نئے ڈراموں کا انجام

تحریر : سیدہ عنبرین
گھنگھور گھٹائیں گھر کر آ رہی ہوں تو جنگل کے مور محو رقص ہوتے ہیں، کچھ ایسی نئی کیفیت ہمارے بینکر وزیر خزانہ پر طاری ہے جو سخت گرمی کے موسم میں گرما گرم نئے ٹیکس تجویز کر کے خوشخبری سنا رہے ہیں کہ ان کے کئے گئے اقدامات کے سبب پاکستان اقتصادی بحران سے نکل آئے گا۔ ایسا ہو نہ ہو وہ شاید دوسرا بجٹ پیش نہ کر سکیں ، ایسی خوشخبریاں سنتے کئی دہائیاں بیت گئی ہیں، معاملات بدتر سے بدترین ہی ہوئے، قرضوں میں ہر آنے والے برس میں اضافہ ہوا، قرضوں کا سود بڑھتا ہی گیا، کبھی گھٹا نہیں دیکھا گیا۔ اب تو سود کی ادائیگی کیلئے رقم دستیاب نہیں، قرضوں کی ری شیڈولنگ بڑی کامیابی بتائی جا رہی ہے، لیکن قرض مع سود ہی ادا کرنے ہیں، کوئی قرض معاف نہیں ہوا، قرض لینا ایک لعنت ہے، پھر اسے ادا نہ کر پانا اور سود واصل زر دونوں کی میعاد بڑھانے کیلئے منتیں کرنا بھی ذلت کے زمرے میں آتا ہے، یہ کہانی کسی ایک دور حکومت کی نہیں، گزشتہ 50برس سے یہی ہو رہا ہے، روش بدلنے کے آثار بھی نظر نہیں آتے، کیونکہ چہرے تبدیل نہیں ہو رہے لہٰذا نظام بھی تبدیل نہیں ہو رہا، بڑے بھائی کی جگہ چھوٹے بھائی نے لے لی۔ چھوٹے بھائی کی جگہ بیٹی صاحبہ لے لیں اور سمدھی صاحب کی وزارت بدل کر انہیں وزیر سے ڈپٹی وزیراعظم بنا دیا جائے تو اسے تبدیلی کا سفر نہیں تباہی کا سفر کہا جا سکتا ہے۔ یہ راگ بھی پرانا ہوا کہ قوم ٹیکس نہیں دیتی۔ حقیقت یہ ہے کہ قوم ٹیکس در ٹیکس دیتی ہے بدل میں اسے کچھ نہیں دیا جاتا۔
سرکاری ہسپتالوں میں علاج نہیں دوا نہیں، سرکاری سکولوں میں معیاری تعلیم نہیں، عام شہری کو زندگی کا تحفظ حاصل نہیں، پینے کا صاف پانی اور ملاوٹ سے پاک غذا تو عرصہ ہوا خواب ہو چکے ہیں، پرائیویٹ ہسپتالوں سے مہنگا ترین علاج کرائیں، پرائیویٹ سکولوں میں بچے پڑھائیں، اپنی حفاظت کیلئے پرائیویٹ سکیورٹی گارڈ رکھیں، خود اناج اگائیں اور جانور پالیں تو خالص خوراک مل سکتی ہے ورنہ نہیں۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی نے دوران اجلاس اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے بتایا کہ 78ہزار ارب روپے کا قرض سر پر ہے، 7ہزار ارب روپے اپنے بینکوں کا دینا ہے، عام آدمی کے سر پر نئے ٹیکسوں کی تلوار لٹکا دی گئی ہے۔ مصطفیٰ کمال نے تجویز پیش کی کہ سیاستدان اور حاضر سروس و ریٹائرڈ عسکری شخصیات مل کر اپنی جائیدادوں کا 25فیصد قومی قرضے اتارے کیلئے ملک کو دے دیں اور کئی ہزار ارب روپے میں سے صرف ایک ہزار ارب روپے جذبہ خیرسگالی کے طور پر جمع کرا دیں تو قوم میں ٹیکس دینے کا رجحان پیدا ہو گا۔ معزز رکن قومی اسمبلی نے صرف 2طبقات سے چندہ دینے کی اپیل کی ہے۔ وہ اس کارخیر کیلئے کالے جبے، کالے کوٹ اور کالے کیمرے کو بھی اس فہرست میں شامل کر لیتے تو چندے کا پہلا ایک ہزار ارب روپیہ نسبتاً آسانی سے جمع ہوسکتا تھا لیکن انہوں نے بوجہ 3طبقات پر مہربانی کرتے ہوئے انہیں اس فہرست میں شامل نہیں کیا، ان تمام طبقات کا جمع کردہ چندہ ایک طرف اور کاروباری شخصیات کی جائیدادوں کا فقط ایک فیصد بھی اس نیک کام میں شامل ہو جائے تو سمجھا جائے کہ سینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آئے گا۔ ان کاروباری حضرات میں جہازوں کے جہاز بھی بھر بھر کر غیر ملکی گاڑیاں امپورٹ کرنے والے، الیکٹرانک مصنوعات اور سامان تعیش منگوانے والے تاجروں کے علاوہ پہلے گندم اور چینی ایکسپورٹ کرنے کی اجازت مانگنی والے، پھر دونوں چیزوں کا بحران پیدا ہونے کے بعد اس کے امپورٹ پرمٹ حاصل کرنے والے اور کھاد بنانے اور سیمنٹ بنانے، اسے ایکسپورٹ کرنے والے، سونے اور کپڑے کے تاجروں کے علاوہ رئیل اسٹیٹ کے زور پر سٹیٹ کے اندر سٹیٹ چلانے والے آج تک قابو نہیں آئے، وہ جب چاہیں اپنی ضرورت کے تحت ایس آر او جاری کراتے ہیں اور موج اڑاتے ہیں۔ مصطفیٰ کمال صاحب نے انصاف سے کام نہیں لیا، وہ سیاسی شخصیات سے صرف 25فیصد جائیدادیں بطور چندہ لے کر قومی قرضوں کا بوجھ اتارنا چاہتے ہیں، یہ دیگر طبقات کیلئے تو قابل قبول ہو سکتا ہے لیکن سیاستدانوں کیلئے نہیں، تمام سیاستدان، اپنی اور اپنی جماعت کی سیاست کو عبادت سے تعبیر کرتے ہیں، اس عبادت کا لطف تو اس وقت ہو گا جب وہ خلفائے راشدین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کم از کم نصف اور زیادہ ثواب چاہتے ہوں تو تمام مال و اسباب قوم کے حوالے کر دیں۔ جناب مصطفیٰ کمال نے چندہ دینے والی شخصیات کیلئے مزید لوٹ مار کی کھڑکیاں اور دروازے وا رکھتے ہوئے گنجائش ختم نہیں کی کہ لوٹ مار کرنے والوں کو نشان عبرت بنایا جائے۔ شاید وہ این آر او پر یقین رکھتے ہیں۔
پاکستان کی قرض کہانی کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ کسی بڑے قرض سے کوئی ایسا منصوبہ شروع نہیں ہوا جس کا فائدہ کراچی سے خیبر تک سب کو حاصل ہو۔ مہنگے ترین منصوبے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کیلئے بنائے گئے، اورنج ٹرین کی بڑی دھوم ہے، اس میں سفر کرنے والے 30لاکھ افراد کو تو شاید سہولت ملی ہو لیکن ڈیڑھ کروڑ افراد لاہور سے تعلق رکھنے کے باوجود اس پر سفر نہیں کرتے، ان کی جیب سے روزانہ 3سو روپے نکل جاتے ہیں، یہ اورنج ٹرین پر سفر نہ کرنے کی فیس ہے، جو سبسڈی کی صورت اس منصوبے کے پیٹ میں جا رہی ہے، بجلی کے بلوں میں ہر شخص 14ٹیکس ادا کرتا ہے، پھر بھی رونا ختم نہیں ہوتا کہ عوام ٹیکس نہیں دیتے۔ تنخواہ دار طبقہ تنخواہ وصول کرنے سے قبل تنخواہ سے ٹیکس کٹوا دیتا ہے، اس کے بعد بھی 35قسم کے ٹیکس ادا کرتا ہے، تمام دنیا میں ٹیکس در ٹیکس کا مکروہ نظام کہیں بھی رائج نہیں، ہمارے ہاں سب کچھ رائج بھی ہے اور کچھ ناجائز بھی نہیں۔
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو چلتے 20برس ہو گئے، لیپ ٹاپ بانٹتے بھی دو دور گزر گئے، ان سے خوشحالی نہیں آئی، اب موٹر سائیکلیں بانٹ کر دیکھ لیں، یہ سب ڈرامے ہیں، اس سلسلے میں بڑا ڈرامہ یلو کیپ سکیم کے نام پر ہوا، انجام آپ کے سامنے ہے، نئے ڈراموں کا انجام بھی مختلف نہ ہوگا۔





