Column

دنیا

علیشبا بگٹی
بنی اسرائیل کے ایک نوجوان عابد کے پاس حضرت خضر علیہ السلام تشریف لایا کرتے تھے۔ یہ بات اس وقت کے بادشاہ نے سنی تو اس نوجوان عابد کو بلایا اور پوچھا کہ کیا یہ بات سچ ہے کہ تمہارے پاس حضرت خضر علیہ السلام آیا کرتے ہیں ؟ اس نے جواب دیا کہ ہاں بادشاہ نے کہا ۔ اب جب وہ آئیں تو انہیں میرے پاس لے کر آنا ۔ اگر نہ لائو گے ۔ تو میں تمہیں قتل کر دوں گا۔ چنانچہ ایک دن حضرت خضر علیہ السلام اس عابد کے پاس تشریف لائے تو عابد نے ان سے سارا واقعہ عرض کر دیا۔ آپ نے فرمایا چلو اس بادشاہ کے پاس چلتی ہیں۔ چنانچہ آپ اس بادشاہ کے پاس تشریف لے گئے۔ بادشاہ نے پوچھا۔ کیا آپ ہی خضرٌ ہیں ؟ فرمایا ہاں ! بادشاہ نے کہا، تو ہمیں کوئی بڑی عجیب بات سنائیے۔ فرمایا میں نے دنیا کی بڑی بڑی عجیب باتیں دیکھی ہیں مگر ان میں سے ایک سناتا ہوں۔ فرمایا میں ایک دفعہ ایک بہت بڑے خوبصورت اور آباد شہر سے گزرا میں نے اس شہر کے ایک باشندہ سے پوچھا۔ یہ شہر کب سے بنا ہے ؟ تو اس نے کہا۔ یہ شہر بہت پرانا شہر ہے۔ اس کی ابتدا کا نہ مجھے علم ہے اور نہ ہمارے آبائو و اجداد کو۔ خدا جانے کب سے یہ شہر یونہی آباد چلا آرہا ہے۔ پھر میں پانچ سو سال کے بعد اسی جگہ سے گزرا تو وہاں شہر کا نام و نشان تک نہ تھا۔ ایک جنگل تھا اور وہاں ایک آدمی لکڑیاں چن رہا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا یہ شہر کب سے برباد ہو گیا ہے ؟ وہ مجھے دیکھ کر ہنسا اور کہا۔ یہاں شہر تھا ہی کب ؟ یہ جگہ تو مدتوں سے جنگل چلی آرہی ہے۔ ہمارے آبائو اجداد نے بھی یہاں جنگل ہی دیکھا ہے پھر میں پانچ سو سال کے بعد وہاں سے گزرا تو وہاں ایک عظیم الشان دریا بہہ رہا تھا اور کنارے پر چند شکاری بیٹھے تھے میں نے ان سے پوچھا یہ جنگل دریا کب سے بن گیا ہے ؟ تو وہ لوگ مجھے دیکھ کہ کہنے لگے آپ جیسا آدمی ایسا سوال کرے ؟ یہاں تو ہمیشہ ہی سے دریا بہتا چلا آ رہا ہے۔ میں نے پوچھا کیا اس سے پہلے یہ جگہ جنگل نہ تھی ؟ وہ کہنے لگے ہرگز نہیں نہ ہم نے دیکھی اور نہ ہی اپنے آبائو اجداد سے سنی، پھر میں پانچ سو سال کے بعد وہاں سے گزرا۔ تو وہ جگہ ایک بہت بڑا چٹیل میدان دیکھا۔ جہاں ایک آدمی کو پھرتے دیکھا۔ میں نے اس سے پوچھا یہ جگہ خشک کب سے ہو گئی ؟ وہ بولا کہ یہ جگہ تو ہمیشہ سے یونہی چلی آتی ہے ؟ میں نے پوچھا۔ یہاں کبھی دریا نہیں بہتا تھا؟ اس نے کہا ایسا نہ کبھی دیکھا نہ اپنے آبائو اجداد سے سنا۔ پھر میں پانچ سو سال کے بعد وہاں سے گزرا تو وہاں ایک عظیم الشان شہر آباد دیکھا جو پہلے شہر سے بھی زیادہ خوبصورت اور آباد تھا۔ میں نے ایک باشندہ سے پوچھا یہ شہر کب سے ہے وہ بولا یہ شہر بہت پرانا ہے۔ اس کی ابتداء کا نہ ہمیں علم ہے نہ ہمارے آبائو اجداد کو۔
اس دنیا کو ثبات نہیں ہے۔ یہ ہزاروں رنگ بدلتی ہے۔ کبھی آبادی کبھی بربادی، کبھی ماتم کبھی شادی۔ الغرض یہ دنیا ہے۔ اس نے نہ جانے کتنے رنگ دیکھے ہونگے۔ زمین کی عمر 5ارب سال ہے۔ اتنے سالوں میں اربوں لوگ دنیا میں آئے اور مر گئے۔ آج کوئی ان کے بارے میں ذرا بھی نہیں جانتا۔ صرف چند لوگ دنیا کی تاریخ میں زندہ رہ گئے۔ ہمارا بھی ایک دن دنیا سے نام و نشان مٹ جائے گا۔ اسی لئے کوئی بھی عقل مند انسان اس عارضی اور بے اعتبار زندگی کو اس فانی دنیا میں غرور و تکبر کی بجائے عاجزی اور خوش اخلاقی سے گزارتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button