Column

ضمیر

 

علیشبا بگٹی
خلیفہ ہارون الرشید کا ایک دوست بہت عقلمند، ذہین دُنیا دار اور بھروسہ مند تھا۔ خلیفہ اُس سے کسی مسئلہ پر مشاورت بھی کرتا تھا۔ خلیفہ ہارون الرشید بہت انصاف پسند تھا اُس کا حکم تھا کہ اُس کے محل میں آنے والا ہر فریادی اُس کے حضور پیش کیا جائے۔ دربان اکثر اوقات فریادیوں کو بادشاہ کے سامنے پیش کرتے رہتے تھے اور بادشاہ معمول کے کاموں کے ساتھ اُن کی فریاد سن کر احکامات جاری کرتا رہتا تھا۔ خلیفہ ایک دن اُس دوست کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھا رہا تھا کہ ایک فریادی کو پیش کیا گیا۔ فریادی نے روتے ہوئے عرض کی۔ آپ کے اس دوست نے میری زمین پر ناجائز قبضہ کیا ہوا ہے۔ بادشاہ نے پریشانی کے عالم میں اپنے دوست کی طرف دیکھا۔ دوست نے نیپکن سے ہاتھ صاف کئے اور فریادی سے مسکرا کر کہا میں نے تمہاری کتنی زمین پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ اُس فریادی نے بتایا کہ اتنے ایکڑ پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ اُس دوست نے دربان سے کاغذ قلم منگوایا اور اسی وقت ساری زمین اُس کے نام لکھ دی۔ بادشاہ نے پوچھا۔ تم نے اسے اپنی ساری زمین کیوں لکھ کر دی؟ دوست نے مسکرا کر کہا: بادشاہ سلامت آپ خلیفہ ہیں۔ دُنیا میں اِس وقت آپ سے بڑا کوئی نہیں اور مجھے آپ جیسی ہستی کا قرب حاصل ہے۔ جو میرا سب سے بڑا اثاثہ ہے۔ اگر میں زمین کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کے عوض یہ اثاثہ کھو دوں۔ تو مجھ سے بڑا بیوقوف کون ہوگا؟ چنانچہ میں نے اپنی ساری زمین اُس جھوٹے دعویٰ دار کو دے کر اپنا عظیم اثاثہ بچا لیا۔ بادشاہ نے کہا: کیا تجھے مجھ پر اور میرے قاضیوں پر بھروسہ نہیں تھا کہ وہ انصاف دیں گے؟ دوست نے عرض کی: آپ سے بڑا دنیا میں اس وقت انصاف پسند اور کوئی نہیں اور مجھے یقین ہے کہ پہلی پیشی میں فیصلہ میرے حق میں ہو جانا تھا مگر میں نے سوچا کہ دنیا بادشاہ کے دوست کو کٹہرے میں دیکھے گی تو یقینا مجھ پر ہنسے گی۔ میں رعایا کی ہنسی کو آپ کی توہین سمجھتا ہوں میں آپ کا دوست اور سچا خیر خواہ ہوں میری وجہ سے آپ کی بے عزتی نہیں ہونی چاہیے۔ وہ رکا اور بولا بادشاہ سلامت آپ یہ ذہن میں رکھیے پھر لوگ یہ سمجھتے کہ بادشاہ کا دوست ہونے کی وجہ سے بچ گیا۔ میں نہیں چاہتا کہ آپ کا دوست ایک لمحے کے لئے بھی مشکوک سمجھا جائے۔ بادشاہ اٹھا، اس نے اپنے دوست کو گلے سے لگایا اور دربان سے کاغذ قلم لانے کا حکم دیا، بادشاہ نے دریائے فرات کے کنارے زرخیز چالیس میل زمین کا رقبہ اُس کے نام لکھ دیا۔
آج کل تو بادشاہوں کے دوست الٹا چل رہے ہیں۔ وہ غریبوں کو کہتے ہیں بھتہ دو۔ نہیں تو چل تیری زمین ویران رہیں گے۔ مگر وہ شاید یہ بات نہیں جانتے کہ کچھ لوگ اپنی غربت کی دنیا میں مست رہتے ہیں وہ کسی زمینی خدا کے آگے زمینوں کے لیے نہیں جھکتے ہیں۔ وہ اوپر والے خدا کے فیصلے کا انتظار کرتے ہیں۔ شاعر کہتا ہے کہ
غربت نہ دے سکی میرے ضمیر کو شکست
جھک کر کسی امیر سے ملتا نہیں ہوں میں
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرز منافقت
دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
ایک بستی میں ایک کسان رہتا تھا۔ اس کے پاس زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا تھا جس پر وہ کھیتی باڑی کرتا اور اپنی ضروریات پوری کرتا تھا۔ ایک دن وہ اپنے کھیت میں کام کر رہا تھا کہ اسے زمین میں دفن ایک صندوق ملا۔ اس نے صندوق کو نکالا اور جب اسے کھولا تو اندر سونے اور چاندی کے سکے دیکھ کر حیران رہ گیا۔ وہ جانتا تھا کہ یہ دولت اس کی نہیں ہے اور اسے کسی طرح واپس کرنا چاہیے۔ اس نے سوچا کہ وہ یہ خزانہ بستی کے سردار کو دے دے تاکہ وہ اس کے اصل مالک تک پہنچا سکے۔ مگر جیسے ہی وہ خزانہ لے کر سردار کے پاس پہنچا، اس کے دل میں لالچ نے جنم لیا۔ اس نے سوچا کہ اگر وہ یہ دولت اپنے پاس رکھ لے تو اس کی ساری مشکلات ختم ہو جائیں گی۔ سردار کے پاس پہنچ کر اس نے خزانے کا ذکر نہیں کیا اور واپس گھر آگیا رات کو جب وہ سونے کی کوشش کر رہا تھا، تو اس کا ضمیر اسے ملامت کرنے لگا۔ ضمیر کی آواز نے اسے بار بار یاد دلایا کہ ایمانداری ہی اس کی سب سے بڑی خوبی ہے اور اسے اس خزانے کو واپس کرنا چاہیے۔ اُس نے ضمیر کی پکار کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی مگر وہ سکون سے نہ سو سکا۔ صبح ہوتے ہی اُس نے فیصلہ کیا کہ وہ خزانے کو واپس کرے گا۔ وہ دوبارہ سردار کے پاس گیا اور سارا واقعہ بیان کر دیا۔ سردار نے اس کے ایمانداری کی تعریف کی اور اس خزانے کو اس کے اصل مالک تک پہنچانے کا وعدہ کیا۔ بستی کے لوگوں نے جب اس کی ایمانداری کے بارے میں سنا تو اس کی عزت اور بڑھ گئی۔ خود اُس کے دل میں بھی سکون اور اطمینان کی لہر دوڑ گئی۔ اس نے سیکھا کہ ضمیر کی پکار کو نظر انداز کرنا نہ صرف اس کے سکون کو ختم کرتا ہے بلکہ اس کی عزت اور وقار کو بھی متاثر کرتا ہے۔۔۔۔
مگر آج کل لوگوں کا ضمیر مر چکا ہے۔
آج کل پیسہ دولت دکھاوا ہی سب کچھ ہے۔

جواب دیں

Back to top button