Column

پنجاب کے تعلیمی اداروں میں ہفتہ کے روز بھی چھٹی کا فیصلہ

رفیع صحرائی
وزیرِ تعلیم پنجاب رانا سکندر حیات خان نے تصدیق کر دی ہے کہ صوبہ پنجاب کے تعلیمی اداروں میں بروز ہفتہ تدریسی چھٹی ہوا کرے گی۔ یہ چھٹی صرف طلبہ کو ہو گی۔ ٹیچرز ہفتہ کے روز اپنے اداروں میں موجود رہیں گے۔ اس دن کو ٹیچرز ٹریننگ، کیپیسٹی بلڈنگ، لیسن پلاننگ اور دیگر امور کے لئے مرحلہ وار استعمال کیا جائے گا۔ اس فیصلہ کی وجہ اساتذہ پر ورک لوڈ قرار دیا گیا ہے۔ وزیرِ تعلیم پنجاب نے اپنے فیس بک اکائونٹ سے اس خبر کی تصدیق کرتے ہوئے وضاحت کی ہے کہ اساتذہ کی جانب سے ملی تجاویز کی روشنی میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ ہفتہ کے روز چھٹی کی وجہ سے سکولوں میں سوموار سے جمعہ تک تدریسی اوقاتِ کار بڑھائے جائیں گے۔
وفاقی تعلیمی اداروں میں کئی سالوں سے ہفتہ اور اتوار کی تدریسی چھٹی ہوتی ہے۔ تاہم وہاں اساتذہ صاحبان کو ہفتہ کے روز تعلیمی اداروں میں نہیں بلایا جاتا بلکہ ان کو بھی طلبہ کے ساتھ ہی چھٹی ہوتی ہے۔ گزشتہ ہفتے یہ خبر سامنے آئی تھی کہ وفاقی اداروں میں ہفتہ کے روز ہونے والی چھٹی ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ ہفتے میں پورے چھ دن کام کر کے لوگوں کے مسائل کو جلد حل کرنے کے ساتھ ساتھ ورک لوڈ میں بھی کمی لائی جا سکے۔
وفاق اپنے ملازمین پر ورک لوڈ کم کرنے کے لئے ہفتے کے دن کی چھٹی منسوخ کرنا چاہتا ہے جبکہ پنجاب اپنے ملازمین پر ورک لوڈ کم کرنے کے لئے ایک چھٹی کا اضافہ کرنا چاہتا ہے۔ یہ ایسا تضاد ہے جس کی کسی کو سمجھ نہیں آ رہی۔ وزیرِ تعلیم پنجاب کی چند سطروں پر مبنی پوسٹ بھی تضاد پر مبنی ہے۔ جناب رانا سکندر حیات کے مطابق ہفتہ میں چھ دن کام کرنا اساتذہ پر ورک لوڈ ہے۔ اس بوجھ کو کم کرنے کے لئے وہ ایک دن کی مزید ہفتہ وار چھٹی دے کر اساتذہ کو ریلیف دینا چاہتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی انہوں نے سکول کے روزانہ کے اوقاتِ کار بڑھانے کی خوشخبری بھی دے دی ہے۔ یعنی فی ہفتہ تدریسی اوقات کار میں کمی نہیں کی جا رہی۔ اس کی وضاحت یوں کی جا سکتی ہے کہ روزانہ سکول کا وقت چھ گھنٹے اور جمعہ کے روز چار گھنٹے ہوتا ہے۔ اس طرح ہفتہ وار 6 دنوں میں تدریسی وقت 34 گھنٹے بنتا ہے۔ اب یہ 34 گھنٹے 5 دنوں میں پورے کئے جائیں گے۔ یعنی روزانہ اب چھ کی بجائے سات گھنٹے سکولوں میں تدریسی کام ہوا کرے گا۔ جمعہ کے روز چار کی بجائے چھ گھنٹے سکول میں گزارنے ہوں گے۔ یعنی جتنا تدریسی کام اساتذہ نے چھ دنوں میں کرنا تھا وہی کام اب انہیں پانچ دنوں میں پورا کرنا ہو گا۔ اب یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ ایسی صورت میں اساتذہ پر سے ورک لوڈ کیسے کم ہوا؟ پانچ دنوں میں انہوں نے چھ دنوں والا پورا ٹائم بھی دینا ہے اور کام بھی پورا کروانا ہے۔ ورک لوڈ کم کرنے کی نرالی منطق کی وضاحت تو اب رانا سکندر حیات ہی کر سکتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ ہفتہ میں دو چھٹیاں دے کر اساتذہ کو آرام کا زیادہ موقع دیا جا رہا ہے تو یہ موقف بالکل ہی غلط ہو گا۔ کیونکہ چھٹی صرف طلبہ کو دی گئی ہے۔ اساتذہ کرام تو ہفتے کے روز اپنے سکولوں یا کلسٹر سنٹرز میں حاضر ہو کر ٹریننگ لے رہے ہوں گے، لیسن پلاننگ کر رہے ہوں گے۔ بلڈنگ میں سہولیات کی کمی کو پورا کر رہے ہوں گے یا دیگر پیش آمدہ مسائل کو حل کر رہے ہوں گے۔ یعنی ہفتہ کی چھٹی کی مثال اساتذہ کے لئے ایسی ہی ہو گی کہ
ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے
ہفتے میں اساتذہ کو پورے چھ دن حاضر رکھ کر، ان سے پورے ہفتے کا کام لے کر اور اوقاتِ کار میں چھ گھنٹے اضافہ کر کے وزیرِ تعلیم اساتذہ پر سے کام کا بوجھ ختم کرنا چاہ رہے ہیں۔ اب فیصلہ آپ خود کر لیجئے کہ ہفتہ کے روز تدریسی چھٹی کا فیصلہ اساتذہ کے ورک لوڈ میں کمی لائے گا یا اس میں اضافہ کرے گا؟
یہ فیصلہ کرتے وقت ایک اور بات کی طرف بھی توجہ نہیں دی گئی کہ سردی کے موسم میں دن چھوٹے ہوتے ہیں۔ دور دراز سکولوں میں اپنے فرائض ادا کرنے والے مرد و خواتین اساتذہ کے علاوہ روزانہ دیہات سے شہروں میں جا کر پڑھنے والے طلبہ کو چھٹی کے بعد گھر پہنچتے پہنچتے شام ہو جاتی ہے۔ اب ایک گھنٹہ زائد تعلیمی اداروں میں گزارنے کی صورت میں وہ کیسے مینیج کر پائیں گے۔
وزیرِ تعلیم پنجاب رانا سکندر حیات نوجوان بھی ہیں اور انرجیٹک بھی۔ کام کرنے کا شوق بھی رکھتے ہیں اور عام لوگوں کی مشکلات میں کمی لانے کے خواہاں بھی ہیں۔ اساتذہ تو ان کا کنبہ ہیں جس کے وہ سربراہ ہیں۔ سہولیات کے نام پر اپنے افرادِ کنبہ کی مشکلات میں اضافہ کرنا عجیب سا لگ رہا ہے۔ ایک لطیفہ یاد آ گیا۔
گھرانے کے سربراہ نے اپنے بچوں سے کہا کہ جو بچہ آج ناشتہ نہیں کرے گا اسے دس روپے انعام کے طور پر دیئے جائیں گے۔ تمام بچوں نے ناشتے سے انکار کر کے دس، دس روپے وصول کر لئے۔ جب رات کے کھانے کا وقت ہوا تو باپ بولا،
’’ کھانا اسی کو ملے گا جو دس روپے واپس جمع کروائے گا‘‘۔
اساتذہ کے ساتھ بھی آج کل کچھ ایسا ہی سلوک ہو رہا ہے۔ کبھی تو ان کی تنخواہیں جناب وزیرِ تعلیم کی آنکھوں میں کھٹکتی ہیں کبھی انہیں سرکاری سکول این جی اوز کو دینے میں بہتری محسوس ہوتی ہے۔ ان کی نیت پر شک نہیں کرنا چاہئے، وہ اپنی سوچ اور عمل کے لحاظ سے ہو سکتا ہے مخلص ہوں لیکن جلد بازی میں کوئی فیصلہ لینے کی بجائے انہیں پوری طرح غور و خوض بھی ضرور کرنا چاہئے۔ چند لوگوں سے مشاورت کی بجائے اساتذہ تنظیموں کے نمائندگان سے مشاورت کرنی چاہئے۔ اساتذہ کی تنخواہوں پر طعنے دینے کی بجائے ان کی خدمات کا اعتراف کرنا چاہئے۔ اپنے عارضی اور غیر مستقل عہدے کی آمدنی اور مراعات کا موازنہ مستقل ملازمت کرنے والوں کی مراعات سے کر کے دیکھنا چاہئے۔

جواب دیں

Back to top button