اسلامی نظام اور مال و دولت کا حصول

امتیاز عاصی
اسلام کے نام پر قائم ہونے والی مملکت کے سیاست دانوں کا مطمع نظر اسلامی نظام کے نفاذ کی بجائے مال و دولت کا حصول رہاہے۔ سیاسی جماعتوں کے رہنما ملک اور دین سے مخلص ہوتے تو مملکت خداداد صحیح معنوں میں ایک اسلامی ریاست بنا سکتے تھے۔ قیام پاکستان سے اب تک سیاست دانوں نے عوام سے اسلام کے نام پر ووٹ حاصل کئے اقتدار میں آنے کے بعد وہ اللہ اور اس کے رسول ٔ کے نظام کی بجائے یہود و ہوز کے پیروکار بن گئے۔ مملکت میں اسلامی نظام رائج ہوتا تو ہمارا ملک مقروض نہیں ہو سکتا تھا دنیا کا کوئی مالیاتی ادارہ نہیں جس کا ہمارا ملک مقروض نہ ہو۔ جناب رسالت مآبؐ کے وصال کے بعد خلفائے راشدین کا دور آیا تو انہوںنے حق تعالیٰ اور نبی آخرالزمانؐ کے بتلائے ہوئے راستے پر اسلامی ریاست کا نظام چلا کر دنیا پر حکمرانی کی آج مسلمان دنیا میں اکثریت کے باوجود اسلام دشمن قوتوں کے زیر نگیں ہیں جس کی اہم وجہ امہ نے قرآنی تعلیمات کو چھوڑ کر غیر اللہ کا راستہ اختیار کر لیا ہے۔ مملکت کے وجود میں آنے کے بعد ماسوائے جنرل ضیاء الحق کے جنہوں نے اپنے دور میں چند اسلامی قوانین کا احیاء کیا قصاص ودیت قوانین انہی کے دور میں نافذ کئے گئے جو ابھی تک نافذ العمل ہیں۔ کئی عشرے پہلے طاقت ور حلقوں کی آشیر باد سے وجود میں آنے والی آئی جے آئی جسے اسلامی جمہوری اتحاد سے منسوب کیا گیا کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا مقصد ملک میں شریعت کا نفاذ تھا۔ عوام نے پیپلز پارٹی کی مقابلے میں آئی جے آئی کو ووٹ دے کر اکثریت دلائی جس کے بعد نواز شریف کو وزیراعظم بنایا گیا۔ ان دنوں جماعت اسلامی کے امیر مرحوم قاضی حسین احمد آئی جے آئی میں بڑے سرگرم تھے انہیں امید تھی نواز شریف اپنے وعدے کے مطابق ملک میں شریعت کا نفاذ کریں گے۔ قاضی صاحب کو اس وقت مایوسی ہوئی جب وہ پروفیسر غفور کے ہمراہ وزیراعظم نواز شریف سے ملنے گے۔ قاضی صاحب نے نواز شریف کو نفاذ شریعت کے وعدے کی یاد دلائی تو نواز شریف نے جوابا کہا قاضی صاحب آپ کو کوئی ذاتی کام ہے تو بتائیں۔ پروفیسر غفور صاحب سے وزیراعظم نے کہا آپ کو کراچی میں کوئی پلاٹ چاہیے تو بتائیں۔ نواز شریف کا جواب سن کر دونوں رہنما حیرت زدہ رہ گئے وہ کس کام کے لئے آئے تھے اور انہیں جواب کیسا ملا ہے۔ دراصل سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کی سیاست کا محور لوٹ مار سے اثاثے بنانے کے سوا کچھ نہیں کئی بار اقتدار میں آنے کے باوجود مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے کچھ کرنے سے قاصر رہیں۔ جماعت اسلامی اور جے یو آئی نے اسلامی نظام کے لئے جدوجہد ضرور کی تاہم جے یو آئی مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے دور میں شریک اقتدار رہتے ہوئے اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے جدوجہد نہیں کی۔ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا دعویٰ ہے اگر انہیں اقتدار مل گیا تو وہ ملک میں اسلامی نظام رائج کریں گے۔ درحقیقت مذہبی جماعتیں اخلاص سے اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے کوشش کرتی تو یہ بات یقینی تھی کم از کم کچھ نہ کچھ اسلامی قوانین کا نفاذ ممکن تھا لیکن بعض طالع آزمائوں نے اسلامی قوانین پر ذاتی مفادات کو ترجیح دے کر اسلام کے نام پر قائم ہونے والی مملکت کا شیرازہ بکھیر دیا جس کے نتیجہ میں سات عشروں سے زیادہ وقت گزرنے کے باوجود ہم اسلامی قوانین کے نفاذ میں ناکام ہیں۔1985 سے پہلے ملک کا نظام کسی حد تک بہتر تھا سیاست دانوں میں ملک و دولت کی ہوس اس حد تک نہیں تھی جیسا کہ آج کل ہے۔ دراصل کرپشن کا آغاز اسی کے عشرے میں شروع ہوا سیاست دانوں اور پارٹی ورکرز میں پلاٹوں کی بندر بانٹ اور میگا پراجیکٹس سے مال و دولت بنانے کا رواج اسی دور میں پڑ تھا۔ باوجود اس کے مسلم لیگ نو ن پیپلز پارٹی کے ساتھ پاور شیئرنگ فارمولے پر رضا مند ہو گئی ہے تاہم اس کی کامیابی کے بہت کم امکانات ہیں۔ توجہ طلب پہلو یہ ہے جنرل ضیاء الحق اور نواز شریف کے دور میں ذرائع ابلاغ پر کنٹرول کرنے کی خاطر اخبارات سے منسلک لوگوں کو پلاٹ
دے کر نوازا گیا کسی طریقہ سے اپنے اقتدار کو طوالت دی جا سکے۔ مارشل لاء کا عرصہ نکال دیں تو ملک پر دو جماعتوں نے طویل عرصے تک حکمرانی کی جس میں دونوں جماعتوں نے غریب عوام کو سوائے لولی ماپ کے کچھ نہیں دیا۔ ریاست پاکستان میں کسی آیت اللہ خمینی کی ضرورت ہے جو لوٹ مار کرنے والوں کو چوراہوں پر پھانسی دے۔ عجیب تماشا ہے ہر دور میں احتساب کے ادارے بنائے گئے کرپشن کرنے والوں کو کڑی سزائیں ملتی تو مملکت سے کرپشن کا خاتمہ ممکن تھا۔ یہاں تو احتساب کے ادارے مخالفین کو زچ کرنے کے لئے بنائے گئے کتنے سیاست دانوں کے خلاف مبینہ کرپشن کے مقدمات بنائے گئے۔ کرپشن مقدمات برسوں سے التواء میں پڑئے ہیں ۔ بڑے ملزمان کو ضمانت پر رہائی دے دی گئی مقدمات جوں کے توں رہے۔ کوئی ہے جو عدالتوں سے پوچھ سکے برسوں گزرنے کے باوجود مقدمات کے فیصلے کیوں نہیں ہوتے؟۔ عدالتی نظام اس قدر فرسودہ ہے برسوں مقدمات کے فیصلے نہیں ہوتے۔ سیاست دانوں کے خلاف مبینہ کرپشن کے ثبوت ہونے کے باوجود انہیں ضمانت اور بریت مل جاتی ہے۔ سچ تو یہ ہے سیاسی رہنمائوں کو ملک اور عوام سے کوئی سروکار نہیں انہیں دن رات اپنے اثاثوں میں اضافہ کرنے کی فکر لاحق رہتی ہے۔ مسلم لیگ نون کے ادوار میں بالخصوص اور پیپلز پارٹی کے دور میں بالعموم قومی خزانے کو ذاتی سمجھ کر اس کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ بڑے بڑے منصوبوں کے نام پر میگا کرپشن ہوئی کرپشن کرنے والوں کو اعلیٰ عہدوں سے نوازنا ہمارا رواج بن گیا ہے۔ سیاسی جماعتوں نے ووٹ کے حصول کی خاطر مذہب کو استعمال کیا جس کے نتیجہ میں اتنے سال گزرنے کے باوجود ہم اسلامی نظام سے کوسوں دور ہیں۔ جس روز سیاست دان مال و دولت کے خول سے نکل کر ملک و قوم کے لئے کام کریں گے ہمارا ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے گا ورنہ جس صورت حال سے ہمارا ملک گزر رہا ہے ترقی کی بجائے ہمارا ملک مقروض سے مقروض تر ہوتا جائے گا۔





