Columnمحمد مبشر انوار

حج 1445ھ

 

محمد مبشر انوار( ریاض)
ان دو دہائیوں میں سعودی حکومت نے حرمین شریفین کے توسیعی منصوبوں پر اپنی توجہ مرکوز رکھی تا کہ مستقبل میں عازمین حج کے لئے بہترین سہولیات مہیا کی جا سکیں اور اس کے ساتھ ساتھ مسلسل انتظامات میں بہتری بھی جاری رکھی۔اس مشق کے نتیجہ میں سعودی حکومت نے جو انتظامات عازمین حج کے لئے کئے،اسی کے مطابق زائرین کو حج کی اجازت مشروط رکھی تا کہ ناگہانی حادثات سے بچا جا سکے اور عازمین حج کی جان و مال کی حفاظت بہتر طریقے سے ممکن بنائی جا سکے۔ سعودی حکومت کی کاوشوں کو سراہنے کی بجائے،تنگ ذہنوں نے ہمیشہ اس پر تنقید کو اپنا وتیرہ بنا رکھا ہے حتی کہ کورونا کے ہنگام جب پاکستان میں ویکسینیشن کی فیس وصول کی جا رہی تھی،سعودی حکومت نے بلا امتیاز ہر شہری اور تارکین وطن کو اس کی فراہمی یقینی بنائی،حتی کہ ایسے تارکین وطن جن کی حیثیت بوجوہ غیر قانونی تھی،مرادجن کے اقامے موثر/درست نہیں تھے،انہیں بھی ویکسینیشن سے محروم نہیں رکھا گیا تھا پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ضیوف الرحمٰن کے معاملے میں سعودی حکومت کسی کوتاہی کی مرتکب ہو؟ضیوف الرحمٰن کی خدمت تو سعودی حکومت کی پہچان رکھتی ہے اور کم ازکم ربع صدی یہاں سکونت اختیار کرنے کے بعد، قطعا یہ نہیں کہہ سکتا اور نہ تسلیم کر سکتا ہوں کہ سعودی حکومت نے اپنے فرائض میں کہیں کوتاہی برتی ہے البتہ یہاں کے قوانین کی پاسداری نہ کرنے والوں کے لئے اتنا ضرور کہوں گا کہ جب آپ کسی بھی دوسرے ملک میں ہوں تو وہاں کے قوانین کی پاسداری آپ پر لازم ہے ،اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اپنے ملکی قوانین پر عملدرآمد کرنا صوابدیدی ہے، انسان جہاں بھی رہے،وہاں کے قوانین پر عمل کرے تو ہی معاشرہ بہتر ہو سکتا ہے۔اس کا حوالہ اس لئے دیا ہے کہ بیشمار ایسے پاکستانی ،جو عرصہ دراز سے یورپ و امریکہ و برطانیہ وغیرہ میں رہائش/شہریت رکھتے ہیں، وہ ان ممالک کا موازنہ سعودی عرب سے کرتے ہوئے،وہاں کی سہولتوں کا ذکر بڑی رسانی سے کرتے ہیں، بالخصوص ایک مخصوص عرصہ گزارنے کے بعد وہاں کی شہریت مل جانے پر، سعودی عرب یا مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک پر تنقید کرنا فرض اولین سمجھتے ہیں۔جبکہ بنیادی حقیقت سے صرف نظر کرتے ہوئے،یہ بھول جاتے ہیں کہ مغربی و ترقی یافتہ ممالک کے قوانین میں سے ایک قانون یہ بھی ہے کہ وہ وہاں ایک مخصوص مدت تک رہنے کے بعد،شہریت دے دی جاتی ہے جبکہ سعودی عرب و دیگر مشرق وسطی کے ممالک میں یہ قانون بالعموم موجود نہیں تاہم مستثنیات کے ساتھ کئی ایک ( سیکڑوں /ہزاروں) کو سعودی شہریت بھی دی گئی ہے جبکہ نئے قوانین کے مطابق بھی غیر ملکیوں کے لئے شہریت کے دروازے کھولے گئے ہیں بشرطیکہ وہ ان شرائط پر پورا اترتے ہوں،جوشرائط ان قوانین میں دی گئی ہیں۔ شہریت کے حوالے سے یہ برسبیل تذکرہ ہو گیا،واپس حج کے موضوع پر آتا ہوں کہ سعودی حکومت ہر سال ،ماسوائے کورونا کے ہنگام،تقریبا دو سے تین ملین عازمین حج کے انتظامات کرتی ہے ،جو دن بدن بہتر ہورہے ہیں،عازمین کے لئے مناسب قیام کی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں،موسم کی مناسبت سے تمام احتیاطی تدابیر کی مسلسل تشہیر کی جاتی ہے،امن عامہ کے لئے افرادی قوت یہاں موجود رہتی ہے۔