ColumnImtiaz Aasi

عدم استحکام اور عزم استحکام

امتیاز عاصی
دراصل ہمارا ملک اس وقت سے عدم استحکام کا شکار ہے جب سے ہم نے روس کے خلاف امریکہ کااتحادی بن کر جہاد کا اعلان کیا تھا ۔روسی افواج کے افغانستان میں داخل ہونے سے پہلے جہاد کا لفظ کم ہی استعمال ہوا تھااورمولانا مفتی محمود ،عبدالحق حقانی، مولانا عبداللہ درخواستی اور مولانا غلام غوث ہزاروی ایسے جید علماء کرام جہاد کا لفظ زبان پر نہیں لائے تھے۔ روس کے خلاف امریکہ کا اتحادی بن کر فرنٹ لائن اسٹیٹ کا کردار ادا کرنے کی ہمیں بھاری قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے اس وقت امریکہ نے ہم پر ڈالروں کی بارش کی تاہم جہاد کے دور رس نتائج ریاست پاکستان کے لئے عدم استحکام کا باعث بن گئے۔ وفاقی دارلحکومت میں ہونے والے ایک سمینار میں ملک کی قریبا تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما شریک ہوئے اور آپریشن عزم استحکام کی حمایت کا اعلان کیا خصوصا ملک کی سب سے بڑی جماعت پی ٹی آئی کے رہنمائوں اسد قیصر اور بیرسٹر گوہر سمینار میں شریک ہوئے جس کے اگلے روز پی ٹی آئی نے ایپکس کمیٹی کے فیصلوں سے عدم اتفاق کرتے ہوئے آپریشن عزم استحکام کے معاملے کو پارلیمان میں لانے کا مطالبہ کر دیا جس کے بعد جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمان اور اے این پی کے ایمل ولی خان نے بھی آپریشن عزم استحکام کی حمایت سے معذوری ظاہر کر دی۔ پریس کانفرنس کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنمائوں نے عسکری قیادت سے پارلیمان کو اعتماد میں لینے کا مطالبہ کر دیا ۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا طالبان اور تحریک طالبان نے باہم مل کر امریکیوں کے خلاف لڑائی لڑی جس کے نتیجہ میں امریکہ کو افغانستان سے جانا پڑا جو اسلحہ امریکہ جاتے وقت افغانستان چھوڑ گیا آج وہی اسلحہ دہشت گردی میں پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہا ہے۔امریکہ نے 2019میں افغانستان چھوڑا لیکن ریاست پاکستان کو دہشت گردی کی دلدل میں دھکیل گیا۔اب ہم سکیورٹی کونسل سے افغانستان کی حکومت پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔وقت بدلتے دیر نہیں لگتی جن مدارس کے بچوں کو افغانستان میں روس کے خلاف جہاد کی تربیت دی گئی وہی ہمارے دشمن بن کر سیکورٹی فورسز پر حملہ آور ہو رہے ہیں ۔ اللہ کے بندوں وطن عزیز میں استحکام تو تبھی آئے گا جب تمام فریقین باہم مل کر دہشت گردی کے خاتمے کے لئے جدوجہد کریں گے۔ ملک میں اس وقت دو سیاسی جماعتیں اداروں کی ناک کا بال ہیںتمام معاملات انہی جماعتوں کے رہنمائوں سے مل کر حل ہو رہے ہیںجب کہ ملک کی سب سے بڑی جماعت میں توڑ پھوڑ جاری ہے۔سوال ہے پی ٹی آئی کے بانی کو پس زندان رکھ کر ملک کا کوئی فائدہ ہے؟اگر ایسی بات ہے تو اسے ضرور جیل میں رکھا جائے۔ایک اور اہم بات یہ ہے کے پی کے اور بلوچستان میں نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد کو بے روزگاری کا سامنا ہے جن کے پاس روز گار نہیں ہوگا وہ کسی نہ کسی کے ہتھے چڑھ کر اپنے ملک کے خلاف بندوق اٹھانے سے گریز نہیں کریں گے لہذا اس وقت جس چیز کی اشد ضرور ت ہے بے روز گاری اور سیاسی استحکام لائے بغیر دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں۔