Column

بجٹ بنانے والے اسے پاس بھی کروا لیں گے

رفیع صحرائی
لیجئے جناب پاکستان پیپلز پارٹی کو لینے کے دینے پڑ گئے۔ بلاول بھٹو نے لوہا گرم دیکھ کر اپنی طرف سے بھرپور ضرب لگائی تھی مگر لگتا ہے ان کا وار اوچھا پڑا ہے۔ ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں ذکر کیا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے وفاقی بجٹ پاس کرانے کے لئے پنجاب سے حصہ مانگ لیا ہے۔ یہ حصہ اس نے اپنے حصے سے بھی بڑا طلب کیا تھا۔ یعنی اپنے منتخب ایم پی ایز کے لئے پنجاب میں حکومتی ایم پی ایز جتنا بجٹ اور ترقیاتی منصوبہ جات تو مانگے ہی تھے اس کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی نے اپنے ہارے ہوئے ٹکٹ ہولڈرز کے لئے مشیر برائے وزیرِ اعلیٰ کے عہدے اور فنڈز بھی مانگے تھے۔ بات یہاں بھی ختم نہیں ہوتی۔ پیپلز پارٹی نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ پنجاب میں اس کے صوبائی اور ڈویژنل سطح کے عہدیداروں کو بھی مشیر اور مختلف کمیٹیوں کی سربراہی دی جائے۔
بلاول بھٹو کا خیال تھا کہ حکومت کو چونکہ بجٹ پاس کرانا ہے اور وہ بری طرح پھنسی ہوئی ہے لہٰذا وہ آسانی سے اپنے مطالبات منوا لیں گے۔ ویسے بھی بجٹ پاس کرانا حکومت کے لئے کسی بڑے امتحان سے کم نہیں ہوتا۔ بجٹ کا پاس نہ ہونا حکومت کی ناکامی تصور کیا جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں حکومت کا خاتمہ بھی ہو سکتا ہے وہ اس لئے کہ ایسی صورت میں وزیرِ اعظم کو پارلیمنٹ سے دوبارہ اعتماد کا ووٹ لینا پڑتا ہے۔ بلاول بھٹو کی یہ چال بڑی سمارٹ تھی۔ ان کا خیال تھا کہ گزشتہ سال کی طرح اس مرتبہ بھی حکومت ان کے سامنے فوراً ہی لیٹ جائے گی جس طرح پچھلے سال انہوں نے بجٹ پاس نہ ہونے دینے کی دھمکی دے کر سیلاب متاثرین کی بحالی کے لئے بیس ارب روپے میاں شہباز شریف سے وصول کر لئے تھے۔
لیکن بلاول بھٹو بھول گئے کہ پی ڈی ایم کی حکومت اور موجودہ حکومت میں بہت فرق ہے۔ اب شہباز شریف زیادہ طاقتور ہیں۔ پنجاب میں بھی ان کی پارٹی کی حکومت ہے۔ شہباز شریف کے پیچھے اس وقت ریاست اپنی پوری طاقت کے ساتھ کھڑی ہے لہٰذا اب وہ آسانی سے قابو میں نہیں آئیں گے۔
پیپلز پارٹی کے پنجاب میں حصہ مانگنے کے جواب میں حکومت کی طرف سے جواب دیا گیا کہ ٹھیک ہے آپ اپنی خواہش کے مطابق حصہ لے لیں مگر جواب میں آپ کو مسلم لیگ ن کو سندھ میں بھی اسی طرح حصہ دینا پڑے گا۔ وہاں پر ہمارے ڈویژنل صدور اور صوبائی عہدیداروں کو بھی صوبے میں مشیر کے عہدے اور فنڈز دینے کے علاوہ پبلک اکائونٹس کمیٹیوں کی سربراہی دینا پڑے گی۔ پیپلز پارٹی ایسے جواب کی توقع نہیں کر رہی تھی۔ اس نے حکومت کے مطالبے کو ماننے سے صاف انکار کر دیا جس پر دوسری طرف سے بھی پنجاب میں حصہ دینے سے معذرت کر لی گئی۔ اس پر بلاول بھٹو سخت پیچ و تاب کھا رہے ہیں۔
ادھر گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر نے پریشر بڑھانے کی خاطر یہ کہہ دیا کہ مسلم لیگ ن سے اتحاد کر کے پیپلز پارٹی نے غلطی کی ہے اور اس کا اسے نقصان ہوا ہے۔ سردار سلیم حیدر ایسا کہتے وقت شاید بھول گئے کہ وہ خود بھی اسی اتحاد کے نتیجے میں سب سے بڑے صوبے کے گورنر ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دو صوبوں کی گورنر شپ، ملک کی سربراہی، چیئرمین سینیٹ سمیت بے شمار آئینی اداروں کی سربراہی لے کر بھی پیپلز پارٹی اگر نقصان میں ہے تو پھر فائدے میں کون رہا ہے؟
