عدم استحکام سے عزم استحکام تک

عبد الحنان راجہ
امریکہ کی طرف سے انسانی حقوق اور جمہوری اقدار کی پاسداری کی بات ایسے ہی ہے جیسے ہمارے ہاں حکمرانوں کی طرف سے آئین قانون کی بالادستی اور بدعنوانی سے پاک معاشرے کا دعویٰ۔ امریکہ انسانی حقوق کا داعی وہ واحد ملک ہے کہ جس نے انسانوں پر ہر قسم کے ہتھیاروں کے کامیاب تجربات کر رکھے ہیں۔ ایٹم بم سے لیکر کیمیائی گیسسز اور اب تک لاکھوں انسان بشمول بچے اور عورتیں اس کی انسان دوستی کی نذر ہو چکے ہیں۔ جاپان سے ویت نام تک عراق اور افغانستان سے شام تک انسانی لاشے اور تباہ حال ممالک اس انسانی دوستی کی منہ بولتی مثالیں ہیں۔ رہی بات جمہوری اقدار کی حفاظت کی تو اس میں بھی وہ یکتا کہ مختلف اوقات میں ممالک میں منتخب حکومتیں گرانا اور انکی جگہ پٹھو حکمران بٹھانا، یہ جمہوریت کی خاطر ڈکٹیٹر شپ بھی قبول کر لیتا اور بادشاہت کو بھی۔ انسانی حقوق اور جمہوری روایات کے فروغ میں اس کا تجربہ اتنا ہے کہ اب وہ دوسرے ممالک کو اس کی تبلیغ کر سکتا ہے۔ امریکہ کی انہی صلاحیتوں کے پیش نظر ابلیس نے بھی اپنے خارجہ امور اس کے ذمہ کر رکھے ہیں، کہ دنیا بھر بالخصوص مسلم ممالک میں فساد بپا یا اس کے اسباب کرنا، دنیا بھر کے دہشت گردی و انتہا پسندوں کی بلا یا بالواسطہ سرپرستی، مخالف بلاک کی منتخب حکومتوں کو گرانا اور اپنے وفاداریوں کو مقتدر کرنا، عالمی مالیاتی اداروں کے ذریعے تیسری دنیا کے ممالک کو سودی نظام کے چنگل اور قرضوں کی دلدل میں پھنسا کر انہیں معاشی طور پر محکوم رکھنا، اقوام متحدہ کے ذریعے غیرت و حمیت دکھانے والی اقوام پر پابندیوں کے ذریعے عرصہ حیات تنگ کرنا، عرب ممالک کو قابو میں رکھنے کے لیے اسرائیل جیسی ناجائز ریاست کی سرپرستی جیسے معاملات، اور گاہے بگاہے آزادی اظہار رائے کے نام پر اسلامی شعائر کے خلاف مذموم مہم چلوا کر عالمی امن کو خراب کرنے کی شعوری کوشش کہ پھر اس کی آڑ میں مسلمانوں کو انتہا پسند قرار دینے کی راہ ہموار ہو سکے، سوشل میڈیا کے ذریعے ڈیجیٹل دہشت گردی کا فروغ بھی اسی کی ذمہ داریوں میں شامل۔ حالیہ قرارداد کی منظوری ایک گہری سازش ہی کہی جا سکتی ہے اور اگر ہمارے سیاستدانوں نے اس چال اور جال کو نہ سمجھا تو پاکستان مشکلات کی نئی دلدل میں پھنس سکتا ہے۔ حیرت یہ کہ انتخابی دھاندلیوں پر 12فروری کو میتھیو ملن نے اس وقت جو رد عمل دیا اب قرارداد اس کے بالکل برعکس۔ ظاہر ہے امریکی قرارداد کو انتخابی عذرداریوں یا انسانی حقوق کے تناظر میں تو نہیں دیکھا جا سکتا بلکہ اس کے مقاصد کچھ اور ہی ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ چونکہ امریکہ کو چین کے ساتھ ہمارے تعلقات ہضم نہیں ہوتے اور اب جبکہ سی پیک منصوبہ پر کام دوبارہ تیز اور چینی وزیر کی پذیرائی کہ اس بیٹھک میں تمام سیاسی جماعتوں کی شمولیت اور سی پیک منصوبہ پر قومی اتفاق رائے نے امریکہ کو قرارداد لانے پر مجبور ہو اور میری دانست میں آرمی چیف کا چین کے دورہ میں فعال کردار اور چین کے پالیسی اور فیصلہ سازوں کے ساتھ اعتماد کی بحالی ( جو شاید وزیر اعظم کے بس میں نہ تھا) نے بھی امریکی انتظامیہ کو مشعل کیا۔ ان حالات میں پی ٹی آئی جو ایک بڑی سیاسی جماعت ہے پر ذمہ داری ان پڑی ہے کہ وہ ہمارے اندرونی معاملات میں امریکی مداخلت کو مسترد کر دے کہ کپتان کا مزاج بھی اپنے معاملات میں بیرونی مداخلت کو قبول نہیں کرتا۔ انتخابی دھاندلی سمیت دیگر معاملات حکومت اور اپوزیشن کو اپنے تئیں ہی حل کر کے اس سازش کا راستہ روکنا ہو گا۔ بات اگر انتخابی شفافیت کی ہو تو امریکہ کے گزشتہ دونوں انتخابات کتنے شفاف رہے۔ سب جانتے ہیں جبکہ پاکستان کے انتخابی نتائج تو 70ء کی دہائی سے ایسے ہی چلے آ رہے ہیں۔ اس وقت سے لیکر اب تک پوری دنیا انہیں تسلیم کرتی چلی آ رہی ہے، بلکہ تین بار مارشل لا کو بھی وسیع تر مفاد میں قبول کیا گیا، مگر اب شاید امریکی کوئی نیا کھیل رچانا چاہ رہے ہیں کہ سازشوں سے فراغت اس کی سرشت میں ہی نہیں اور وہ بھی اسلامی ممالک اور بالخصوص مسلم دنیا کی واحد ایٹمی قوت کے خلاف، ممالک کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے اس کے متعدد حربے ہیں کبھی وہ براہ راست حملہ کر کے تو کہیں اقتصادی اور کبھی اخلاقی تباہی کا فارمولا آزماتا ہے۔ پاکستان اس کے دوسرے اور تیسرے جال میں بری طرح جکڑا ہوا ہے جبکہ مسلم دنیا پر وہ بالعموم تینوں حربے کامیابی کے ساتھ آزما رہا ہے۔ اس کے باوجود امت مسلمہ نے سنبھلنا تھا اور نہ سنبھلی۔ اس پر مستزاد یہ کہ زیادہ تر اسلامی ممالک کی قیادتیں یا تو نااہل اور کچھ بدعنوان، سو ان کی نااہلیوں کا ملبہ بھی شیطان بزرگ پر ڈالنا مناسب نہیں کہ معاشرتی و اقتصادی عدم استحکام میں ہم بھی اپنا پورا حصہ ڈال رہے ہیں۔ انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اسلام کے نام پر حاصل ہونے والے اس ملک میں دنیا بھر کی برائیوں مجتمع، ان اخلاقی رزائل کے ساتھ ترقی اور عروج کیونکر ممکن ہے ؟ سو ایسے معاشروں کے حکمران بھی قومی وقار وغیرہ کے جھنجھٹ میں پڑھے بغیر اقتدار کے دن پورے کرنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔ امریکہ کی یہ خوش قسمتی رہی کہ اسے ہر دور میں بعض لسانی، مذہبی اور سیاسی لیڈران دستیاب جو یہاں اس کے مفادات کے محافظ۔ ان معروضی حالات کے باوجود امریکہ سے تعلقات مجبوری. مگر ایک مشکل یہ بھی ہے کہ پاکستان امریکہ اور چین کی سرد جنگ میں سینڈوچ بن چکا ہے. چین کو چھوڑا نہیں جا سکتا اور امریکہ کی مخالفت مول لینے کا خطرہ ہم برداشت کرنے کے قابل نہیں، تو اس کو بہترین سفارت کاری سے ہی حل کیا جا سکتا ہے مگر ہر دور میں وزیر خارجہ اور سفیر جیسے اہم ترین عہدے قابلیت، اہلیت، امور خارجہ میں مہارت، فہم و فراست کی بجائے سیاسی و ذاتی تعلقات پر دئیے جاتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک امریکہ سے پاکستان کے تعلقات کبھی معتدل یا مثالی نہ رہے۔ موجودہ حالات میں کہ جب ہم امریکی مخالفت مول لینے کی پوزیشن میں بھی نہیں اور اندرونی طور پر ہمیں نہ صرف معاشی چیلنجز بلکہ دہشت گردی بلکہ مذہبی و سیاسی انتہا پسندی کا بھی سامنا ہے قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت مگر لگتا یوں ہے کہ سیاسی جماعتیں ان سب خطرات سے بے نیاز اپنے مفادات کی اسیر۔ یہ چلے ہوئے کارتوس ہیں ہوس اقتدار کے تابع اور موقع کی مناسبت سے رنگ بھی بدلتے ہیں، بیان اور نظریات بھی۔





