نیلام گھر کے لیجنڈ میزبان طارق عزیز

ایم فاروق قمر
پاکستان کے نامور صداکار، اداکار اور شاعر 28اپریل 1936ء کو جالندھر کے نواحی قصبے ’’ چوگٹی‘‘ میں ارائیں خاندان میں میاں عبدالعزیز پاکستانی کے ہاں پیدا ہوئے۔
ان کے والد کا نام عبدالعزیز تلیکن تھا۔ انہوں نے قیام پاکستان سے پہلے ہی اپنے نام کے ساتھ پاکستانی کا اضافہ کرلیا۔ طارق عزیز کا خاندان تین کپڑوں میں پاکستان پہنچا۔ چند دن لاہور میں گزار کر ان کا خاندان منٹگمری چلا گیا، جہاں انہیں چک نمبر L۔9؍142 میں کچھ زمین الاٹ ہوئی۔ طارق نے تعلیم منٹگمری ہائی سکول اور گورنمنٹ کالج منٹگمری سے حاصل کی۔ پہلے سال ہی سے آپ کوکالج کے میگزین ’’ ساہیوال‘‘ کا سب ایڈیٹر بنا دیا گیا۔ جو اعزاز کی بات ہے۔
پاکستانی ٹیلی ویژن کی تاریخ میں کئی دہائیوں تک چلنے والے پروگرام ’ نیلام گھر‘ سے شہرت پائی۔
طارق عزیز نے اپنے کیریئر کا آغاز ریڈیو پاکستان لاہور سے کیا تھا اور 1964ء میں جب پاکستان ٹیلی ویژن کا آغاز ہوا تو وہ وہاں کام کرنے والی اولین شخصیات میں سے ایک تھے۔
طارق عزیز نے پاکستان ٹیلی ویژن کی پہلی نشریات کی میزبانی بھی کی تھی۔
انھیں اصل شہرت پاکستان ٹیلی ویژن پر 1975ء میں شروع ہونے والے پروگرام نیلام گھر سے ملی۔
40برس سے زیادہ عرصے تک جاری رہنے والے اس پروگرام کو بعد ازاں ’ بزم طارق عزیز‘ کا ہی نام دے دیا گیا تھا۔
طارق عزیز نے ریڈیو اور ٹی وی کے علاوہ فلموں میں بھی کام کیا تھا۔ ان کی مشہور فلموں میں سالگرہ، قسم اس وقت کی، اور ہار گیا انسان شامل ہیں۔
پاکستانی حکومت نے طارق عزیز کی خدمات کے صلے میں انہیں 1992ء میں صدارتی تمغہ حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔
طارق عزیز کے کالموں کا مجموعہ ’’ داستان‘‘ کے نام سے جبکہ پنجابی شاعری کا مجموعہ کلام ’’ ہمزاد دا دکھ‘‘ کے نام سے شائع ہوا تھا۔
طارق عزیز نے سیاست کے میدان میں بھی زور آزمائی کی تھی اور جہاں زمانہ طالب علمی میں وہ پاکستانی پیپلز پارٹی کے حامی تھے اور بھٹو کے شیدائی مگر بھٹو کے بعد انہوں نے 1997ء میں وہ مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ۔1997ء کے الیکشن میں طارق عزیز نے پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کو شکست دی تھی۔
مسلم لیگ ن کے اس دور حکومت میں سپریم کورٹ کی عمارت پر چڑھائی کے واقعے میں ملوث ہونے پر انہیں عدالت عظمیٰ نے سزا بھی سنائی تھی۔
طارق عزیز نے پاکستان کا اصل چہرہ تھے۔ ان کی کتاب ’’ فٹ پاتھ سے پارلیمنٹ تک‘‘ آپ کے سیاسی کیرئیر پر روشنی ڈالتی ہے۔ جو ایک نامکمل خود نوشت ہے۔
احسان دانش کی طرح انہوں نے بھی عہد شباب میں بے گھری ، تنہائی اور غربت دیکھی۔ ان کا ذاتی گھر تک نا تھا جس گھر میں مقیم تھے وہ ان کی مرحومہ بیگم کی ملکیت تھا جو بہت پہلے انہیں داغ مفارقت دے گئی تھیں۔ ایک شو میں انہوں نے اس بات کا ذکر بھی کیا تھا۔
اگر بیگم مجھے اپنے گھر سے نکال دے تو طارق عزیز کے پاس رہنے کو صرف فٹ پاتھ ہو گا۔
خوش گفتار اور چست دکھائی دینے والے دراصل تنہائی کا شکار تھے۔ کہتے تھے کہ سکرین کا پردہ جیسے ہی ہٹتا ہے تو ایک اداس طارق پیچھے رہ جاتا ہے اور ایک ہنس مکھ انسان اس کی جگہ سامنے آ جاتا ہے۔
طارق عزیز کا انداز میزبانی جب وہ کہتے ’’ دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام‘‘ تو لوگ ہمہ تن گوش ہوکر اس پروگرام سے لطف اندوز ہوتے۔ ’’ دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں‘‘ کو طارق عزیز نے اس طرح بیان کیا ہے کہ جب وہ سٹیج پر آتے تو کہتے تھے دیکھتی آنکھوں کو طارق عزیز کا سلام اور پروگرام کے آخر پر سوالات کے جوابات ہوتے تھے جو لوگ مختلف چیٹھوں کے ذریعے ان کو بھجیتے تھے۔
تو ایک دن ایسا ہوا کہ ایک چھٹی ایسی آئی کہ جس پر لکھا تھا کہ طارق صاحب میں آپ کا پروگرام باقاعدگی سے سنتا ہوں مگر آپ نے مجھے کبھی سلام نہیں کیا، طارق عزیز کہتے ہیں کہ اس دن مجھے احساس ہوا کہ مجھے سکرین پر ہی لوگ دیکھ اور سن رہے ہوتے ہیں بلکہ ایسے لوگ بھی سن رہے ہوتے ہیں جو آنکھوں کی نعمت سے محروم ہیں، کہتے ہیں اس دن سے میں نے دیکھتی آنکھوں کے ساتھ سنتے کانوں کا اضافہ کرکے ’’ دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں‘‘ کو طارق عزیز کا سلام کہنا شروع کیا۔
وہ پاکستان کے پہلے سب سے زیادہ معاوضہ لینے والے اینکر پرسن تھے۔ ٹی وی کے پہلے انائونسر اور نیلام گھر کے لیجنڈ میزبان، پرائیڈ آف پرفارمنس، طارق عزیز اپنے وقت کے آئیکون اور ٹی وی گیم شوز کی بنیاد رکھنے والے تھے۔ ان کی آواز ان کا ٹریڈ مارک تھی، ان کی پہچان تھی۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہم اپنے ہیروز کو بہت جلد بھول جاتے ہیں، لیکن مجھے یقین ہے کہ آپ کو کبھی نہیں بھلایا۔ طارق عزیز جدید دور کے کوئز شوز کے بانی تھے۔ انہوں نے بہت سے لوگوں کو خوش کیا اور صرف یہی چیز اہمیت رکھتی ہے۔ وہ 17جون 2020ء کو اس دار فانی کو چھوڑ کر چلے گئے۔ مرنے سے پہلے اپنی ساری جائیداد پاکستان کے نام کر کے قومی خزانے میں جمع کرا دی۔ یہ ہے ایک سچے پاکستانی اور محب وطن کی پہچان۔
ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرما کر اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے، آمین۔





