تقدیر تدبیر پر ہنستی ہے

علیبشا بگٹی
ایک بادشاہ فوت ہو گیا۔ اُس کی وفات کے بعد اُس کا بڑا بیٹا فوراً تخت پر قابض ہوگیا۔ بادشاہ کا دوسرا بیٹا بڑے بھائی سے خوفزدہ تھا۔ اُس نے ملک چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔
بادشاہ کا بیٹا اپنے تین دوستوں کے ساتھ بیرون ملک روانہ ہو گیا۔ ان دوستوں میں سے ایک تاجر کا بیٹا، دوسرا کسان کا بیٹا ، تیسرا ایک بہت خوبصورت نوجوان تھا۔
راستے میں بہتر مستقبل کے بارے میں سب دوست اپنی اپنی رائے پیش کرنے لگے۔ سب سے پہلے کسان کا بیٹا کہنے لگا۔ ’’ محنت سے انسان سب کچھ بنتا ہے۔ باقی سب باتیں بیکار ہیں‘‘۔۔۔ تاجر کے بیٹے نے ان الفاظ میں اپنی رائے کا اظہار کیا ’’ عقل اور تدبیر سب سے بڑا ہتھیار ہے یہ نہ ہو تو انسان نا کام ہے‘‘۔ اب خوبصورت نوجوان کی باری تھی نوجوان گویا ہوا ’’ حسن و جمال سب سے بڑی نعمت ہے‘‘۔ بادشاہ کا بیٹا اللہ کی ذات پر بھروسہ کرنے والا نہایت تدبر تفکر کرنے والا انسان تھا۔ سب کی باتیں غور سے سننے کے بعد کہنے لگا ۔ سب اپنی جگہ درست ہیں۔ مگر ’’ سب سے بڑی چیز اللہ کی رضا اور قدر ہے اس کی ذات کا فیصلہ ہی ہر چیز پر غالب ہے۔ جب تک ہمارا عقیدہ تقدیر پر مکمل نہ ہو اُس وقت تک راحت سکون حاصل نہیں ہو سکتا‘‘۔
کسان کا بیٹا کہنے لگا ’’ ہمارے پاس کھانے پینے کے لئے کچھ نہیں اب پتہ چلے گا کس کی بات ٹھیک ہے۔ سب اپنی رائے آزماتے ہیں‘‘، یہ لوگ چلتے چلتے دوسرے ملک میں داخل ہوئے۔ یہ لوگ اس شہر میں اجنبی تھے ۔ انہوں نے ایک صحرا میں پڑائو ڈالا۔
پہلے دن انہوں نے کسان کے بیٹے کو کہا آج ہم دیکھیں گے۔ ’’ محنت کے کیا فائدے ہیں‘‘۔ جائو اپنی محنت سے آج کے کھانے کا انتظام کرو۔ کسان کا بیٹا اٹھا اور جنگل کا رخ کیا۔ لکڑیاں توڑیں اور شہر میں آ کر دو درہم کی بیچ دیں۔ ایک درہم کا کھانا لیا دوسرا درہم اپنے پاس محفوظ کر لیا۔ ساتھیوں کے پاس آکر انہیں بھی کھلایا۔ سب نے اس کو شاباش دی۔
اگلے دن تاجر کے بیٹے کا نمبر تھا کہ وہ ’’ عقل اور حسن تدبیر کا مظاہرہ کرے‘‘۔ وہ اٹھا اور ساحل سمندر پر آیا. سمندر میں سامان سے لدی کشتی ساحل کی طرف آ رہی تھی۔ تاجر کا بیٹا کشتی میں بیٹھ گیا۔ دوسرے راستے سے چپکے سے لدی کشتی کے مالک کے پاس پہنچا۔ اس سے سامان کا بھائو تائو کیا۔ ادھار پر سارا سامان سو درہم میں خرید لیا ۔ جب کشتی ساحل پر پہنچی۔ تو مقامی تاجر انتظار میں تھے۔ تاجر کا بیٹا ان کے پاس آیا سارا سامان 200درہم کے عوض بیچ دیا۔ 100درہم سامان کے مالک کو دیئے اور باقی جیب میں ڈالے۔ دوستوں کے لیے بہترین کھانا لیا ان کو خوب سیر کرائی سب نے اس کے عقل اور تدبیر کی تعریف کی۔
