تیسری قوت کی دستک

سیدہ عنبرین
گھر گھر کی کہانی کے بعد سیاسی جماعتوں کی کہانی بھی ایسی ہے۔ پیسوں پر لڑائی کے بعد بیوی ناراض ہو کر گھر آ بیٹھی تھی، چند ماہ اس طرح گزر گئے، دونوں طرف سے کسی نے رابطہ نہ کیا، پھر اچانک خاوند نے پھیرا ڈالا۔ ایک ملاقات وہ بھی بہت مختصر مگر تمام اختلافات ختم ہو گئے۔ ایسے میاں بیوی قابل تعریف ہیں۔ دو بڑی سیاسی جماعتیں بھی اتنی ہی وسیع القلب ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے پہلا پھیرا ڈالا، پیپلز پارٹی کے گلے شکوے ختم ہوگئے، اب بجٹ احسن انداز میں پاس سمجھئے۔ بتایا جائے گا کہ تمام تحفظات دور کر دیئے گئے ہیں، تحفظات کیا تھے اور منٹوں میں کیسے دور ہو گئے، یہ بتانے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کرے گا۔
چند روز قبل ایوان میں پیپلز پارٹی کے رہنمائوں خصوصاً بلاول اور آصفہ بھٹو کی تقاریر سے اندازہ ہوتا تھا کہ مجوزہ بجٹ عوام دشمن بجٹ ہے، جس میں لگائے گئے تمام ٹیکس ناجائز ہیں اور سب کچھ عوامی دشمنی کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ عوامی سیاسی جماعت کسی عوام دشمن بجٹ کے پاس ہونے میں معاونت نہیں کرے گی۔ بجٹ سفارشات تیار کرتے ہوئے مشاورت نہ کرنے کا دکھ بھی اچانک ختم ہو گیا، چند روز پہلے تک مشاورت نہ کئے جانے پر پیٹ میں زور کا مروڑ اٹھ رہا تھا۔ وزیراعظم کے پہلے پھیرے کے بعد یہ درد بھی ختم ہوا، شاید سال آرام سے گزر جائے، کوئی نیا دور نہ جاگے۔
ہر مرتبہ عام انتخابات سے قبل دونوں بڑی سیاسی جماعتیں جواب سمٹ کر مختصر ہو چکی ہیں، یہی سوانگ رجایا کرتی ہیں، ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی، الزام تراشی، چور، ڈاکو، لٹیرے، ملک دشمن اور جانے ایک دوسرے کو کیا کیا کہتے ہیں۔ ڈرامے کا آخری ایپی سوڈ ہمیشہ دلچسپ ہوتا ہے، جس میں دونوں طرف سے خاندان کے مختلف افراد کی کردار کی خوبیاں گنوائی جاتی ہیں۔ ایک طرف سے کہا جاتا ہے میاں سے ملاقات اور اتحاد کے تمام دروازے بند ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف سے پیٹ پھاڑ کر لوٹا ہوا قوم کا پیسہ نکالنے کا وعدہ ہوتا ہے، سڑکوں پر گھسیٹنے کا خیالی منظر ایسی خوبی سے بیان کیا جاتا ہے کہ پارٹی کی بداعمالیوں سے نالاں عوام جھوم جھوم اٹھتے ہیں۔ ایک پارٹی رہنما دوسری پارٹی کے رہنما کو ’’ مودی کا یار‘‘ کہنا کبھی نہیں بھولتے، دوسری پارٹی جواباً یاد کراتی ہے کہ تمہارے سرے محل، سوئٹزر لینڈ میں بینک اکائونٹ اور کراچی کے بیش قیمت پلاٹوں پر قبضے ہیں۔ ایک کہتا ہے لوہار اربوں ڈالر کے مالک کیسے بن گئے، دوسرا کہتا ہے بالکل اسی طرح جس طرح سینما سے سونے کی کان نکل آتی ہے اور مالا مال کر دیتی ہے۔ عوام اس پکے راگ کا بھی خوب مزہ لیتے ہیں، پہلی مرتبہ یہ ڈرامہ کھڑکی توڑ تھا، دوسری مرتبہ نئی کاسٹ کے ساتھ پیش ہوا تو پھر کامیاب رہا، تیسری مرتبہ اس کا انجام کامیڈی بنا کر میلہ لوٹا گیا، چوتھی مرتبہ دونوں سیاسی جماعتیں اپنے اوپر ڈھائے جانے والے مظالم سنا سنا کر اپنے اوپر رقت طاری کر لیتے ہیں لیکن عوام پر رقت طاری نہیں ہوتی، وہ ظلم کی داستانیں سن سن کر ہنستے ہیں، اس کا کوئی اثر نہیں لیتے، اب تو ٹریجڈی بھی کامیڈی لگتی ہے۔
