انصاف کے سوداگروں کی کہانی

امتیاز عاصی
مرحوم بیوروکریٹ ایس ایم اسماعیل سے ہماری یاد اللہ کئی عشروں تھی۔ فاروق ہارون کے بعد وہ اسلام آباد کے دوسرے ڈپٹی کمشنر تھے بعد ازاں وہ لوکل گورنمنٹ میں پیپلز پروگرام کے ڈائریکٹر جنرل اور یلو کیپ سکیم کے ڈی جی بھی رہے۔ درمیانی عرصے میں انہیں سعودی عرب میں ڈائریکٹر جنرل حج مقرر کر دیا گیا۔ ایس ایم اسماعیل بہت ملنسار اور انسان دوست شخصیت تھے تکبر نام کی کوئی چیز ان میں نہیں تھی وہ ہر چھوٹے بڑے لوگوں کے کام آتے تھے۔اس ناچیز کو انہوں نے کئی مرتبہ حج ڈیوٹی کے لئے سعودی عرب بلوایا۔ حجاج کے خادم کی حیثیت سے وہ مجھے بہت عزت دیتے تھے۔1974میں اسلام آباد کے ایمبیسی روڈ پر انہوں نے پی ایس او کا پٹرول پمپ لگایا وہ پٹرول پمپ ان کے بیٹے ڈاکٹر جنید اسماعیل کے نام تھا۔ اسلام آباد میں چند پٹرول پمپ اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے کے ملازمین کی ویلیفر سوسائٹی کے نام ہیں جن کی آمدن سی ڈی اے ملازمین کی فلاح و بہبود پر خرچ ہو تی ہے۔ تیس سال بعد لیز ختم ہوئی تو حسب روایت چند کروڑ ان سے مانگے گئے ان کا انکار بس قیامت ٹوٹ پڑی۔ ایس ایم اسماعیل نے سول عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا اسی دوران وہ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ چلے گئے۔ بقول مرحوم ایس ایم اسماعیل اس وقت کے چیف جسٹس ایک خاتون کو پٹرول پمپ دینے کے خواہش مند تھے چنانچہ ایک روز تاریخ پر وہ ان پر برس پڑے اور انہیں جیل بھیجنے کی دھمکی دی۔ حسن اتفاق سے ان کے وکیل جسٹس ( ر ) گل زرین کیانی وہاں پہنچ گئے اور انہوں نے چیف جسٹس سے بات کرکے ان کی جان بخشی کرائی۔ مقدمات ابھی تک سول کورٹ اور سپریم کورٹ میں ہیں۔ سی ڈی اے والے پٹرول پمپ کی مشینری اور سی این جی سٹیشن پر نصب ساری مشینری ایک ہی رات میں اٹھا کر لے گئے۔ پٹرول پمپ کے خریدار تو بہت تھے جن میں کے پی کے موجودہ گورنر فیصل کریم کنڈی اور ایک دوشیزہ جانے کئی لوگ شامل تھے۔ کئی سال پٹرول پمپ بند رہا۔ اسی نوعیت کا ایک پٹرول پمپ ایف سکس ون میں چل رہا ہے جس کی لیز میں سی ڈی اے نے توسیع کر دی لیکن ایس ایم اسماعیل کو پٹرول پمپ کی لیز میں توسیع سے محروم رکھا گیا۔ اس دوران ڈاکٹر جنید اسماعیل نے ایک دوست ڈاکٹر سے بات کی جس نے انہیں اس بات کی یقین دہانی کرائی وہ دو کروڑ دے دے تو ہائیکورٹ سے فیصلہ اس کے حق میں ہو جائے گا۔ ان دنوں ہائیکورٹ کے دو جج صاحبان کا ایک کارندہ راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے ایک وزیر کی رہائش گاہ پر ڈیرے ڈالے ہوئے تھا۔ جیسا کہ ڈاکٹر جنید اسماعیل نے مجھے بتایا اس کے دوست ڈاکٹر نے اس سودے بازی میں اہم کردار ادا کیا بلکہ دو کروڑ کا چیک وہی لے کر گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے وہ چیک ایک جسٹس صاحب کے بیٹے کے نام بنا اور ان کے بیٹے کو دے دیا گیا۔ ہائیکورٹ سے فیصلہ ان کے خلاف آنے کی صورت میں ایس ایم اسماعیل نے دونوں جج صاحبان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں شکایت دائر کر دی۔ شکایت کیا درج ہوئی ہر طرف افراتفری پڑ گئی اب کیا ہوگا لیکن محکموں میں ایک دوسرے کے احساس کی روایت تو بڑی پرانی ہے ۔ قانونی طریقہ کار کے مطابق دونوں ججوں کا مواخذہ ہونا چاہیے تھا لیکن چیف جسٹس صاحب بڑے سیانے تھے انہوں نے دونوں جج صاحبان کو طلب کر لیا اور شکایت سامنے رکھتے ہوئے کہا اگر تم نے عہدوں سے استعفیٰ نہیں دیا تو برطرف ہو جائو گے۔ چنانچہ دونوں جج صاحبان اپنے عہدوں سے مستعفی ہو گئے اور ان کی اس طرح جان چھوٹ گئی اور وہ بدنامی سے بچ گئے۔ ایس ایم اسماعیل سول اور اعلیٰ عدالتوں میں حصول انصاف کی خاطر در بدر ہوکر دنیا کو سدھار گئے اور ڈاکٹر جنید اسماعیل ملک چھوڑ کر سعودی عرب کے ایک ہسپتال میں ملازمت کر رہے ہیں۔ ایمبیسی روڈ کا وہ پٹرول پمپ کسی نئی پارٹی کو دے دیا گیا ہے، کروڑوں روپے کی مشینری سی ڈی
اے کے پاس پڑی ہے۔ سول کورٹ اور سپریم کورٹ میں مقدمہ زیر التواء ہے۔ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی ریاست میں انصاف ناپید ہے۔ اگر کسی کو جلد انصاف مل جائے وہ خوش قسمت ہے ورنہ تو عشروں تک سول مقدمات کے فیصلے نہیں ہو پاتے۔ ماتحت عدالتوں میں جج صاحبان کی کارکردگی کی جانچ پڑتال کے لئے انسپکشن جج مقرر کئے جاتے ہیں، غالب امکان ہے ڈاکٹر جنید اسماعیل کے مقدمہ کا اسی صدی میں فیصلہ ہو پائے گا۔ پی ڈی ایم کے دور میں ڈاکٹر شیریں مزاری کی گرفتاری کے لئے مقررہ کمیشن میں انہی دو ججوں میں سے ایک جج صاحب کو کمیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔ شنید تھی انہیں وفاقی دارالحکومت کی قومی اسمبلی کی تین نشستوں کے فارم 47کے ٹربیونل کا سربراہ مقرر کیا جا رہا ہے۔ سعودی عرب سے ڈاکٹر جنید اسماعیل نے پٹرول پمپ کے کیس کی ساری کہانی ہمیں اپنے خصوصی پیغام کے ذریعے بھیجی ہے لہذا اسی کی بنیاد پر کالم لکھا گیا ہے۔ پاکستانی قوم کی بڑی بدقسمتی ہے اگر انہیں کسی موقع پر عدالتوں میں جانا پڑے تو انصاف کا حصول ان کے لئے پہاڑ کی مانند بن جاتا ہے۔ کچھ وکلاء کی مقدمات کی سماعت میں تاخیر اور کچھ عدالتوں پر مقدمات کا غیر ضروری بوجھ مملکت کے رہنے والوں کے لئے عذاب بن گیا ہے۔ سوال ہے کسی شہری نے عدلیہ کے کسی جج کے خلاف شکایت کی تھی تو سابق چیف جسٹس صاحب کو اس معاملے کو سپریم جوڈیشل کونسل میں بھیجنا چاہیے تھا نہ کہ خود ہی انہیں مشورہ دینا وہ اپنے منصب سے مستعفی ہو جائیں قرین انصاف کے تقاضوں کے خلاف تھا۔ دونوں جج صاحبان کا کیس سپریم جوڈیشل کونسل میں جاتا تو عوام بھی ان کے ناموں سے واقف ہو سکتے تھے لیکن جنگل میں مور کے ناچنے والی بات ہوئی کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی۔ اس طرح انصاف کے سوداگر مواخذے سے بچ گئے۔ یہ بات زد و عام ہے غریب کے لئے حصول انصاف ممکن نہیں جبکہ بڑوں کے لئے بغیر کسی تعطل انصاف فراہم کیا جاتا ہے۔ یہ تھی انصاف کے سوداگروں کی کہانی ۔