علاوہ ازیں!سعودی عرب کی جانب سے رضاکاروں کی بڑی تعداد حج کے دوران ،ضیوف الرحمٰن کی خدمت کرتی دکھائی دیتی ہے،جو صدق دل سے ضیوف الرحمٰن کی رہنمائی و جذبہ خدمت سے سرشار ،دن رات مصروف عمل رہتے ہیں،اس کے باوجود زائرین کی اتنی بڑی تعداد کی تمام تر خدمات سرانجام دینا ممکن نہیں ہوتا۔
یہاں پاکستان حج رضاکار گروپ کا ذکر بھی برمحل ہے کہ گزشتہ تقریبا دس/بارہ برسوں سے ،برادرم ابرار تنولی و دیگر کی کاوشوں سے ،ایک چھوٹی سی جماعت سے شروع ہونے والا یہ کارواں اب پھیل چکا ہے اور ان کی تعداد ہزاروں تک جا پہنچی ہے تاہم سفارت خانہ پاکستان اور حج مشن کے تعاون سے ،جتنے رضاکاروں کی منظوری سعودی حکومت سے ملتی ہے،وہ رضاکار دوران حج آپ کو حجاج کی خدمت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔پاکستان حج رضا کار گروپ کی لگن اور کارکردگی کو دیکھتے ہوئے ،گزشتہ چند برسوں میں سعودی وزارت حج نے ان رضاکاروں کی خدمات لینا شروع کر دی ہیں،جو سعودی عرب میں اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ ہے کہ اولا تو یہاں ایسی کسی تنظیم کو یوں کام کرنے کی اجازت نہیں کجا سعودی وزارت حج،خود ان کی خدمات سے مستفید ہو،یہ امر بذات خودان رضاکاروں کی نیک نیتی اور ضیوف الرحمٰن کے جذبہ خدمت کا اعتراف ہے۔ ایسی خدمات ،کارکردگی ہی پاکستانیوں کے لئے قابل فخر ہے اور یہی ہمیں زیب دیتی ہے کہ ’’ ڈنگ ٹپائو‘‘ پالیسیوں کی بجائے عملا میدان کارزار میں اتر کر ایسی خدمت کی جائے کہ میزبان ملک بھی اس پر نہ صرف فخر کرے بلکہ اس سے استفادہ بھی کرے۔ ڈنگ ٹپائو پالیسی کا مطلب کیا ہے اور اس کا یہاں اظہار کیوں کیا گیا ہے،اسے ایک مثال سے واضح کرتا ہوں کہ حجاج کرام کے ساتھ پاکستان سے خدامین اور طبی عملہ بھی دوران حج یہاں آتا ہے،جن کا کام حجاج کرام کی خدمت کرنا ہے لیکن صد افسوس کہ حج مشن کے ساتھ آنے والا عملہ تقریبا صد فیصد اپنے بنیادی فرائض سے پہلو تہی کرتے ہوئے،خود حج ادا کرنے میں مصروف عمل ہوتا ہے۔ان خدام حجاج کی بنیادی ڈیوٹی ،حاجیوں کے لئے خدمات مہیا کرنا ہے،ان کے قیام و طعام و ٹرانسپورٹ کو بخیر و خوبی یقینی بنانا، بیماروں کے لئے ڈاکٹرز کا طبی کیمپ میں موجود ہونا،ضعیف حاجیوں کے لئے وہیل چیئر کا انتظام کرنا،کھو جانے والے حاجیوں کو تلاش کرنا،ان کی رہنمائی کرناجیسے فرائض شامل ہیں،لیکن ان خدام کی ترجیح،ان کا اپنا حج ہوتا ہے جبکہ حاجی اس اژدھام میں کہیں دربدر ہو رہے ہوتے ہیں۔
بہرکیف سعودی حکومت کی جاری کردہ تصریح کے بغیر اس مرتبہ حج سے قبل ہی سخت کریک ڈاؤن شروع ہو گیا تھا اور مکہ میں ،عمرہ ویزا پر،مقیم غیر ملکیوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہو گئی تھی۔ ڈاکٹر سمیرہ عزیز،ایک سعودی جرنلسٹ نے اپنے وی لاگ میں رپورٹ کرتے ہوئے کہا کہ تقریبا تین/چار لاکھ غیر قانونی ارادہ حج رکھنے والوں کو سعودی حکومت نے حج شروع ہونے سے ،مکہ کے ہوٹلوں سے قبل گرفتار کیا تھا،تاہم یہ یقینی نہیں کہ اس کے باوجود سارے غیر قانونی حجاج کو مناسک حج سے قبل الگ کر لیا گیا تھا۔