کون کتنے فیصد کا حصہ دار ہے

تجمل حسین ہاشمی
دس بڑے ایسے شعبوں کی تفصیلات سامنے آئی ہیں جو سب سے زیادہ انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ گزشتہ سال کے اعدادوشمار کے مطابق تنخواہ دار طبقے نے مالی سال کے اختتام پر مجموعی طور پر 1874ارب روپے میں سے 264ارب روپے ٹیکس دیا۔ تنخواہ دار طبقے سے زیادہ تین بڑوں شعبے جن میں کنٹریکٹرز نے 390ارب روپے ، بینکوں میں پیسے جمع کرا کر منافع وصول کرنے والوں نے 320ارب روپے اور امپورٹرز نے 290ارب روپے ٹیکس دیا۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق انڈسٹری کا جی ڈی پی میں حصہ 21فیصد ہے جبکہ اس کا ٹیکس میں حصہ 69فیصد ہے۔ لیکن انڈسٹری بجلی کے مہنگے پراجیکٹ سے مشکلات میں ہے۔ گیس کے حوالے سے کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے۔ ہمارے ہاں کچھ ایسے شعبہ جات بھی ہیں جن کی طرف سے حکومت کو وصول شدہ ٹیکس تنخواہ دار طبقے سے بہت کم ہے، مثلا ایکسپورٹرز نے تنخواہ دار طبقے کے مقابلے میں بہت کم ٹیکس ادا کیا جو کہ صرف 73ارب روپے تھا۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق زراعت کا جی ڈی پی میں حصہ 19فیصد اور اس کی طرف سے ٹیکس کا حصہ تقریباً ایک فیصد ہے۔ خدمات کا شعبہ جس میں ڈاکٹر اور خدمات کے دیگر شعبوں کے علاوہ ریٹیل سیکٹر یعنی دکاندار اور تاجر بھی شامل ہیں ، ان کا جی ڈی پی میں حصہ 60فیصد ہے تاہم ٹیکس میں حصہ صرف 29فیصد تک ہے۔ گزشتہ دس، بارہ سالوں میں سب سے زیادہ ٹیکس ادا یا بوجھ اٹھانے والا تنخواہ دار طبقہ ہے۔ اس دفعہ ٹیکس میں اضافے سے یہ طبقہ تقریبا 330ارب کے ٹیکس ادا کرے گا ۔ جو دوسرے شعبوں سے کہیں زیادہ ہیں۔ پاکستان زرعی ملک ہے اور زراعت کے شعبے میں ٹیکس کی وصولی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ماضی کی حکومتیں ٹیکس ریفارمز کیلئے کوشش کر چکی ہیں لیکن ان کو صرف ایک خوف، خوف زدہ کرتا ہے کہیں ووٹر ناراض نہ ہو جائے۔ پی ڈی ایم کی حکومت میں شاپ ریٹیلر پر ٹیکس لگانے کے فیصلے کو واپس لینا پڑا۔ حکمران رہنمائوں اور بیوروکریٹس سے متعلق عوامی رائے بہتر نہیں ہے۔ عوام یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ٹیکس کے پیسے کو یہ اپنے ذاتی مفادات کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ عوامی خدمات کی کوئی پروا نہیں ہے۔ عوام کو حکومتی پالیسی پر یقین نہیں رہا جس کی وجہ سے ٹیکس وصولی میں کمی کا سامنا رہتا ہے۔ حکومت پر اعتماد ہی وصولی کو بڑھا سکے گا۔ زرعی شعبہ میں ابھی تک کوئی لینڈ ریفارمز نہیں کی گئیں۔ اگر زرعی شعبہ میں ریفارمز کی جاتیں تو آج پاکستان کی معاشی صورتحال بہتر ہوتی لاکھوں ایکڑ زمین بنجر پڑی ہے اس کو قابل کاشت کرنے کے لیے ہمارے پاس وسائل کی کمی ہے۔ حکومت اور ایس آئی ایف سی کی کوششوں سے بہتری کی امید ہے۔ ماضی میں سیاسی جماعتوں کی طرف سے کوئی اقدامات نظر نہیں آئے۔ جمہوری حکمران قرضے سے تعمیر منصوبوں کو اپنی خدمات اور کارنامے کہتے ہیں۔ قرضے لے کر اداروں کی بحالی کرتے رہے اور عوام اس کو ترقی کہتے رہے۔ ملک آہستہ آہستہ طاقتوروں کے کنٹرول میں جاتا گیا۔ ریاست کے پلر کمزور ہوتے رہے۔ ماضی کی حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کے سربراہان نے ایسے فیصلے کئے جس سے قوم اور ملک کی آمدن میں کوئی اضافہ نہیں ہوا بلکہ ان کے اپنے کاروبار نے اربوں کما لیے ہیں۔ ایک سے دس فیکٹریوں کے مالک اور دنیا میں ان کی اولادیں کاروبار کر رہی ہیں لیکن ملک میں ڈالر کی کمی کا سامنا ہے۔ حکمران بس نعرے مارتے رہے اور ایک دوسرے کے خلاف مقدمات قائم کرتے رہی۔ آپس کی سیاسی لڑائیوں نے اعلیٰ اداروں کو بھی موقع دیا کہ جمہوریت کو گھر بھیجیں۔ آج حکومت کے پاس تنخواہ دار طبقہ کا ڈیٹا منظم ہے، باقی کسی شعبہ کا ڈیٹا منظم نہیں ہے۔ اس لیے جب بھی انٹرنیشنل مالیاتی فنڈ کا دبائو ٹیکس وصولی بڑھانے کے حوالے سے آتا ہے تو حکومت کے پاس آسان ہدف صرف یہی ایک طبقہ ہے جس پر حکم نفاذ کر دیا جاتا ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر میں حکومت کی ناکام پالیسیاں ٹیکس وصولی میں رکاوٹ کا باعث ہیں۔ گزشتہ 75سالوں میں کوئی ویژن نظر نہیں آیا۔ صرف ایک عسکری ادارہ ہے جو منظم اور ملک کی بنیادوں کو مضبوط کر رہا ہے۔ دوسرے سول اداروں میں اتنی سکت باقی نہیں رہی کہ وہ اپنے وسائل کو بڑھا سکیں۔ ٹیکس وصولی میں اضافہ کریں۔ سول ادارے کے ملازم کا کہنا تھا کہ ہم بہت بہتر طریقے سے ٹیکس وصول کر سکتے ہیں لیکن ہمارے لیے سیاسی اثر و رسوخ سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ ہر بجٹ میں تنخواہ پر ٹیکس بڑھا دیا جاتا لیکن کبھی ہماری مراعات میں اضافہ نہیں کیا گیا۔ عوام سے ٹیکس وصولی کے لیے باہر جاتے ہیں لیکن حادثات میں کوئی میڈیکل سہولت نہیں ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں علاج تو اچھا ہے لیکن طاقتوروں کے لیے ہے۔ لوگوں کو یقین نہیں کہ ان کا ٹیکس کا پیسہ ان کی سہولت کیلئے خرچ ہو گا۔ ویسے ہر مالی سال پر حکومت بجٹ کے چرچے گنواتی ہے لیکن مارکیٹ کی حقیقت لوگوں کے سامنے ہے جس وجہ سے لوگوں میں ٹیکس دینے کا رجحان نہیں ہے۔ آج بھی سرکاری سکولوں میں کرسیاں اور بچوں کے لیے لیٹرین نہیں۔ تیز ترین ٹیکنالوجی میں جھوٹ اور سچ سب عیاں ہے۔ اس ٹیکنالوجی سے دشمن اور دوست بھی واضح ہیں۔ اگر حکومت اپنے وصولی اہداف حاصل کرنا چاہتی ہے تو اپنے سرکاری اخراجات میں واضح کمی کا علان کرے اور چند ایک اقدامات کا فوری نفاذ کرے ۔ سب سے پہلے حکومت کو ٹیکس دینے والے افراد کے لیے میڈیکل اور نجی سکولوں میں تعلیم فری کرنی چاہئے۔ زراعت میں زیادہ پیداوار اور ٹیکس دینے والوں کے لیے زرعی مراعات کا علان کرنا چاہئے ۔