اگلے دن خوبصورت نوجوان کا نمبر تھا۔ جس کا کہنا تھا’’ انسان خوبصورتی کے بل بوتے کامیابی حاصل کرتا ہے‘‘۔ دوستوں نے کہا آج ہم دیکھیں گے کہ آپ کا حسن ہم کو کیسے کھانا کھلائے گا ؟ وہ اٹھا میک اپ کیا شہر کی طرف روانہ ہوا اور ایک گھر کے باہر درخت کے نیچے بیٹھ گیا، اوپر سے ایک خاتون نے کھڑکی سے جھانکا، دیکھا ایک خوبصورت اجنبی نوجوان پریشان بیٹھا ہے۔ اس نے بلا کر وجہ پوچھی کھانا کھلایا کہ مسافر ہے۔ پریشانی کی وجہ پوچھی تو اس نے دوستوں کا قصہ سنایا۔ خاتون نے نوجوان کو کچھ رقم تھما دی۔ وہ نوجوان سب کے لئے کھانا لے آیا۔ سب نے اس کو بھی سراہا۔
اب بادشاہ کے بیٹے کی باری تھی۔ جو کہتا ہے کہ ’’ اللہ کی رضا اور تقدیر ہر چیز پر غالب ہے‘‘، یہ کیا کرکی دکھائے گا ؟ اب شہزادہ اللہ کا نام لیتا ہوا شہر میں داخل ہوا اور راستے کے کنارے جا بیٹھا، وہاں سے اسی ملک کے بادشاہ کا جنازہ لے جایا جا رہا تھا۔ وزرا، فوج، پولیس جنازہ کو کندھا دیئے جا رہے تھے۔ شہزادہ کو راستے میں بیٹھا دیکھ کر پولیس آفیسر نے اس کو ڈانٹا۔ شرم نہیں آتی بادشاہ کا جنازہ جا رہا ہے اور تم اس طرح بیٹھے ہو۔ بادشاہ کو دفنانے کے بعد جب پولیس افسر واپس آئے تو دیکھا شہزادہ اب بھی وہیں بیٹھا ہے۔ تو فورا اس کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا۔ اب دوست انتظار کر رہے تھے اور اُس کے واپس نہ آنے کی وجہ سے قیاس آرایاں کرنے لگے۔ وہ شہزادے کو ڈھونڈنے شہر کی طرف چل پڑے ۔ لیکن شہزادہ جیل میں بند تھا۔ وہ تلاش نہ کر سکے۔ تو اگلے دن پر موخر کر دیا۔ ادھر کابینہ کے وزرا، مشیر جمع تھے، نئے بادشاہ کے انتخاب کے لئے غور و فکر کر رہے تھے کہ نیا بادشاہ بادشاہوں کے خاندان سے منتخب کیا جائے۔ عام آدمی منتخب نہ کیا جائے مگر بادشاہ کا کوئی وارث نہیں تھا۔ سینئر وزیر نے اعلان کرایا کہ تم میں سے کوئی ہے جو بادشاہوں کے خاندان سے تعلق رکھتا ہو۔ وہ ہاتھ کھڑا کر دیں۔ مگر کابینہ میں کوئی ایسا بندہ نہ تھا پھر پولیس افسر کہنے لگا کہ ایک بندہ ہے جس کو میں نے قید کیا ہے وہ شہزادہ معلوم ہوتا ہے۔ اس کو حاضر کرنے کا حکم ہوا۔ شہزادے کو کابینہ کے سامنے لایا گیا اور پوچھا آپ کون ہو؟ اور یہاں کس غرض سے آئے ہو۔ شہزادہ بولا میں فلاں ملک کے بادشاہ کا بیٹا ہوں۔ باپ مر گیا اور بڑا بھائی بادشاہ بن گیا۔ میں اس سے خوفزدہ تھا۔ جان کے خوف سے ملک چھوڑ دیا۔ تمام کابینہ نے اس کی بات کو قبول کیا اور اس کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور اسے اپنا بادشاہ منتخب کر لیا۔ شہزادے کے منہ سے بے ساختہ نکلا یقینا اللہ کا فیصلہ تمام تدبیروں پر غالب ہے۔ اب وزرا نے بادشاہ کو ملک کی سیر کرانے کے لیے باہر نکالا۔ بادشاہ شہر میں گشت کر رہا تھا۔ لوگ بادشاہ کے پیچھے بادشاہ زندہ باد کے نعرے بلند کرتے ہوئے بادشاہ کے پیچھے جارہے تھے۔ ادھر شہزادے کے دوست شہر میں اس کی تلاش میں نکلے تھے۔ جو انہوں نے شہزادے کو اس حالت میں دیکھا تو سمجھ گئے بے ساختہ بول اٹھے ’’ واقعی اللہ کا فیصلہ تمام تدبیروں سے بڑھ کر ہے‘‘۔ وہ بھی بادشاہ زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے بادشاہ کے ساتھ محل میں داخل ہو گئے۔ بادشاہ تخت پر بیٹھا۔ یہ لوگ اس کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ بادشاہ نے ان کے سامنے کل کا جملہ دہراتے ہوئے کہا اللہ نے یہ سب کچھ اس لئے کیا تا کہ تمہیں معلوم ہو جائے۔ کہ ’’ اللّٰہ کا فیصلہ اُس کی رضا اور طاقت ہر چیز پر غالب ہے‘‘۔ اللّٰہ جو چاہے کر سکتا ہے جو جیسا گمان کرتا ہے اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ ہوتا ہے۔
بادشاہ نے تاجر کے بیٹے کو مشیر مقرر کر لیا۔ کسان کے بیٹے کو وزیر زراعت کے عہدے پر مقرر کیا اور جو خوبصورت نوجوان تھا اسے کہا یہ عارضی حسن کسی فائدے کا نہیں، اس کو کچھ مال تحفے میں دے کر رخصت کر دیا۔
جس نے اللہ کی ذات پر بھروسہ کیا اللّٰہ نے اس کو ہی ہمیشہ کامیاب کیا ہے۔ آپ نے بھی مشاہدہ کیا ہوگا کہ جو محنت مال عقل حسن پر اعتماد کرتا ہے وہ اس کے باوجود ناکام ہو جاتا ہے۔ عربی کا مقولہ ہے ’’ تقدیر تدبیر پر ہنستی ہے‘‘۔ جو تقدیر میں ہے۔ وہ ہوکر رہے گا۔ ایک ہوتی ہے۔ تقدیر مبرم یہ اللہ کا حتمی فیصلہ ہوتا ہے۔ جس میں تبدیلی بالکل ناممکن ہوتی ہے۔ جیسے دُنیا میں پیدائش و موت کا وقت اور جگہ انسان کے بس میں نہیں یہ تقدیر کی لکھی کہانی کا اٹل حصہ ہوتا ہے۔ دوسری قسم تقدیر معلق ہے ایک طرح کی تدبیر ہے جو تقدیر کا حصہ بن جاتی ہے۔ اس میں خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ وعدہ ہوتا ہے۔ کہ اگر کوئی اپنی دعا محنت کوشش عمل اور تدبیر کے ذریعے کوئی چیز چاہے تو ہم وہی اس کی تقدیر بنا دیتے ہیں۔