کئی عشروں سے ہماری سیکورٹی فورسز کے لوگ ملک وقوم کی خاطر جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔اب وقت آگیا ہے ملک کو آئین اور قانون کے مطابق چلائے بغیر سیاسی استحکام ممکن نہیں ۔آئین پاکستان اس امر کا تقاضا کرتا ہے مملکت کے نظام کوآئین کے مطابق چلایا جائے جس میں انصاف،جمہوریت اور اظہار کی آزادی ہو بدقسمتی سے ہمارے ہاں ان تمام چیزوں کا فقدان ہے۔دو صوبوں میںد ہشت گردی کے آئے روز واقعات سے امن وامان کی داخلی صورت حال تشویشناک ہے۔کوئی دن خالی نہیں ہوتا جب ہماری بہادر افواج کے سپوت دہشت گردوں کا نشانہ نہیں بنتے۔ہم ماضی کی طرف لوٹیں تو جنرل ضیاء الحق کے دور میں جہادی تنظیموں کا قیام عمل میں لایا گیااس کے برعکس جنرل مشرف کے دور میں امریکہ کے کہنے پر جہادیوں کو ختم کرنے کا ٹاسک دیا گیاجس سے مملکت میںد ہشت گردی کو فروغ حاصل ہوا۔درحقیقت ریاست پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کی کوئی گنجائش نہیں ۔قائد اعظم کے فرمان کے مطابق پاکستان ایک آزاد اسلای فلاحی پارلیمانی ملک ہو گا جس میں ہر شخص کو مذہبی آزادی ہو گی۔ایک مہربان دوست سینیٹر حاجی ملک فرید اللہ خان جو وزیرستان میں دہشت گردوں کا نشانہ بنے تھے نے جنرل پرویز مشرف سے فاٹا کے لوگوں کونہ چھیڑنے کا مشورہ دیا تھالیکن جنرل مشرف نے قبائلی علاقوں میں آپریشن کرکے حالات کو خراب کر دیا۔آج وہی فاٹا سے افغانستان ہجرت کرنے والے لوگ تحریک طالبان پاکستان کا حصہ ہیںجو طالبان حکومت سے باہم مل کر پاکستان میں دہشت گردی کر رہے ہیں۔ا ب سوال ہے سیاسی جماعتیں آپریشن عز م استحکام کے لئے رضامند ہیں یا نہیں؟وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے عمران خان سے ملاقات کے بعد کہا ہے آپیکس کمیٹی میں آپریشن عزم استحکام کی کوئی بات نہیںہوتی تھی صرف امن وامان کی بات ہوئی تھی اور انعامات دینے کی بات ہوئی تھی جسے عزم استحکام کا نام دیا گیا تھا۔انہوں نے واضح کیا جب تک آئی ایس پی آر یہ بات کلیئر نہیں کرے گا آپریشن کس سائز میں ہونا ہے کچھ نہیں کہا جا سکتا لہذا اس بارے صوبوں کو اعتما د میں لینا بہت ضروری ہے البتہ انہوں نے سانحہ نو مئی پر کمیشن بنانے کے اپنے مطالبے کو از سر نو دہرایا ہے۔جے یو آئی اور اے این پی آپریشن عزم استحکام کے حق میں نہیں ہیںبلکہ ان کا موقف ہے آپریشن سے صوبوں کے حالات مزید خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے ماضی میں کئی آپریشن ہو چکے ہیں جن کے نتائج سامنے رکھے جائیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا اسٹبلشمنٹ کو ہر شعبے میں اپنی بالادستی کو ختم کرنا ہوگا۔وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے وہ آپریشن عزم استحکام کے معاملے کو افہام وفہیم سے حل کرلیں گے۔حالات اور واقعات سے نہیں لگتاپی ٹی آئی ،جے یو آئی اور اے این پی آپریشن عزم استحکام کے سلسلے میں رضامندی ظاہر کریں گی کیونکہ جے یو آئی ،پی ٹی آئی اور اے این پی کا سیاسی مستقبل صوبے کے رہنے والوں سے وابستہ ہے۔

جواب دیں

Back to top button