گرقتار ہونے والوں کی اکثریت کا تعلق عرب ممالک سے ہی تھا، تاہم دیگر ممالک کے افراد بھی اس میں شامل رہے ہیں جو کسی نہ کسی طور حج میں شامل ہونے میں کامیاب بھی ہوگئے ہیں۔ ایسے حاجیوں کے لئے اتنی گرمی میں یقینی طور پر ،کہیں کوئی خیمہ میسر نہیں تھا کہ نہ ان کے پاس تصریح تھی اور نہ ہی ان حاجیوں کا ریکارڈ وزارت حج یا منظور شدہ معلمین کے پاس تھا،لہذا ایسے حاجیوں کے لئے مناسک حج کے دوران مشکلات کا ہونا ایک لازمی امر تھا۔کیا اس کا قصوروار سعودی حکومت کو ٹھہرایا جا سکتا ہے؟یوں گزشتہ کئی سالوں کے بعد دوران حج اموات کی شرح نسبتا زیادہ رہی،گو کہ سعودی حکومت کی جانب سے موسم کی سختی کو مدنظر رکھتے ہوئے کئی ایک نئے اقدامات کئے گئے،جو بلا تخصیص ہر حاجی کے لئے موجود تھے، جیسا کہ سڑکوں پر سفید رنگ کا کیا جانا تا کہ سخت لو کا اثر کم ہو سکے،جابجا پانی کے فواروں کا انتظام کہ راہ چلتے ہوئے حاجیوں پر مسلسل پانی کی پھوار پڑتی رہے ،رضاکاروں کی ٹولیاں جو جگہ جگہ ٹھنڈے پانی کی بوتلیں اور پانی کے شاور کی بوتلیں لئے حاجیوں کی خدمت میں مصروف رہی۔علاوہ ازیں!حاجیوں کو مسلسل مطلع کیا جاتا رہا کہ ماسوائے اشدضرورت ،دن گیارہ بجے سے چار بجے تک اپنے خیموں سے باہر مت نکلیں،جبکہ عملہ اس دوران بھی حاجیوں کی خدمت میں سخت موسم میں مصروف عمل رہا۔ ان تمام تر اقدامات کے باوجود منی سے کئی ایک غیر مصدقہ ویڈیو کلپس کی بھرمار ہوئی، جس کے بیک گرائونڈ میں اردو زبان میں حقیقت حال بتائی جارہی تھی،ضعیف العمر حجاج،اس سخت گرمی کا مقابلہ نہ کر سکنے کے باعث جان کی بازی ہار گئے اور ہمارے پاکستانی حجاج نے اس موقع کی ویڈیوز بناتے ہوئے،سعودی حکوت کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔بقول ڈاکٹر سمیرہ عزیز کہ ایک ویڈیو کلپ میں،جہاں ریکارڈ کرنے والا،ایمبولینس نہ پہنچنے کی رپورٹ کر رہا ہے،وہیں پیچھے ایمبولینس بھی دکھائی دے رہی ہے،لیکن کیا کیا جائے،سستی شہرت کا حصول کہیں یا مسلکی نفرت کہیں یا غیر ذمہ داری کی انتہا؟علازہ ازیں!سعودی حکومت نے طبی سہولتیں فراہم کرتے ہوئے 93اینڈو سکوپی،532 سرجریز،498اوپن ہارٹ سرجریز اور 1491ڈائلاسز حجاج کو بلامعاوضہ فراہم کی ہیں۔ آپ حج کے لئے تشریف لائے ہیں،اپنے حج پر توجہ مرکوز کریں اور دیگر افراد کو ان کا کام کرنے دیں،صحافت آپ کا پیشہ نہیں،اس کے اسرارورموز سے آپ کو واقفیت نہیں،ایسی ویڈیوز پھیلانے سے ،آپ اپنے ہی بھائیوں کے لئے مشکلات پیدا کر رہے ہیں،اپنے ہی ملک ،جو پہلے ہی پہاڑ ایسے مسائل کے گرداب میں ڈوبا ہوا،اس کے لئے مزید مشکلات پیدا کررہے ہیں۔ مجھے یہ بھی علم ہے کہ میری اس تحریر پر کئی ایک احباب مجھے کاسہ لیسی،قصیدہ گوئی جیسے القاب سے نوازیں گے لیکن خدا شاہد ہے کہ یہاں رہتے ہوئے بھی اور پاکستان میں بھی قوانین کا احترام کیا ہے،خواہ یہاں کے جدید قوانین سے روزگار پر شدید ضرب پڑی ہے مگر قوانین کے مطابق زندگی گزاری ہے اور حقائق کو سپرد قلم کیا ہے۔بہرکیف حج1445کے انتظامات پر سعودی حکومت مبارکباد کی مستحق ہے اور دعا ہے کہ اسی طرح عازمین کی خدمت میں مشغول رہے۔آمین

جواب دیں

Back to top button