CM RizwanColumn

ونڈر فل بے غیرتی اور سی پیک

سی ایم رضوان
یہ کہہ کر کہ نرم ریاست میں کوئی بیرونی ملک اعتماد کے ساتھ سرمایہ کاری نہیں کرتا وزیر اعظم شہباز شریف نے ملک میں دہشتگردی کے خلاف آپریشن عزم استحکام کی منظوری دے دی ہے۔ مقام شکر کہ وزیراعظم شہباز شریف کو بھی صحیح طریقہ سے حکومت کرنے کی اجازت یا جرات نصیب ہوئی ہے۔ اب تو خیر سے وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ سکیورٹی کی ذمہ داری فوج پر ڈال کر صوبائی حکومتیں بری الذمہ نہیں ہو سکتیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب پی ٹی آئی سمیت کئی کھلنڈرے عناصر اس مجوزہ آپریشن کی مخالفت میں سامنے آ گئے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک بظاہر سنجیدہ سیاسی قائد مولانا فضل الرحمٰن بھی اس آپریشن کو عزم استحکام نہیں عدم استحکام کا نام دے کر یہ پیشکش کر رہے ہیں کہ وہ طالبان کو دہشت گردی سے روکنے کے لئے خود ان سے مذاکرات پر آمادہ ہیں حالانکہ وہ آٹھ فروری کے انتخابات سے قبل یہ شوق پورا کر چکے ہیں مگر ان کی افغانستان میں جا کر یہ مساعی سرانجام دینا کوئی مثبت ثمرات نہیں لا سکا۔ بہرحال ہفتے کے روز وزیراعظم کی زیرِ صدارت نیشنل ایکشن پلان پر مرکزی ایپکس کمیٹی کے اجلاس کے اعلامیے کے مطابق واضح کر دیا گیا کہ پاکستان کی بقا کے لئے شدت پسندی اور دہشتگردی کے خلاف جنگ ناگزیر ہے۔ کسی کو بھی ریاستی رٹ چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ خیال رہے کہ ایک روز قبل جمعہ کو دارالحکومت اسلام آباد میں ’ پاک چین مشاورتی میکانزم‘ نامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چینی وزیر لیو جیان چائو نے پاکستان میں چینی سرمایہ کاری کو اندرونی استحکام اور بہتر سکیورٹی سے مشروط قرار دیا تھا۔ اس مطالبے کے فوراً بعد پاکستان میں سیاسی ہلچل پیدا ہوئی۔ پھر ہفتے کو نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کے مذکورہ اجلاس کے دوران وزیراعظم نے آپریشن عزم استحکام کا اعلان کیا۔ اجلاس کے اعلامیے میں نہ صرف چینی شہریوں کی سکیورٹی کے حوالے سے ایس او پیز وضع کرنے کی بات کی گئی بلکہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ایک نئے فوجی آپریشن ’ عزمِ استحکام‘ کا بھی اعلان کیا گیا۔
امن کو اہمیت نہ دے کر محض زبانی کلامی بال کی کھال اتارنے والے بعض ناہنجار عناصر کی جانب سے اب یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ جی ’ ہمالیہ سے اونچی‘ دوستی کے باوجود چین نے پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے یہاں اندرونی استحکام کا مطالبہ کیوں کیا اور کیا یہ اب بھی پاکستان میں مزید سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھتا ہے؟ یہ جانتے ہوئے بھی کہ پاکستان اور چین کے درمیان معاہدوں سے ملک اور خطے میں ترقی کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ یہ ٹھیک ہے کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی کے اس اہم رکن اور وزیر لیو جیان نے پاکستان کی تمام سیاسی قیادت کے سامنے یہ واضح کیا تھا کہ سرمایہ کاری کے لئے سکیورٹی کی صورتحال کو بہتر بنانا ہو گا کیونکہ بہتر سکیورٹی سے تاجر پاکستان میں سرمایہ کاری کریں گے۔ پاکستان کے سیاسی حالات پر تبصرہ کیے بغیر چینی وزیر نے کہا کہ اداروں اور سیاسی جماعتوں کو مل کر چلنا ہو گا۔ چینی وزیر نے کہا کہ سی پیک سے متعلق سکیورٹی خطرات بڑی رکاوٹیں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ لوگ اکثر یہ کہتے ہیں کہ اعتماد سونے سے بھی زیادہ قیمتی شے ہے۔ پاکستان کے معاملے میں بنیادی طور پر سکیورٹی صورتحال ایسی شے ہے جو چینی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچا رہی ہے۔ ہمیں اس صورتحال کو بہت سنجیدگی سے لینا ہو گا اور سی پیک فرینڈلی میڈیا انوائرمنٹ یقینی بنانا ہو گا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ پاکستان کے وسیع تر مفاد میں نہیں کہ یہاں امن ہو پالیسیوں کو تادیر چلنے کا ماحول میسر ہو اور ملک ترقی کرے نہ کہ آئے روز تبدیلیاں کر کے معیشت تباہ کر لی جائے۔ میڈیا پر انقلاب کے نام پر ونڈر فل بے غیرتی کر کے سی پیک سمیت دیگر منصوبوں کو چلنے ہی نہ دیا جائے۔ تاہم خیال رہے کہ اسی اجلاس میں اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے جمعیت علمائے اسلام ف کے رہنما مولانا فضل الرحمان اور پی ٹی آئی کی جانب سے بیرسٹر علی ظفر اور رف حسن بھی موجود تھے۔ ان تینوں شخصیات نے اس موقع پر کسی قسم کی اختلافی بات نہیں کی جو کہ خوش آئند ہے جبکہ بعد ازاں سی پیک کے معاملات کو لے کر یہ کہا جا رہا ہے کہ سرمایہ کاری کے حوالے سے پاکستان اور چین کے موقف میں تضاد ہے۔ ان کا یہ بھی موقف ہے کہ پاکستان کہتا ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری آئے گی جبکہ چین کہتا ہے کہ اپنا گھر درست کرو۔ لہٰذا اب وہ سرمایہ کاری میں دلچسپی نہیں لے رہا۔ ان تنقید نگاروں کے مطابق چین چاہتا ہے کہ اسے اب قرضے واپس ملیں جبکہ پاکستان اس طرح اپنا موقف پیش کر رہا ہے کہ جیسے چینی قطار میں لگ کر بس سرمایہ کاری کا ہی انتظار کر رہے ہیں۔ اب اگر یہ صرف حکومت کی جانب سے بیان بازی ہوتی تو یہ سمجھا جا سکتا تھا کہ حکومت ڈنگ ٹپائو پالیسی کے تحت یہ سب کر رہی ہے اور اس کو بھی مزید امداد ملنے یا سی پیک کے دوبارہ فعال یا تیز ہونے کی امید نہیں لیکِن حکومت نے تو فوری اقدامات اٹھائے اس یقین کے ساتھ کہ سی پیک کا فعال اور تیز ہونا اتنا ہی یقینی ہے جتنا کہ صبح سورج کے طلوع ہونے کا یقین ہوتا ہے تبھی تو چینی وزیر کے خطاب کے بعد وزارت داخلہ کی طرف سے بھی ایک اعلامیہ جاری ہوا تھا جس کے مطابق وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کی زیر صدارت سکیورٹی امور کے حوالے سے اجلاس میں چینی شہریوں کی حفاظت کے لئے کیے جانے والے اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔ وزارتِ داخلہ کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق اجلاس میں متعلقہ اداروں کی جانب سے سکیورٹی پلان اور مجموعی صورتحال پر بریفنگ دی گئی جبکہ اجلاس میں ملک میں سکیورٹی کی مجموعی صورتحال پر بھی غور کیا گیا۔ واضح رہے کہ چینی وزیر لیو جیان چائو نے وزیراعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے بھی ملاقاتیں کی تھیں۔ ان ملاقاتوں کے فوراً بعد وزیراعظم کی صدارت میں نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی کا اجلاس طلب کیا گیا، جس میں دہشتگردی کے خاتمے کے لئے آپریشن عزم استحکام شروع کرنے کی منظوری دی گئی۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ملک کی پائیدار ترقی کے لئے استحکام اور قانون کی حکمرانی ضروری ہے۔ ریاست کی عملداری کو نافذ کرنا میری اور ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ توقع ہے کہ تمام صوبے دہشتگردی کے خلاف بھرپور حصہ ڈالیں گے۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ کے لئے ہماری سیاسی اور مذہبی قیادت کا پوری طرح واضح ہونا ضروری ہے۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ افواج دہشتگردی کے خلاف جو جنگ کر رہی ہیں اس کے اخراجات وفاق اٹھاتا ہے۔ فوج کی ضروریات پوری کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔ دورہ چین کے حوالے سے مبینہ منفی مہم جیسی ونڈر فل بے غیرتی پر شہباز شریف کا کہنا تھا کہ قومی بیانیے کو داغدار بنانے کی مہم کو ناکام بنانا ہو گا، پاکستان کے دشمنوں نے سوشل سپیس کو زہر آلود کر رکھا ہے۔ دورہ چین کے موقع پر بھی منفی مہم چلائی گئی۔ ہمیں ایسے قوانین بنانا ہوں گے جو نفرت کی زبان ختم کر سکیں۔ اظہار رائے کا غلط استعمال اور آئین کی دھجیاں اڑانے سے بڑا کوئی جرم نہیں ہو سکتا۔
اب جبکہ چین نے پاکستان میں 26ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے سی پیک کے فیز ون پر تقریباً کام مکمل کر لیا ہے۔ اس میں 60کے قریب منصوبے تھے جن میں زیادہ تر روڈ انفراسٹرکچر اور توانائی کے شعبے سے متعلقہ تھے۔ گزشتہ دس سال میں بدقسمتی سے چینی شہریوں پر حملے ہوئے جن میں چین کا جانی نقصان ہوا۔ اب چین نے یہ طے کر لیا ہے کہ وہیں سرمایہ کاری کریں گے جہاں سکیورٹی صورتحال بہتر ہو گی کیونکہ چینی شہریوں کے تحفظ پر وہ کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ چین نے یہ طے کر لیا ہے کہ فیز ٹو کی طرف اس وقت تک نہیں جانا جب تک یہ دونوں چیزیں بہتر نہیں ہوں گی۔ یہ طے شدہ ہے کہ چین، پاکستان کے مفادات ایک دوسرے جڑے ہوئے ہیں۔ چین کی طرف سے یہ کہنا معمول کی بات ہے کیونکہ چین یہ بات ایک دوست کی حیثیت سے کہہ رہا ہے۔ دونوں ممالک ایک ہی صفحے پر ہیں۔ چین جب پاکستان میں اپنے شہریوں کے تحفظ کے بارے میں بات کرتا ہے تو وہ بین الاقوامی کمیونٹی کو بھی ایک پیغام دے رہا ہوتا ہے جو اس خطے میں اس کے ساتھ ’ جیو اکنامک‘ اور ’ جیو سٹریٹجک‘ دوڑ میں شامل ہے۔ چین ان ممالک کو بھی پیغام دے رہا ہوتا ہے کہ ہمیں معلوم ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ یہ وہ چینی تحفظات ہیں جو وہ عرصہ دراز سے پاکستان سے شیئر کرتے آئے ہیں۔ پاکستان بھی یہ یقین دہانی کراتا آیا ہے کہ وہ یہ تحفظات دور کریں گے۔ یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ چین کا طریقہ کار یہ ہے کہ جو وہ بتاتے ہیں پھر ساتھ ساتھ مسائل حل بھی کرنے ہوتے ہیں۔ جس طرح پاکستان نے معاشی مشکلات کا ذکر کیا تو چین اس بات کو سمجھ گیا مگر جو بھی کرنا ہے چین کو درست درست بتانا ہوتا ہے۔ یہ تاثر بالکل درست نہیں ہے کہ چین اب پاکستان سے تعلقات کو اہمیت نہیں دیتا بلکہ چین صرف یہ کہتا ہے کہ نت نئے تجربات نہ کریں بلکہ نظام کو تسلسل سے چلنے دیں۔

جواب دیں

Back to top button