قلعہ روہتاس، آثار قدیمہ اور حکومت پنجاب

تحریر : یاور عباس
برصغیر پاک وہند کئی صدیوں سے جنگ و جدال کا مرکز رہا ہے، محمد بن قاسم ، محمود غزنوی، تغلق ، منگولوں ، مغلوں اور انگریزوں نے یہاں پر حکمرانی جنگی کارروائیوں کی بدولت کی۔ شاہی قلعہ لاہور کے بعد پنجاب میں دفاعی اعتبار سے دوسرا بڑا قلعہ روہتاس ہے ، روہتاس ایک تاریخی گیریعن قلعہ ہے جسے بادشاہ فرید خان ( شیر شاہ سوری) نے بنایا تھا، جو پاکستان میں جہلم شہر کے قریب واقع ہے۔ یہ قلعہ تقریباً 4کلومیٹر کے دائرے میں ہے اور برصغیر پاک و ہند میں پشتون اور ہندو فن تعمیر کے کامیاب امتزاج کی پہلی مثال ہے۔ روہتاس قلعہ پاکستان میں سب سے زیادہ متاثر کن تاریخی یادگاروں میں سے ایک ہے جو پاکستان میں پٹھان دور کی طرز تعمیر کی نمائندگی کرتا ہے۔ روہتاس کا قلعہ جہلم کے شمال میں دریائے گھن کے ایک موڑ میں ایک کم چٹانی پہاڑی پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ بہت بڑا قلعہ دریائے کاہان میں گھستے ہوئے کھڑی چٹانوں پر قائم ہے، اس کی فصیل مغرب اور شمال کی طرف دریا اور اس کے مشرق اور جنوب میں اونچی پہاڑیوں سے محفوظ ہے۔ اس پر کبھی حملہ نہیں کیا گیا اور آج تک برقرار ہے۔ اہم قلعہ بندی بڑی بڑی دیواروں پر مشتمل ہے، جو 4کلومیٹر سے زیادہ تک پھیلی ہوئی ہے۔ وہ گڑھوں سے جڑے ہوئے ہیں اور یادگار گیٹ ویز سے چھیدے ہوئے ہیں ۔ شیر شاہ نے قنوج کی جنگ میں شہنشاہ ہمایوں کی ہندوستان واپسی کو روکنے کے لیے قلعہ روہتاس کی تعمیر کی۔ یہ قلعہ شمالی ( آج کل افغانستان اور مغربی پاکستان) کے درمیان پنجاب کے میدانی علاقوں تک پرانی جی ٹی روڈ پر واقع ہے۔ اس نے پشاور سے لاہور کا راستہ بند کر دیا۔ دوسری وجہ اس خطہ پوٹھوہار کے مقامی قبیلے کو دبانا تھا جسے گکھڑ کہا جاتا تھا اور شیر شاہ سوری نے گکھڑوں سے خوفزدہ ہو کر اپنے آپ کو بچانے کے لیے قلعہ بنا لیا تھا اور فوج چڑھائی تھی۔ جو ہمایوں کے حلیف تھے اور انہوں نے شیر شاہ سوری کی بیعت سے انکار کر دیا۔ شہنشاہ نے مقامی جنجوعہ راجپوت قبیلے کو ہدایت کی کہ وہ گکھڑوں کو کچلنے کے لیے قلعہ کی تعمیر میں مدد کریں جب کہ بعد میں تعمیر میں شریک مزدوروں کو کھلے عام منحرف اور اذیت دینے لگے۔ یہ قلعہ ٹوڈر مال نے شیر شاہ کے حکم پر تعمیر کرایا تھا۔
عید کی چھٹیاں اگرچہ ختم ہوچکی ہیں مگر بچوں نے ضد کی کسی تاریخی مقام کی سیر کرائی جائے تو ہم نے گجرات سے قلعہ روہتاس کی جانب سفر کرنے کا ارادہ کیا۔ کوئی سوا گھنٹہ کا سفر طے کرنے کے بعد ہم قلعہ روہتاس پہنچنے ، بچے چونکہ ارطغرل غازی کے بعد عثمان غازی ڈرامہ سیریل دیکھ رہے ہیں تو انہیں بڑا شوق تھا کہ پرانے زمانے میں حکمران کیسے قلعہ بند ہوتے تھے، قلعہ کے مضبوط دروازے ، مضبوط دیواریں ، جیلیں ، پھانسی گھاٹ، رانی محل اور حویلی مان سنگھ دیکھ کر واقعی بچے بڑے محظوظ ہوئے ۔ بچوں کے بہت سارے سوالات کے جوابات دئیے، غروب آفتاب کے مناظر دلکش تھے مگر قلعہ کا بہت سارا حصہ بوسیدہ دیکھ کر حکمرانوں کی عدم توجہی پر افسوس بھی ہوا۔ قلعہ کے بے شمار تعمیرات تو ویسے ہی منہدم ہوچکی ہیں کچھ حصہ پر آباد ی قائم ہوچکی ہے، یقینا انہوںنے بھی اپنی رہائشیں بنانے کے لیے بہت سارے تاریخی حصہ کو مٹا دیا ہوگا اور آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ بہت ساری چیزیں ختم بھی ہوتی رہتی ہیں ۔ حکومت پنجاب کی جانب سے اس قدیمی تاریخی ورثہ کی حفاظت کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہ کیے گئے تو کچھ عرصہ کے بعد شاید ان در و دیواروں کے نشانات ہی باقی رہ جائیں، حکومت پنجاب تھوڑی سی توجہ دے کر اسے ایک بہترین سیاحتی مقام میں تبدیل کر سکتی ہے۔ قلعہ کے بوسیدہ حصوں کی مرمت کے ساتھ ساتھ صفائی ستھرائی کا انتظام ہونا بھی بے حد ضروری ہے، قلعہ کے کسی ایک حصہ میں اگر بچوں کے لیے چھوٹا سا پارک تعمیر کرا دیا جائے، جہاں جھولے وغیرہ بھی لگ جائیں تو لوگوں کی آمدو رفت میں بے پناہ اضافہ ہوسکتا ہے، یوں حکومت کی آمدن میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے اور قلعہ کی تعمیر و مرمت پر آنے والے اخراجات بھی اسی آمدن میں سے نکل سکتے ہیں۔ بہترین کیفے ٹیریا کی بھی ضرورت ہے، جہاں لوگوں کے لیے کھانے پینے کی معیاری چیزیں مل سکیں۔ محکمہ آثار قدیمہ کو قدیمی تاریخی عمارتوں کے تحفظ میں اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ گجرات میں رام پیاری محل، اکبری حمام جبکہ گجرات کے نواحی میں تاریخی قصبہ کنجاہ میں فارسی گو شاعر مولانا محمد اکرم غنیمت کنجاہی کا مزار جو کہ آج بھی ایرانیوں کی توجہ کا مرکز ہے، 754ء میں قائم کردہ راجہ کنجپال کا قلعہ مکمل طور پر منہدم ہوچکا ہے اور اب وہاں ایک سرکاری سکول بن چکا ہے، پختہ تالاب اور کچا تالاب کبھی تاریخی اہمیت کے حامل تھے جو کہ قلعہ سے تالاب تک پہنچنے کے لیے ایک سرنگ بھی استعمال ہوتی تھی سرنگ کا تو اب نام و نشان نہیں پختہ تالاب محکمہ اوقاف نے لیز پر دے رکھا ہے جہاں اب ہفتہ بازار لگایا جاتا ہے۔ کچا تالاب پر بھی لوگوںنے عمارتیں تعمیر کرنا شروع کردی ہیں، روایت ہے کہ کنجاہ میں ایک تاریخی عمارت سنت پورہ ہوتی تھی جو کہ ہندو سنتوں کی قیام گاہ تھی جس کو سردار فیل لیلاوتی ( جو امیک سنگھ کی بیٹی اور سردار نہال سنگھ چھاچھی کی پوتی تھی) نے 1939ء میں تعمیر کرایا تھا اور اس کے ساتھ 40کنال زمین وقف تھی۔ سنت پورہ کی عمارت پر ایک مذہبی جماعت کی درسگاہ بن چکی ہے جبکہ باقی 40کنال پر بھی لوگوںنے تعمیرات کرلی ہیں۔ مزار غنیمت کے سامنے ایک بارہ داری کے آثار اب بھی موجود ہیں۔ محکمہ آثار قدیمہ کو فعال کردار ادا کرتے ہوئے قدیمی تاریخی ورثوں کے تحفظ کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت پنجاب کو بھی چاہیے کہ اپنی شاہ خرچیوں میں سے کچھ پیسے کم کر کے آثار قدیمہ کے تحفظ کے لیے خرچ کریں تاکہ قدیمی عمارتیں محفوظ بھی رہیں اور سیاحوں کو اپنی طرف کھینچنے کا ذریعہ بھی بنتی رہیں۔





