا نہیں، اس حوالے سے داخلی سطح پر ایک بحث چلتی رہتی ہے۔ ملیحہ لودھی، جو دو بار امریکہ میں پاکستان کی سفیر رہ چکی ہیں، کا کہنا ہے کہ ملک کے بہت سے مسائل ان کے اپنے پیدا کردہ ہیں، کیونکہ مراعات یافتہ اشرافیہ نے عوامی مفاد کو نظر انداز کیا اور ملک کو تباہی کے دہانے پر دھکیل دیا ہے۔ پاکستان کے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بھی بحران کے لئے چین یا آئی ایم ایف کو موردِ الزام ٹھہرانے کے خیال کو مسترد کردیا تھا اور داخلی ڈھانچہ جاتی اصلاحات کا مطالبہ کیا تھا۔ اب بھی صورت حال تقریباً وہی ہے جو متذکرہ بالا شخصیات نے کی ہے جبکہ موجودہ حکومتی قیادت اس ساری صورتحال کے تدارک کے لئے پرعزم ہے اور اس عزم میں وہ کافی حد تک سنجیدہ اور مخلص بھی نظر آ رہی ہے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران سی پیک پر پیش رفت سست روی کا شکار رہی ہے جبکہ امریکہ کے ساتھ تعلقات جو پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت میں سرد مہری کا شکار ہو گئے تھے، موجودہ مفاد پرستی کے ماحول کے باوجود کثیر الوقوع دو طرفہ تعاملیت کے باعث ان میں تیزی آئی ہے اور مکالمے اور باہم گفتگو کا معاون ماحول اور گنجائش موجود ہے گزشتہ سال جون میں جیسا کہ موجودہ معاشی بحران میں بھی ہوا ہے، چین کی جانب سے اضافی مالی امداد فراہم کرنے سے انکار کے بعد پاکستان نے آئی ایم ایف سے بیل آٹ پیکج کے لئے واشنگٹن کی مدد طلب کی تھی۔
اگرچہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کو عام طور پر افغانستان میں سکیورٹی کنورجنس ( سلامتی کے لئے ایکا) کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے لیکن واشنگٹن اب بھی پاکستان کا بنیادی تجارتی شراکت دار ہے۔ مارچ 2022ء میں بھی دونوں ممالک نے دوطرفہ اقتصادی تعاون کو وسعت دینے کے لئے تجارت اور سرمایہ کاری فریم ورک معاہدے ( ٹی آئی ایف اے) کا دوبارہ آغاز کیا تھا۔
حالیہ برسوں میں چین کے پاکستان میں سب سے زیادہ فعال سرمایہ کار بننے کے باوجود، امریکہ 2بلین ڈالر سے زائد کے تجارتی سرپلس ( برآمدات کا درآمدات سے زیادہ ہونا) کے ساتھ پاکستان کا سب سے بڑا برآمدی مقام ہے۔ تاہم چینی سرمایہ کاری پر تنقید کے باوجود، واشنگٹن پاکستان میں نجی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنے یا چینی انفرا سٹرکچر کی ترقی کا متبادل پیش کرنے میں پیچھے رہ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اپنے مفاد کی بناء پر چین کے ساتھ معاہدات اور تعلقات کو امریکہ سے زیادہ ترجیح دینا ہے اور اس کا حق بھی ہے۔ یہاں دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی جنگ میں شراکت داری پر پاکستان کو ملنے والے 120بلین ڈالر سے زیادہ کے ناسازگار اخراجات کا ذکر بھی ضروری ہے جو کہ پاکستان کی معیشت پر واشنگٹن کے کردار کے بارے میں بحث پر غالب ہے۔ انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں کے براہ راست مالی اخراجات کے علاوہ، اس سے پیدا ہونے والے غیر سازگار کاروباری ماحول کا ذکر بھی ضروری ہے اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری ( ایف ڈی آئی) کے رک جانے اور پاکستان میں معاشی سرگرمیوں کے سست ہو جانے کا ذکر بھی ناجائز یا محض مخالفت برائے مخالفت نہیں حقیقت کا آئینہ دار ہے۔ یہ بھی تسلیم شدہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بطور فرنٹ لائن ریاست کے پاکستان کے کردار کی وجہ سے سی پیک کے تحت اہم اقتصادی منصوبوں کو دشمن گروہوں کی جانب سے شدید نقصان بھی پہنچا اور ہمیشہ سے سکیورٹی خطرات لاحق رہے ہیں اور اب بھی ہیں۔ چین پاکستان کا سب سے مفید اقتصادی شراکت دار اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کا سب سے بڑا ذریعہ ہے جبکہ افغانستان میں امریکہ کے زیرِ قیادت دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے عدم استحکام نے پاکستان کی معیشت کو تباہ کر دیا ہے۔ اب موجودہ امریکی مداخلت کو قبول نہ کرنا ہی پاکستان کے مفاد میں ہے۔

جواب دیں

Back to top button