سیاسیات

یہ عزمِ استحکام آپریشن نہیں عدمِ استحکام آپریشن ہے جو پاکستان کو مزید کمزور کرے گا: مولانا فضل الرحمان

جمیعت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایپکس کمیٹی کی جانب سے اعلان کیا عزمِ استحکام آپریشن، عدم استحکام آپریشن ہے جو پاکستان کو مزید کمزور کرے گا۔

انھوں نے پریس کانفرنس کے آغاز میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کیا پاکستان ہم نے اس لیے حاصل کیا تھا کہ اس پاکستان میں ہم جرنیلوں کی غلامی کریں گے اور جانوروں کی طرح وہ ہمیں جس طرف ہانکیں گے ہم اسی طرف جائیں اور جو چارہ وہ ہمیں ڈالیں گے وہی ہم قبول کریں گے، کبھی نہیں ہو گا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اس وقت میں ملک میں ریاست کی رٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ صوبہ خیبرپختونخوا ہو یا بلوچستان۔ مسلح تنظیمیں اس وقت کھلے عام تمام علاقوں کو کنٹرول کر رہی ہیں۔ اور انھوں نے اب اعلان کیا ہے کہ یہ عزمِ استحکام آپریشن شروع کریں گے، یہ عدمِ استحکام آپریشن ہے جو پاکستان کو اور کمزور کرے گا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ماضی کے جتنے آپریشن ہوئے ہیں زرا ان کے نتائج تو سامنے رکھیں، آج ہم کہاں کھڑے ہیں، چپے چپے پر ہماری فوج موجود ہے، کیوں بے بس ہو گئی ہے؟

’میری پولیس کیوں بے بس ہو گئی ہے، بلوچستان کے بارے میں تو میں زیادہ نہیں جانتا ہوں گا، لیکن خیبرپختونخوا میں جہاں ہمارے اضلاع ہیں وہاں پولیس سورج غروب ہونے کے بعد اپنے تھانوں میں بند ہو جاتی ہے، اور ان کا کسی بھی روڈ کے ساتھ تعلق ختم ہو جاتا ہے۔‘

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ’تو ملک کو اور کمزور کیوں کیا جا رہا ہے۔ ایپکس کمیٹی نے فیصلہ کر لیا، ایپکس کمیٹی کیا ہے؟ تحصیل کی سطح پر اس میں میجر بیٹھتا ہے، ضلع کی سطح پر اس میں کرنل بیٹھتا ہے، یہ جب ڈویژن کی سطح پر ہوتی ہے تو اس میں بریگیڈیئر بیٹھتا ہے، صوبے کی سطح پر اس میں کور کمانڈر بیٹھتا ہے اور وفاق کی سطح پر اس میں آرمی چیف بیٹھا ہوتا ہے۔

’آپ بتائیں کہ جب کسی اجلاس میں وردی والا موجود ہو گا تو فیصلہ وردی والا کرے گا یا باقی لوگ کریں گے؟‘

انھوں نے کہا کہ ’ذمہ داری ہمارے اوپر ڈالتے ہیں، بڑی خوشی سے شہباز شریف ذمہ داری قبول کرے گا، لیکن شہباز شریف وزیرِ اعظم نہیں ہے۔ بس کرسی پر بیٹھا ہوا ہے ایک آئینی کرسی سنبھالی ہوئی ہے سو وہ اسی پر خوش ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’جمہوریت اور پارلیمان اپنا مقدمہ ہار چکی ہے اور ان کے خلاف مسلح تنظیمیں اور بغاوتیں اپنا مؤقف تسلیم کروا رہی ہیں۔ یہاں تک ہمیں کس نے پہنچایا ہے؟ ان ہی بے اعتدالیوں نے، ہم آئین پر عمل نہیں کریں گے تو آئین ایک میثاقِ ملی ہے اور جب یہ بیچ میں نہیں رہے گا تو عوام کی ریاست کے ساتھ جو معاہدہ ہے اس کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔‘

جواب دیں

Back to top button