Abdul Hanan Raja.Column

ناقص حج انتظامات، ذمہ دار کون!

عبد الحنان راجہ
سعودی حکومت گزشتہ چند سالوں سے سیاحت کے فروغ میں خصوصی دلچسپی لے رہی ہے کہ پٹرولیم کے کم ہوتے ذخائر نے انہیں متبادل حکمت عملی کے اختیار پر مائل بھی کیا اور مجبور بھی خوش بختی یہ کہ اس کے لیے انہیں قدرت نے دو مقدس ترین مقامات بھی عطا کر رکھے ہیں۔ شہزادہ محمد بن سلمان کے ویژن 2030کے مطابق وہ اس شعبہ کی پٹرولیم پر برتری چاہتے ہیں اب سالانہ جی ڈی پی میں زائرین کا حصہ نصف کے لگ بھگ پہنچ چکا ہے یہی وجہ ہے کہ سعودی گزٹ رپورٹ کے مطابق سال 2023میں 2کروڑ 68لاکھ سے زائد افراد نے عمرہ ادائیگی کے لیے سعودی عرب کا رخ کیا، جبکہ حج سیزن کا ریونیو اس سے سوا۔ گو کہ سعودی حکومت سیاحوں اور عمرہ زائرین کو ہر ممکن سہولت دینے کی کوششیں کرتی ہے مگر حج کا معاملہ الگ کہ ایک ہی وقت میں 18سے بیس لاکھ افراد کی مہمان نوازی ایک مشکل امر۔ جس کی مثال اس سال حاجیوں کی طرف سے بے پناہ شکایات کی صورت میں سامنے ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہیں ہو گا کہ بدانتظامی اور نااہلی صرف پاکستانی محکمہ جات کی ہی میراث ہے۔ بدانتظامی کہیں بھی اور کسی بھی وقت ممکن ہو سکتی ہے۔ امسال منی میں پاکستانی حجاج کرام حتی کہ پرائیویٹ ٹور آپریٹرز سے بھاری بھرکم پیکیج پر جانے والے بھی خوار ہوتے رہے۔ سرکاری سکیم کے تحت جانے والوں کی تو داستان ہی الگ مگر اس کے باوجود بعض کی جانب سے پاکستانی و سعودی حکومت کے اعلی انتظام کے گن گانا یقیناً حجاج کرام کے ساتھ ناانصافی ہے۔ اس بار جو کچھ اور جتنا کچھ منی میں اللہ کے مہمانوں کے ساتھ ہوا اس پر یقینا سعودی وزارت حج اور سعودی حکومت بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہو گی۔ پاکستان کی بڑی اکثریت اسی وجہ سے سرکاری طور پر حج سے گریز کرتی ہے کہ وہاں ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا مگر اس بار تو پرائیوٹ ٹور آپریٹرز کے اے اور بی کیٹگری کے زائرین بھی خوار ہوتے پائے گئے۔ کہا جا سکتا ہے کہ اس سال جن زائرین کو حج بسہولت نصیب ہوا اسے ان کی قسمت کی یاوری قرار مگر جن کا سفر منی و مزدلفہ مشکلات کا شکار رہا اسے حج کی قبولیت پر محمول کر کے ان کے دلوں پر مرہم رکھی جا سکتی ہے۔ کہ حج ہے ہی مشکلات سے مشروط۔ مگر اس بار کوتاہی اور غیر ذمہ داری صرف آپریٹرز کی حد تک ہی محدود نہ تھی بلکہ ہر بار کی طرح پاکستانی وزارت مذہبی امور بھی اس میں پیش پیش۔ جبکہ سعودی وزارت حج بھی کہیں نہ کہیں حصہ دار۔ منی میں اموات پر سعودی حکومت کی وضاحت تو آ چکی مگر اتنی زیادہ اموات پر یہ وضاحت کافی نہیں دوسری طرف جو زائرین باقاعدہ حج ویزا پر وہاں موجود تھے انکے ساتھ جو ہوا بالخصوص منی میں انہیں جن مشکلات کا سامنا رہا، اس کا ازالہ وضاحتوں یا پریس ریلیز سے تو ہو گا نہیں کہ ایک ایک خیمہ میں کئی سو حجاج اور ٹرانسپورٹ کی بھی عدم دستیابی کہ بزرگ تو بزرگ تندرست و توانا اور بالخصوص خواتین گرم ترین موسم میں میلوں پیدل چل کر نڈھال، اسی سے بچنے کے لیے ہی تو انہوں نے ٹور آپریٹرز کو بھاری بھرکم ادائیگی کی تھی اس کا جواب دینے میں کمپنی کے نمائندگان بھی بے بس نظر آئے ۔ اس ضمن میں جب ریاض الحرمین کے نمائندہ سے بات ہوئی تو وہ سعودی وزارت حج کے ناقص انتظامات پر برہم تھے کہ معاہدہ کے باوجود ہمیں سہولیات فراہم نہ کی گئیں۔ ایک زائر نے بتایا کہ وہ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ منی جانے کے لیے پہلے ٹرانسپورٹ کا گھنٹوں انتظار کرتے رہے بعد ازاں انہیں بچوں سمیت منی کے لیے روانہ ہونا پڑا اور قبل از غروب نڈھال اور تھکے منی پہنچ کر بمشکل اپنا حج بچایا۔ یہ حالات یقیناً سعودی حکومت کے لیے بھی پریشان کن ہی ہوں گے مگر پاکستانی وزارت مذہبی امور کو بھی اس کا نوٹس اور معاملات کو سعودی حکام کے سامنے رکھنا ہو گا تا کہ مستقبل میں ایسے حادثات اور کوتاہیوں سے بچا جا سکے، مگر کیا موجودہ حکومت کی اہلیت اور جرات اتنی ہے کہ وہ حجاج کرام کے معاملات کو سعودی حکام کے سامنے اٹھا سکیں۔ بدعنوانی کی دلدل میں لتھڑی حکومتیں اور مقروض اقوام سے ایسی جرات کی توقع نہیں۔ لگتا یوں ہے کہ ان مسائل کو مملکت سعودیہ کو خود ہی دیکھنا ہو گا کہ لاکھوں زائرین کو نجی کمپنیوں کے رحم و کرم پر ہی کیوں چھوڑا گیا۔ حالانکہ امسال گزشتہ کی نسبت حجاج کی تعداد کم رہی مگر اس کے باوجود انتظامات کا اعلیٰ نہ ہونا ایک سوالیہ نشان ہے۔ پرائیویٹ آپریٹرز اور حج انتظامات پر نظر رکھنے والوں کے مطابق جب سے معلمین کی جگہ پرائیویٹ کمپنیوں نے لی انتظام بہتر سے بہترین ہونے کی بجائے ناقص ہوتے جا رہے ہیں۔ اب کی بار جو عمومی شکایات سامنے آئیں ان کے مطابق بدانتظامی سے بڑا مسئلہ یہ رہا کہ کوئی ملکی یا سعودی مندوب متاثرین بات تک سننے کے لیے موجود نہ تھا۔ ان سب معاملات میں حجاج پس کر رہ گئے۔ سہولت کے ساتھ حج کیا کرنا تھا اس کھینچا تانی اور بدنظمی میں خشوع و خضوع بھی نصیب نہ ہوا جبکہ سفر حرمین میں ہر زائر کی یہی طلب اور تڑپ ہوتی ہے.پاکستانی وزارت حج کے اہل کار جو حجاج کی خدمت پر مامور ان کی اکثریت ہر سال کی طرح اس سال بھی پاکستانیوں کے مسائل سے لاتعلق رہی یا تو وہ خود حج کی ادائیگی میں مصروف رہے یا وی آئی پیز پروٹوکول میں۔ ایک خیمہ میں چالیس افراد کی گنجائش کے معاہدہ جات کی سرعام دھجیاں اڑائی جاتی رہیں حد گنجائش کا لحاظ رکھا گیا اور نہ حجاج کو وہ سہولیات فراہم کی جا سکیں جن کا وعدہ تھا۔ مگر اس سارے کا ملبہ سعودی وزارت پر ڈالنا کسی بھی طور مناسب نہیں کہ پاکستانی نمائندگان نے قبل از وقت سارے معاملات کو کیوں نہ دیکھا، کیوں سارے انتظامات پرائیویٹ کمپنییز کے رحم و کرم پر چھوڑ کر خود لاتعلق ہو کر بیٹھ رہے۔ کیوں قبل از وقت سعودی وزارت حج کو ناقص انتظامات بارے آگاہ نہیں کیا گیا، یہ ممکن ہی نہیں کہ سعودی حکام کو شکایات بروقت پہنچائی جاتیں تو وہ اس کے ازالے کی تدبیر نہ کرتی، مگر یہ سب اب لکیر پیٹنے کے ہی مترادف کہ حجاج کے ساتھ جو ہونا تھا وہ ہو چکا مگر اس کا ازالہ ممکن ہے کہ اس کے ذمہ داران کا تعین کیا جائے اور انکے خلاف تادیبی کارروائی تا کہ آئندہ کسی کو زائرین کے ساتھ ایسی بدسلوکی کی جرات نہ ہو۔

جواب دیں

Back to top button