دم بدم بدلتی صورتحال کے مطابق اب بجٹ عوام دوست بن چکا ہے، اس سے برے حالات پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں آئے، ایسے حالات میں اس سے بہتر بجٹ تیار ہی نہیں ہو سکتا۔ اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وزیراعظم نے بذات خود ابہام ختم کرتے ہوئے بتایا کہ ہم نے یہ بجٹ آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر بنایا ہے، اب ان کی جانب سے خوشخبری کا انتظار ہے۔
خفیہ طور پر حکومت کی اتحادی اور اعلانیہ طور پر حکومت مخالف ایک اور جماعت کے سربراہ بھی میدان میں نظر آئے ۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ ملک کی تباہی میں جناب وزیراعظم کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ اس بیان سے واضع ہوتا ہے کہ بدلتے موسم کے ساتھ اب ان کے بیانات بھی بدلے بدلے نظر آئیں گے۔ غیر مرئی ہاتھوں نے گھی کیسے نکالا، سیدھی انگلی سے یا ٹیڑھی انگلی سے اس کا اندازہ بخوبی کیا جا سکتا ہے۔
جب سے میاں بیوی راضی ہوئے ہیں، قاضی کی فکر میں اضافہ ہو گیا ہے، میاں بیوی نے قاضی کے نخرے اٹھانے چھوڑ دیئے ہیں، شاید اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کبھی سنتے تھے قاضی آ رہا ہے، اب سنتے ہیں قاضی جا رہا ہے، قاضی آئے یا جائے اس سے زیادہ فرق نہیں پڑے گا، کیونکہ قاضی اول تو قاضی ہوتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ وہ قاضی الاقضا کا اختیار ساتھ لی کر رخصت نہیں ہوتا بلکہ یہ اختیار رخصت ہونے سے قبل استعمال کر کے جاتا ہے۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے نئے عشق معشوقی ایڈیشن کے مارکیٹ میں آنے کے بعد دونوں سیاسی جماعتوں کو اس کا نقصان ہو گا جبکہ اس کا فائدہ تیسری قوت کو ہو گا۔ یاد رہے اسٹیبلشمنٹ اب تیسری قوت نہیں، وہ چوتھی قوت ہے، تیسری قوت وہ ہے جیسے چوتھی قوت نے اپنی پوزیشن بطور تحفہ دی تھی۔ چوتھی قوت کی سوچ بدل چکی ہے، وہ تیسری قوت کو دیا گیا تحفہ واپس لینا چاہتی ہے، جبکہ تیسری قوت اسے باور کرانے کی کوششیں کر رہی ہے کہ محبت میں دیئے گئے تحفے واپس نہیں کئے جاتے۔
پیپلز پارٹی کے نصف درجن رہنما مختلف کمیٹیوں کے سربراہ بن گئے ہیں۔ شراکت اقتدار کی پہلی منزل یہی ہے، اب بجٹ کے بعد عوام کا موڈ دیکھتے ہوئے وہ فیصلہ کریں گے کہ مرکز کے ساتھ ساتھ صوبہ پنجاب میں کب اور کون سی وزارتیں حق خدمت کے طور پر ہتھیا کر ملک کے پسے ہوئے عوام کی خدمت کیسے کرنی ہے، بجٹ پاس ہونے کے بعد ان کی امنگوں کا خون ہو جائے گا، جن کا خیال تھا کہ بجٹ پاس نہیں ہو گا اور حکومت گھر چلی جائے گی، ایسا نہیں ہو گا، مثل مشہور ہے جیسے دور جدید کے تقاضوں کے مطابق پیش کیا جا رہا ہے، جو پتلونیں سلواتے ہیں وہ اس میں سامنے کی طرف ’’ زپ‘‘ لگوانا نہیں بھولتے۔ ’’ زپ‘‘ کو ضرورت کے مطابق سہولت سے کھولا اور بند کیا جا سکتا ہے اور ضرورت پوری کی جا سکتی ہے۔ پس جنہوں نے اس برس ماہ فروری میں نئی سیاسی پتلون سلوائی تھی انہوں نے ’’ زپ‘‘ لگوائی ہے۔ کچھ ماہرین سیاست کا کہنا ہے اس مرتبہ سیاسی پتلون میں آگے اور پیچھے دونوں طرف ’’ زپ‘‘ لگوا لی گئی ہے، اس سے کیا کام لینا ہے شاید 2026ء کے ماہ ستمبر میں واضع ہو گا۔
بجٹ ہونے سے زیادہ بڑی خوشخبری یہ ہے کہ ’’ نک دا کوکا‘‘ پہلے ایک نتھنے میں تھا۔ بتایا گیا کہ دوسرے نتھنے میں بھی ڈلوا لیا جائے تو حساب برابر ہو جائے گا۔ ’’ نک دا کوکا‘‘ کے بعد اب ’’ کن دا والا‘‘ آنے والا ہے، پس ضروری ہے بروقت کان چھدوا لئے جائیں، ایسا نہ ہو یہ پہلے کسی اور کان کی زینت بن جائے۔ ہر فیصلے سے تیسری قوت کی قوت میں اضافہ ہو رہا ہے، دستک پر کان دھریں۔