دونوں پارٹیوں میں فاصلے بڑھ رہے ہیں۔ کچھ تجزیہ نگار ابھی سے کہہ رہے ہیں کہ بلاول بھٹو نے حکومت کو دلدل میں پھنسا دیا ہے۔ حکومت اس دلدل سے نکلنے کے لئے جتنا زور لگائے گی اس میں مزید دھنستی چلی جائے گی اور بالآخر اسے بلاول کے سامنے سرنڈر کرنا ہی پڑے گا۔ لیکن مسلم لیگ ن کی لیڈر شپ بھی کچی گولیاں نہیں کھیلی ہوئی۔ اس کے پاس بلاول بھٹو کی عمر سے بھی زیادہ تجربہ رکھنے والے سیاستدان موجود ہیں۔ وہ بلاول کے ٹریپ میں اتنی آسانی سے آنے والے نہیں ہیں۔
جہاں تک پاکستان پیپلز پارٹی کی سیاست کا تعلق ہے تو بلاول بھٹو لاکھ اینگری ینگ مین کا روپ دھارتے رہیں، جتنی مرضی دھمکیاں دیتے رہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ پارٹی پالیسی جناب آصف علی زرداری ہی مرتب کرتے ہیں۔ بلاول بھٹو بجٹ اجلاس کا مکمل بائیکاٹ کئے بیٹھے تھے لیکن جب وزیرِ اعظم میاں شہباز شریف نے جناب آصف زرداری کو فون کیا تو آصف زرداری نے ان کی درخواست مان لی۔ پھر طے شدہ پروگرام کے تحت ڈپٹی وزیرِ اعظم جناب اسحاق ڈار خود چل کر بلاول بھٹو کے پاس پہنچے اور انہیں بجٹ اجلاس میں شرکت کے لئے ساتھ لے کر آئے۔ دیکھا جائے تو محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نے مزاحمتی سیاست ترک کر کے مفاہمتی سیاست شروع کر رکھی ہے۔ اس کا پاکستان پیپلز پارٹی کو فائدہ بھی پہنچا ہے۔ وہ 2008ء سے سندھ میں مسلسل برسرِ اقتدار چلی آ رہی ہے۔ ایک بار مرکز میں حکومت کر چکی ہے جبکہ پی ڈی ایم کی سولہ ماہ کی حکومت کے علاوہ میاں شہباز شریف کی موجودہ حکومت کی اتحادی بھی ہے۔
جہاں تک بلاول بھٹو یا پیپلز پارٹی کے ایم این ایز کی بجٹ پاس کرنے کی مخالفت کا تعلق ہے تو مسلم لیگ ن یا موجودہ حکومت کا یہ مسئلہ نہیں ہے۔ بجٹ پاس کرانا ان کا مسئلہ ہے جنہوں نے یہ بجٹ بنایا ہے۔ بجٹ سازی کے عمل میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ایک ہی صفحے پر تھیں اس لئے مسلم لیگ ن یا میاں شہباز شریف نوجوان سیاست دان کی اس دھمکی میں آنے والے نہیں ہیں۔ جنہوں نے بجٹ بنایا ہے وہ بجٹ پاس بھی کرا لیں گے۔ پیپلز پارٹی میں اتنا دم خم نہیں ہے کہ اپنی دھمکی کو عملی جامہ پہنا سکے۔ ایسی صورت میں اسے صرف صدارت ہی نہیں چھوڑنی پڑے گی۔ دیگر تمام عہدے بھی واپس کرنے پڑیں گے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ بجٹ پھر بھی پاس ہو جائے گا۔ جنہوں نے ایک تہائی نشستوں کے حمایت یافتہ صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ بنوا کر دو تہائی نشستوں والے امیدوار کو شکست دلوا دی تھی ان کے لئے بجٹ پاس کرانا معمولی بات ہے۔ بجٹ پاس نہ ہونے کی پیشگوئی کرنے والوں اور حکومت پر منڈلاتے خطرے کے سلسلے میں دور کی کوڑی لانے والے تجزیہ کاروں کو سخت مایوسی ہو گی۔ حکومت کہیں نہیں جا رہی اور فی الحال بلاول بھٹو زرداری بھی کوئی ایڈونچر نہیں کریں گے۔

جواب دیں

Back to top button