امریکی قرارداد سے ہونا کچھ نہیں

محمد ناصر شریف
پاکستان میں ایسے انتخابات کرائے ہی کیوں گئے جس کی صحت پر اندرون اور بیرون ملک سوال اٹھ رہا ہے۔ قوم کے اربوں روپے اس مشق پر خرچ ہوئے اس کے باوجود حکومت میں شامل تمام جماعتیں اور اپوزیشن سب ہی دھاندلی کے الزامات عائد کرتے ہیں۔ عجیب صورتحال ہے اس شادی ( انتخابات) کے لئے امریکا، برطانیہ، سعودی عرب ، چین سمیت تمام اسٹیک ہولڈر آن بورڈ رہے، اندرون ملک بھی تمام اسٹیک ہولڈرز نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ بارات میں بھی سب شامل رہے خوب مزے بھی کئے لیکن جیسے ہی شادی تکمیل کو پہنچی ہر آدمی اس شادی پر انگلی اٹھانے لگا۔ بارات میں سارے مزے لوٹنے کے باوجود رونا یہ ہے کہ ہمیں کچھ ملا ہی نہیں اور ہر کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ اس شادی کی تحقیقات ہونی چاہئے۔ اس معاملے میں امریکا تو بیگانے کی شادی میں عبداللہ دیوانہ والا کردار ادا کر رہا ہے۔
امریکا کے ایوان نمائندگان نے گزشتہ روز 8فروری 2024ء کو پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات میں ووٹنگ کے بعد ہیر پھیر کے دعوئوں کی غیر جانبدار تحقیقات کے حق میں قرارداد کو بھاری اکثریت سے منظور کرتے ہوئے جمہوری عمل میں عوام کی شمولیت پر زور دیا ہے۔ امریکی ایوان میں 7کے مقابلے میں 368امیدواروں نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا جس میں مداخلت اور بے ضابطگیوں کے دعووں کی مکمل اور آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا۔ قرار داد میں پاکستان کے لوگوں کو ملک کے جمہوری عمل میں حصہ لینے کی کوشش کو دبانے کے اقدامات کی مذمت کی گئی، ان کوششوں میں ہراساں کرنا، دھمکانا، تشدد، بلا جواز حراست، انٹرنیٹ اور مواصلاتی ذرائع تک رسائی میں پابندیوں یا ان کے انسانی، شہری اور سیاسی حقوق کی خلاف ورزی شامل ہے۔ ہائوس ریزولوشن 901میں کہا گیا کہ یہ قرارداد جمہوریت اور انسانی حقوق کے حوالے سے حمایت کے اظہار کے لئے ہے۔ قرار داد میں پاکستانی حکومت پر زور دیا گیا کہ وہ جمہوری اور انتخابی اداروں، انسانی حقوق اور قانون کی بالادستی برقرار رکھے، اس میں کہا گیا کہ حکومت قانونی طریقہ فراہم کرنے کی بنیادی یقین دہانی، صحافت کی آزادی، جلسہ کرنے کی آزادی اور پاکستان کے عوام کی آزادی اظہار رائے کا احترام کرے۔ قرار داد میں پاکستان کے سیاسی، انتخابی یا عدالتی عمل پر اثر انداز ہونے کی ہر کوشش کی مذمت کی گئی۔
پاکستان نے اپنے فوری ردعمل میں کہا کہ امریکی ایوان نمائندگان کی جانب سے منظور کی گئی قرارداد پاکستان میں انتخابی عمل سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے ، ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ ایسی قراردادیں نہ تو تعمیری ہیں اور نہ ہی بامقصد، امید ہے امریکی کانگریس باہمی تعاون کی راہوں پر توجہ مرکوز کرے گی، اس مخصوص قرارداد کا وقت اور سیاق و سباق پاکستان اور امریکا کے دوطرفہ تعلقات کے مثبت پہلوئوں سے مطابقت نہیں رکھتے، اور اس کی وجہ پاکستان میں سیاسی صورت حال اور انتخابی عمل کی ناقص سمجھ بوجھ ہے۔
وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کے مطابق امریکا سپر پاور ہے، اُسے یہ چیزیں زیب نہیں دیتیں، امریکا کو جمہوریت سے متعلق اپنا 100سالہ ریکارڈ دیکھنا چاہئے، امریکا پہلے اپنے انتخابات کو شفاف بنائے پھر دوسروں پر الزام لگائے، ایکس پر اپنے بیان میں وزیر دفاع نے کہا کہ قرارداد ایک ایسے ملک کی جانب سے سامنے آئی ہے جس نے جمہوری حکومتوں کے تختے الٹائے، جو فلسطینیوں کی نسل کشی کی سہولت کاری کر رہا ہے، ڈیموکریٹک، ریپبلکنز نے الیکشن میں ایک دوسرے پر غیرملکی مداخلت اور دھاندلی الزامات لگائے ہیں کیوں نہ اقوام متحدہ سے امریکی انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کیلئے کہا جائے، ویتنام، جنوبی امریکا اور مشرق وسطی میں کروڑوں افراد اپنی جان سے گئے، ہنستے بستے معاشروں کو اجاڑ دیا گیا، لیبیا، عراق، شام جیسے ممالک اجڑ گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ آج کل فلسطینیوں کا جو قتل عام ہو رہا ہے، اس کا سب سے بڑا سہولت کار امریکا ہے۔ وزیر دفاع نے کہا کہ پاکستان سے متعلق اس قسم کے مطالبات سے پہلے امریکا کو جمہوریت کے لئے اپنا 100سالہ ریکارڈ دیکھنا چاہئے۔ پی ٹی آئی اس وقت امریکا میں بہت متحرک ہے، جس نے اکسا کر پاکستان کے خلاف قرارداد منظور کروائی ہے۔
مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما حنیف عباسی نے امریکی قرارداد کو صیہونی سازش قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے پیچھے بانی پی ٹی آئی کی کزن جاوید برکی اورڈاکٹر آصف ہیں، کانگریس میں لابنگ پر لاکھوں ڈالر خرچ کئے گئے ہیں، تحریک انصاف کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات رئوف حسن نے اپنے رد عمل میں کہا کہ پوری دنیا بات کر رہی کہ پاکستان کے اندر فراڈ الیکشن ہوا، امریکی کانگریس نے پاکستان کے الیکشن سے متعلق قرارداد پاس کی، 98.3فیصد اراکین کی جانب سے اس قرارداد کو سپورٹ کیا گیا، چین نے بھی پاکستان کو ایک ہی بات کہی کہ ملک میں سیاسی استحکام لایا جائے، سیاسی استحکام کے بغیر ملک میں سرمایہ کاری نہیں آسکتی۔ سابق صدر مملکت اور پی ٹی آئی رہنما ڈاکٹر عارف علوی نے امریکی ایوان نمائندگان سے الیکشن سے متعلق قرارداد کی منظوری کا خیر مقدم کیا ہے۔ عارف علوی نے کہا کہ امریکی ایوان نمائندگان میں قرارداد کی منظوری درست سمت میں اٹھایا گیا قدم ہے۔ عارف علوی نے کہا کہ پاکستان میں جمہوری عمل کی ابتری کی 7کے مقابلے میں 368ووٹوں کی بھاری اکثریت سے مذمت کی گئی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما اور سینیٹر شیری رحمان کا کہنا ہے کہ امریکی ایوان نمائندگان میں پاکستانی انتخابات پر تحقیقات کے حوالے سے منظور ہوئی قرارداد سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ہائوس ریزولوشن 901نومبر 2023میں پیش کی گئی تھی، دو کانگریس مین نے کافی مثبت اور تعمیری باتیں کیں، اس پر بحث کرتے ہوئے کانگریس مین ڈین کلڈی نے تھوڑی پاکستان مخالف تنقید کی جو کہ نارمل ہے۔ رضا ربانی نے کہا کہ امریکی کانگریس کی قرارداد پاکستان کی خود مختاری کی سنگین خلاف ورزی ہے، علاقائی صورتحال کو دیکھتے ہوئے امریکہ کی قرارداد کے سیاسی مقاصد ہیں۔ امریکا کی مقبول اور جمہوری حکومتوں کو گرانے کی تاریخ ہے، یہ جمہوریت کے بارے میں کیسے بول سکتے ہیں۔
ویسے تو امریکا کو ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کا کوئی حق نہیں لیکن ہم معاشی اور سیاسی طور پر چوراہے پر بیٹھے ہیں تو ہر آنے جانے والا ہماری گدی گرم کرکے چلا جاتا ہے۔ مشکل وقت صرف حکومت کے لئے نہیں ریاست کے لئے بھی ہے۔ شادیانے بجانے والوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ امریکی قرارداد سے ہونا تو کچھ نہیں ہیں کیونکہ ایسی قرار دادوں کی ویسے بھی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، ہم امریکیوں کا ساتھ دینے کا خمیازہ آج تک دہشت گردی کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ یہ قرارداد بھی کچھ نادان دوستوں کی وجہ سے منظور ہوئی جن کو اس کے اثرات کا جلد پتہ چل جائے گا۔
آپریشن عزم استحکام لوگوں کو دہشت گردوں سے بچانے کے لئے کیا جارہا ہے لیکن مفادات کی سیاست کرنے والے اس پر ریاست کی مدد کرنے کو تیار نہیں ، ہونا تو یہ چاہئے تا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز ایک پیج پر ہوتے دہشت گردوں سے اپنے ملک کو محفوظ بنانے کے لئے ریاستی اقدامات کا ساتھ دیتے اور جو گمراہ لوگ ہیں ان گمراہی سے نکالنے میں کردار ادا کرتے سیاسی دکان چمکانے لگے ہیں، گزشتہ روز پی ٹی آئی کی سربراہی میں ایک جرگہ ہوا جس میں محمود خان اچکزئی جو پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ نے یہاں تک عندیہ دیا کہ ہم اپنے مسائل عالمی عدالت لیکر جائیں گے وہ آپریشن کو وسائل پر قبضہ قرار دیتے ہیں کیا دہشت گرد ان کے وسائل ہیں، دیگر مسائل پر بات بھی ہوسکتی ہے اور انہیں حل بھی کیا جاسکتا ہے لیکن دہشت گردی وہ مسئلہ ہے جس پر لچک کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے، ریاست کو بھی اپنی سابقہ غلطیوں سے سیکھتے ہوئے آپریشن کو ٹارگٹڈ ہی رکھنا چاہئے۔





