ColumnRoshan Lal

ہماری امیدوں کے محور؟

 

روشن لعل
جس کسی سے بھی کوئی امید وابستہ ہو اسے امیدوں کا محور کہا جاتا ہے۔ من حیث القوم ، ہمارا محبوب مشغلہ ہے کہ ہر تھوڑے عرصے بعد ہم کسی نئے چہروں کو گود میں اٹھا کر ’’ ہم سب امید سے ہیں‘‘ کی تصویر بنے نظر آتے ہیں۔ گو کہ ’’ امید سے ہونا‘‘ ہماری عادت ہے مگر اکثر ہماری امیدوں کا محور تبدیل ہوتا رہتا ۔ کبھی ہم پراپیگنڈے کے تحت مقبول بنائے گئے کسی جج کو امیدوں کا محور بنا لیتے ہیں تو کبھی کسی سپہ سالا سے امیدیں وابستہ کر کے اس کا شکریہ ادا کرتے نہیں تھکتے اور کبھی کسی کھلاڑی کو اس کے کھلنڈرے ماضی کے باوجود مشکل کشائی کے بام عروج پر پہنچا دیتے ہیں۔ نہ جانے کیوں ہمیں عقل خرد کی باتیں کرنے والوں کی نسبت بونگیاں مارنے والے زیادہ بھاتے ہیں اور ہم بلاوجہ ہیرو بنائے گئے لوگوں کی بونگیوں کا دفاع کرتے ہوئے دانش مندوں کا مذاق اڑانا شروع کر دیتے ہیں۔ اپنے ہم وطنوں کے رویوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کل ایک دوست نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ آنے والے دنوں میں ’’ استاد چاہت فتح علی خان‘‘ بھی اس قوم کی امیدوں کا مرکز بن سکتا ہے ، کیونکہ بہت کم عرصے میں وہ مقبولیت کے کئی ریکارڈ توڑ چکا ہے۔ آخری الذکر شخص کے متعلق اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ اسے کیسے ہماری امیدوں کا مرکز بنایا جا سکتا ہے تو وہ یاد رکھے کہ قبل ازیں جن لوگوں کو ہم نے خود یا کسی اور نے خاص ترکیبات کے تحت ہماری امیدوں کا محوربنایا وہ بھی ماضی میں کم و بیش، اپنی طرح کے’’ چاہت فتح علی خان‘‘ ہی تھے۔’’ چاہت فتح علی خان ‘‘ کو گائیکی کا بلاتکار کرنے کے باوجود ، ہماری قوم نے گائیک کے طور پر جوپذیرائی بخشی ، اس کے بعد ضرورت صرف اس امر کی رہ گئی ہے کہ اس کی ذات کے ساتھ نام نہاد بہادری و جرات مندی کا کوئی ہوشربا قصہ جوڑ کر ہر قسم کے میڈیا پر اس کثرت کے ساتھ اس کے حق میں سنسنی خیز پراپیگنڈا کیا جائے کہ کسی میڈیا پرسن کو سچ پر مبنی کوئی خبر نشر کرنے کے لیے قلیل سا وقت بھی دستیاب نہ ہو سکے۔ اس طریقہ کار کو استعمال کرتے ہوئے اگر چاہت فتح علی خان جیسے دیگر لوگوں کو مقبول عام بنایا جاسکتا ہے تو اس بندے کو ہر دلعزیز بنانا کیوں ممکن نہیں ہو سکتا۔
ہم نے چاہت فتح علی خان جیسے جن لوگوں کو اپنی امیدوں کا مرکز بنایا ان کا ماضی ہمارے سامنے ایسی کھلی کتاب کی طرح تھاجس کے سرورق سے ہی اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ اس کے اندر کبھی کوئی ایسا لفظ تحریر نہیں ہوا جسے سبق آموز اور امید افزا سمجھا جاسکے۔ اس حقیقت کے باوجود ہم اس کتاب پر بنے واضح نقش و نگار کو دبیز اور سیاہ غلاف میں چھپا کر اسے رہنما اصولوں کا مجموعہ تصور کرتے رہے۔ اس طرح کی زیادہ تر کتابیں ہماری عدلیہ سے برآمد ہوئیں۔ ایسی ہی ایک کتاب ، اچانک مشرف دور میں برآمد ہوئی۔ اس کتاب میں صاف لکھا ہوا تھا کہ جس شخصیت کو امیدوں کا مرکز بنایا جارہا ہے اس کے کانوں پر ملک میں بڑی سے بڑی انسانی حقوق کی پامالی پر بھی کبھی جوں نہیں رینگی تھی۔ عدل کے ایوانوں میں اس شخص کی فعال پیشہ ورانہ زندگی گزارنے کے دوران ملک میں بد ترین مارشل لا نافذ ہوا۔ ملک میں انسانی حقوق کی پامالی کی بد ترین مثالیں اسی مارشل لا دور میں قائم ہوئیں مگر یہ بندہ کبھی بھی ان لوگوں کے ساتھ کھڑا نظر نہ آیا جو جمہوریت کی بحالی اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے آوازیں بلند کیا کرتے تھے۔ اس شخص کا ماضی صرف ایک بات کی گواہی دیتا تھا کہ اس نے تمام زندگی جس حد تک ممکن تھا اپنی حیثیت اور اختیارات کو کنبہ پروری کے لیے استعمال کیا۔ اس بات کے ناقابل تردید ثبوت موجود تھے کہ اس شخص نے اپنی حیثیت اور اختیارات کے بل پر اپنے نالائق بیٹے کو وہ عہدے اور ترقیاں دلوائیں جن کاوہ کسی طرح بھی اہل نہیں تھا۔ اس طرح کے ثبوتوں کو پس پشت ڈال کر ہماری قوم نے اس وقت اسے اپنی امیدوں کا محور بنا یا جب میڈیا کو اس کی مدح سرائی کا فرض تفویض کر کے باقی سب کچھ بلیک آئوٹ میں رکھنے کا کہہ دیا گیا تھا۔ آن کی آن میں ہمیں وہ لوگ ’’ دھرتی ہو گی ماں کے جیسی ‘‘ اور ’’ عدل بنا جمہور نہ ہوگا‘‘ جیسے نعرے لگاتے نظر آنے لگے جو قبل ازیں عام لوگوں کو عدالتوں کی راہداریوں میں ذلیل و خوار کر کے آئین، قانون اور انصاف کا مذاق اڑاتے دکھائی دیتے تھے۔ ان لوگوں نے اپنی طرح کے سیاستدانوں سے مل کر دو گروہوں میں منقسم، ہو بہو اور ایک جیسے ماضی کے حامل ججوں میں سے کچھ کو پسندیدہ اور کچھ کو ناپسندیدہ قرار دے دیا۔ زور زبردستی سے پسندیدہ ججوں کی بحالی کے بعد عدل کے ایوانوں میں انصاف کا بول بالا ہونے کی بجائے بدترین طوائف الملوکی نظر آنے لگی۔ عدل کے ایوانوں سے شفاف انصاف برآمد ہونے کی بجائے طوائف الملوکی برآمد ہونے پر وہ آوازیں خاموش اور چہرے یکایک غائب ہو گئے جنہوں نے عام لوگوں کو ’’ ریاست ہوگی ماں کے جیسی‘‘ والے خواب دکھائے تھے۔ جو چہرے امیدوں کا محور بنائی گئی شخصیت کے ترجمان بن کر روزانہ ٹی وی چینلوں پر بڑی بڑی باتیں کرتے دکھائی دیتے تھے ، انہوں نے بھی چپ کا روزہ رکھ لیا۔ ایسے وقت میں بھی جس انسان نے اپنی آواز بند نہیں کی وہ عاصمہ جہانگیر تھی۔ جب ریاست کو ماں جیسی بنانے کے دعوے کرنے والا شخص عدل کے ایوانوں میں بدترین آمر بننے کی کوششیں کرنے لگا ، اس وقت صرف عاصمہ جہانگیر ایسی شخصیت تھی جس نے یہ کہنے میں کہیں دریغ نہ کیا کہ کون ، کیسے آئین و قانون کو فراموش کر کے اپنی حدود سے تجاوز کر رہا ہے۔
عاصمہ جہانگیر تو اپنی آخری سانس تک ملک میں حقیقی انصاف کی فراہمی کے لیے جدوجہد کرتی رہیں مگر جو لوگ جج بحالی تحریک میں بڑی بڑی باتیں کرتے تھے ان کی اکثریت کم و بیش اسی طرح اپنا کیرئیر بنانے میں مصروف ہو گئی جس طرح امیدوں کا مرکز بنائے گئے شخص نے اپنا اور اپنے بچوں کا کیرئیر بنایا تھا۔ اپنا کیرئیر بنانے والوں میں سے کچھ وکیلوں کی سیاست میں گروہ بندی کو مضبوط کر کے اپنے اپنے گروہ کے سرخیل بن گئے اور کچھ نے اپنے سابقہ’’ چیف‘‘ کی طرح جج بننے کو ترجیح دی۔ جج بحالی تحریک سے وابستہ لوگوں میں سے چاہے کوئی جج بنا یا وکیلوں کا لیڈر، ان میں سے کسی کو بھی یہ یاد نہ رہا کہ انہوں نے اس ملک میں حقیقی انصاف کی فراہمی کے نام نہ صرف ایک تحریک شروع کی بلکہ اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ بھی لیا تھا۔ مذکورہ تحریک سے وابستہ جو لوگ بعد ازاں جج بنے ان میں سے کچھ کو اب بھی بعض لوگ عوام کی امیدوں کا محور بنانے کے لیے میڈیائی پراپیگنڈے کا کھیل، کھیلنے میں مصروف ہیں۔ ایسے تمام تر پراپیگنڈے کے باوجود ذہن کسی جج کو امیدوں کا محور بنانے پر آمادہ نہیں کیونکہ یہ جج جو کچھ کرتے رہے اور جو اب کر رہے ہیں اسے کسی طرح بھی حقیقی انصاف کا اعلیٰ نمونہ تصور نہیں کیا جاسکتا۔

جواب دیں

Back to top button