Column

سیاستدان کیوں پکڑے جاتے ہیں؟

آصف علی درانی
کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں جانور بھی انسانوں کی طرح باتیں کیا کرتے تھے۔ ایک واقعہ یاد آیا کسی زمانے میں ایک آدمی کے پاس ایک مرغا تھا تو ایک دفعہ اس کا دل چاہا کہ اس مرغے کو ذبح کرے اور اس کو کھا لے لیکن اس کو وجہ سامنے نہیں آرہی تھی آخر اس نے یہ تدبیر سوچی اور مرغے کے سامنے یہ شرط رکھ دی کہ کل صبح اگر تم نے اذان دی تو میں تمہیں ذبح کر دوں گا۔ مرغا بے چارہ اپنے مالک کو دیکھتا رہا رات ہوگئی۔ مرغا صبح نیند سے بیدار ہوتے ہی سب سے پہلا کام جو وہ کرتا ہے اپنی آنکھوں کو کھولتا ہے اس کے بعد سر ہلاتا ہے اور تیسرا اپنے پروں کو کھول کر ہلاتا ہے اور اس کے بعد اذانیں دینا شروع کر دیتا ہے۔ مالک کے حکم کے بعد جوں ہی مرغا صبح اٹھتا ہے اپنا سر ہلاتا ہے پروں کو ہلاتا ہے اور جوں ہی وہ اذان دینے لگتا ہے تو مرغے کو اپنے مالک کی بات یاد آتی ہے لہذا اس صبح کو وہ اذان نہیں دیتا۔ مالک بھی حیران و پریشان کہ مرغے نے تو میری شرط پوری کر دی۔ مالک پھر ایک اور شرط یا تدبیر سوچتا ہے اور مرغے کے سامنے رکھتا ہے اسے کہتا ہے اچھا اگر کل صبح تم نے اپنے پَر ہلائے تو میں تمہیں ذبح کر دوں گا اب مرغا بے چارہ دوبارہ حیران و پریشان ہو کے رہ گیا اب جب دوبارہ صبح ہوتی ہے مرغا جونہی نیند سے اٹھتا ہے اور وہ اپنا سر ہلاتا ہے لیکن وہ اپنے پَر ہلانے کے قریب ہوتا ہے تو اس وقت اس کو دوبارہ مالک کی بات یاد آتی ہے کہ اگر پر ہلائے تو وہ اسے ذبح کر دیگا لہذا اس دفعہ اس نی پَر بھی نہیں ہلائے اور اذان بھی نہیں دی۔ جب مالک نے دیکھا کہ اس نے دونوں شرائط پوری کر دیں تو مالک نے مرغے کے سامنے ایک اور شرط رکھ دی ، کہاں کہ اگر کل صبح اگر تم نے اپنی گردن ہلائی تو میں تمہیں ذبح کر دوں گا اب دوسری رات بھی گزرتی ہے، جونہی صبح ہوتی ہے تیسرے دن نہ وہ سر پلاتا ہے نہ پر ہلاتا ہے اور نہ اذان دیتا ہے۔ تیسرے روز مالک شدید حیران و پریشان کہ اس نے تو میری اس شرط کو بھی پورا کر دیا، مالک سوچ رہا تھا کہ ایسی کون سی کمزوری کو پکڑا جائے کہ جس کی بنیاد پر میں اس مرغے کو ذبح کر سکوں۔ مالک مرغے کو کہتا ہے کہ اگر کل صبح تم نے انڈا نہیں دیا تو میں تمہیں ذبح کر دوں گا۔ اب ظاہری سی بات ہے کہ باقی شرائط تو وہ پورا کر سکتا تھا کیونکہ وہ اس کے اختیار میں تھا، اب یہ ایسا کام ہے کہ یہ قدرت کی طرف سے تھا اور یہ مرغے کے بس میں نہیں تھا لہذا اس شرط کو وہ پورا نہیں کرتا اور مالک کو وجہ سامنے آجاتی ہے۔ مرغا اپنی شرط ہار چکا ہوتا ہے اس طرح مالک مرغے کو ذبح کرنے لگتا ہے تو مرغا اس کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے اور بھاگنے لگتا ہے۔ مرغا جب پیچھے دیکھتا ہے تو مالک بدستور اس کے پیچھے بھاگتا رہتا ہے۔ بالآخر مرغا بے چارہ رونے لگتا ہے اور اپنے مالک سے گویا ہوتا ہے کہ کاش میں تمہاری اس پہلی شرط کو نہ مانا ہوتا تو آج میری یہ حالت نہیں ہوتی۔ یہ سننے کے بعد مالک نے کہا کہ مت بھاگو میں تمیہں ذبح نہیں کرونگا ، مرغے نے مالک کو کہا کہ مجھے ذبح ہونے پر اب کوئی اعتراض یا افسردگی یا شرمندگی نہیں ہے بلکہ افسوس مجھے اس بات پر ہے کہ میں نے اتنے دن تمہاری ان تمام شرطوں کو مانا اگر پہلے دن میں تمہاری پہلی والی شرط کو نہیں مانتا اور میں بغاوت کر دیتا اگر اس وقت تو مجھے ذبح کر دیتے تو کم از کم برادری میں میری عزت ہوتی، میرے اپنے رشتہ داروں کے ہاں میری عزت ہوتی، آنے والے نسلوں کی نگاہوں میں میری عزت ہوتی، لوگ مجھے اچھے نام سے یاد کرتے لیکن آج جب تم مجھے ذبح کرو اور اگر ذبح نہ بھی کرو لیکن آئندہ آنے والی جتنی بھی میری نسلیں ہوگی وہ یہی کہیں گی کہ اس نے اپنے آپ کو اس مقام تک پہنچا دیا کہ مالک کی ہر اس بات کو اس نے مان لیا جوکہ بالکل فطرت کے خلاف تھی، کیونکہ فطرت میں میرا اذان دینا تھا، فطرت میں پر کو ہلانا تھا، فطرت میں گردن کو ہلانا تھا، مرغے نے اپنے مالک کو کہا کہ یہ سب میں نے تمہاری خاطر نہیں کیا، اگر اس وقت میں فطرت کی مانتا تو آج مجھے ایک عظیم مرتبہ ملتا۔ مجھے ایک رتبہ ملتا، آج میرا ایک نام ہوتا، ایک مقام ہوتا لیکن میں نے فطرت سے روگردانی کی اور اس روگردانی کی وجہ سے آج میں ذلیل اور رسوا ہو رہا ہوں اور میری جو آئندہ ہونے والی زندگی ہے میں رہوں یا نہ رہوں لیکن آئندہ آنے والے وقتوں میں ہر کوئی مجھے غلط ناموں سے پکارے گا۔ ہر شخص مجھے بزدل کہے گا اور میں میری جتنی بھی کہانیاں ہونگی اس میں میرا کوئی اچھا نام باقی نہیں رہے گا۔
بدقسمتی سے پاکستانی سیاستدانوں کی حالیہ صورتحال کا مرغے کی کہانی سے موازنہ ممکن ہے، جیسا کہ مرغے کی کہانی میں اپنے مالک کے ساتھ شرائط مخصوص کی گئی تھیں اور مرغے نے ان شرائط کو پورا کیا، ویسے ہی سیاستدان بھی عوام کے سامنے انتخابی شعارات دینے کے بعد مخصوص شرائط اور وعدے کرتے ہیں۔
لیکن جیسے مرغے نے اپنے مالک کو معاونت دینے کے بعد بھی شرائط پوری کرتے ہوئے اپنے حقوق کی حفاظت کی، اسی طرح سیاستدانوں کو بھی اپنے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے محنت کرنی چاہیے۔ اگر سیاستدان عوام کے مفادات کے خلاف کام کریں گے یا ان کے حقوق کو نظر انداز کریں گے، تو عوام کیلئے ان کی اہمیت اور اعتماد ختم ہو جائے گی۔
اسی طرح، جیسے مرغے نے اپنے مالک کی باتوں کی پہلے اہمیت دی اور ان کے خلاف انصافی اور درست فیصلے کیے، سیاستدانوں کو بھی اپنے عملی اقدامات میں اخلاق انصاف، اور عدل کے معیارات پر عمل کرنا ہوگا۔ اگر سیاستدان اپنے اصولوں اور وعدوں کے مطابق عمل کرنے کا ارادہ اور عوام کے حقوق اور مفادات کی حفاظت کریں تو عوام بھی ان پر اعتماد کریں گے۔
اور ان کے ساتھ مل کر ملک کے معاشرتی اور اقتصادی مسائل کے حل کے لیے کام کریں گے۔ اس طرح، مرغے کی کہانی سے ہمیں یہ سبق سیکھنے کو ملتا ہے کہ سیاست میں بھی اخلاقیات اور عدل کو برقرار رکھنا انتہائی ضروری ہے۔
سیاست کے میدان میں آنے والے افراد کے لیے عوام کے مفادات اور اصولوں کو پیشِ نظر رکھنا بہت ضروری ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ بہت سے سیاستدان، حکمت عملی کی بجائے، عزت، شہرت، اور پیسے کو اہم ترین بنیادیات قرار دیتے ہیں۔ ان کے لیے سیاست صرف اور صرف انتخابات جیتنے کا ذریعہ ہوتی ہے، جس میں دھاندلی اور عوامی حقوق کے چھین جانے کی مختلف ہیں۔

جواب دیں

Back to top button