ColumnImtiaz Aasi

سعودی کمپنیوں کے ناقص حج انتظامات

امتیاز عاصی
جب سے سعودی حکومت نے حج و عمرہ کو خدمت کی بجائے سیاحت کا درجہ دیا ہے اور معلمین سے حج انتظامات لے کر سعودی کمپنیوں کے حوالے کیا ہے حجاج کی شکایات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ مطوفین حجاج کی خدمت کو اپنے لئے باعث شرف سمجھ کر ان کی خدمت کرتے تھے۔ اگرچہ معلمین اب بھی کسی نہ کسی حوالے سے حج کے امور میں شریک تو ہیں تاہم جیسا کہ گزشتہ کئی عشروں سے وہ حجاج کی خدمت کرتے تھے ان سے خدمت کا کام لے کر سعودی کمپنیوں کو آکشن کے ذریعے دینے سے ہر سال حجاج کی شکایات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ سعودی حکومت کو ایک معاہدے کے تحت مطوفین کی نسل در نسل کو حج سے ہونے والی آمدن کا کچھ حصہ دینا پڑتا ہے ۔مشاعر کے پانچ روز حاجیوں کے لئے مشکل کے ہوتے ہیں اگر انہیں لاکھوں روپے ادا کرنے کے باوجود خیموں میں جگہ، پینے کا پانی اور ٹرانسپورٹ کی سہولت میسر نہ ہو تو قرین انصاف نہیں۔ عجیب تماشا بنا رہا ہے منیٰ میں امن و امان برقرار رکھنے کے لئے فوج کی خدمات حاصل کرنا پڑیں۔ منیٰ ون کے فٹ پاتھوں پر احرام میں حجاج کے لاشے پڑے رہے جنہیں اٹھانے والا کوئی نہیں تھا۔ اس ناچیز کو سعودی عرب میں حج انتظامات کو دو عشروں تک قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا اس سے قبل کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا کہ حجاج کو پینے کا پانی ،خیموں میں جگہ اور ٹرانسپورٹ سے محروم رکھا گیا ہو۔ جہاں تک ٹرانسپورٹ کی فراہمی کی بات ہے ٹرین کی سہولت کے باوجود حجاج ٹرین میں سفر سے محروم رہے۔ اگر ہم ماضی قریب کے حج انتظامات کی بات کریں تو کئی سال پہلے حجاج منیٰ سے عرفات بسوں کے ذریعے جانے سے
محروم رہتے تھے جس کی ایک بڑی وجہ بسوں کو دو پھیرے لگانے پڑتے تھے۔ حجاج کو لے جانے والی بس کی عرفات سے واپسی ناممکن ہونے سے حاجیوں کی اکثریت ٹرانسپورٹ سے محروم رہ جاتی تھی لیکن گزشتہ دو تین سالوں سے ٹرین کی سہولت کے باوجود حجاج کا بسوں سے محروم رہنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ قارئین کو یاد ہو گا اس قبل کالم میں منیٰ میں خیموں کے انتظامات میں مبینہ گڑ بڑ کی نشاندہی کر دی تھی۔ تعجب ہے ایسے حجاج جو پندرہ سے بیس لاکھ روپی واجبات ادا کرکے گئے انہیں بھی ٹرانسپورٹ ،خیموں اور پینے کے پانی سے محروم رکھا گیا۔ پرائیویٹ سکیم میں عازمین حج اسی لئے جاتے ہیں کہ انہیں زیادہ سے زیادہ سہولتیں میسر ہوں مگر اس بار تو حد ہو گئی نہ سرکاری اور نہ پرائیویٹ اسکیم میں جانے والوں کو حج کے مناسک خشوع و خصوع سے ادا کرنے کا موقع مل سکا بلکہ منیٰ میں افراتفری کا سماں تھا جس اس امر کا غماز ہے مشاعر میں حالات سعودی وزارت حج کے کنٹرول سے باہر تھے۔ حیرت ہے بعض سرکاری گماشتے حج انتظامات میں بدنظمی کے باوجود سعودی حکومت کے انتظامات کی تعریفوں کے پل باندھ رہے تھے۔ منیٰ میں کئی ایک سڑکوں کے باوجود ٹرانسپورٹ کی سہولت سے حجاج کا محروم رہنا سعودی کمپنیوں کے انتظامات پر سوالیہ نشان ہے۔ گزشتہ کئی سالوں کے مقابلے میں امسال حجاج کی تعداد بہت کم تھی تاہم اس کے باوجود حالات سعودی کمپنیوں کے کنٹرول سے باہر تھے۔ معلمین کا نظام قریبا آٹھ عشروں سے چلا آرہا تھا عثمانی عہد میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں رہنے والے وہ لوگ خواہ ان کا تعلق کسی ملک سے تھا انہیں حجاج کی خدمت کی ذمہ داری سونپی گئی تھی جسے وہ اللہ تعالیٰ کے مہمانوں کی خدمت سمجھ کر ان کی دیکھ بھال کیا کرتے تھے۔چند سالوں سے سعودی حکومت نے معلمین کا کام پرائیویٹ کمپنیوں کے حوالے کر دیا ہے جس کے عوض ان سے لاکھوں روپے بطور سیکورٹی وصول کئے گئے ہیں۔ بدنظمی کا یہ عالم تھا حجاج بسیں کئی کئی گھنٹے سڑکوں پر کھڑی رہیں جس کی وجہ ٹریفک کے ناقص انتظامات تھے۔ طریق الملک خالد بند ہونے سے جبل ثور سے کدی شارع اور عزیزیہ تک ٹریفک بند ہونے سے حجاج کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ مصدقہ اطلاعات کے مطابق پینے کے پانی کی عدم دستیابی کے باعث کئی حجاج دم توڑ گئے۔ درحقیقت سعودی حکومت نے حج وعمرہ کو سیاحت کا درجہ دے دیا ہے۔ پہلے عمرہ اور حج کا ویزا فری ملا کرتا تھا لیکن اب عمرہ ویزا کے حصول کے لئے چار سو ریال ادا کرنے پڑتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق سعودی حکومت ہر سال اربوں ڈالر صرف عمرہ سیزن میں کما لیتی ہے جبکہ حج کی فیس کے رقوم ملا کر کھربوں روپے کما لیتی ہے۔ قرون اولیٰ کے دور میں جب حجاج کی تعداد بہت کم ہوتی تھی اہل مکہ مکرمہ اللہ تعالیٰ کے مہمانوں کے لئے اپنے گھروں کے دروازے کھول دیتے تھے تاکہ زائرین ان کے ہاں قیام کر سکیں جسے وہ اپنے لئے باعث اعزاز سمجھتے تھے۔ گو حج و عمرہ زائرین کی روز بروز بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر زائرین کو گھروں میں ٹھہرانا ممکن نہیں رہا ہے لیکن حج عمرہ کو کمائی کا ذریعہ بنانا بھی درست نہیں ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے سعودی وزارت حج و عمرہ جونہی حج ختم ہوتا ہے اگلے سال کے لئے حج انتظامات اور گزرے حج میں رہ جانے والی کمزوریوں کا جائزہ لیتی ہے مگر امسال تو حج انتظامات میں مبینہ طور پر بدنظمی کی انتہا ہو گئی ہے۔ پرائیویٹ سکیم میں لے جانے والے گروپ آرگنائزر تو پہلے ہی رو رہے تھے سعودی کمپنیوں کو براہ راست خیموں اور ٹرانسپورٹ کے واجبات بھیجنے کی بجائے پاکستان حج مشن کو بھیجنے کی منطق سمجھ سے باہر ہے۔ سعودی حکومت کو رواں حج میں رہ جانے والی خامیوں کا جائزہ لیتے ہوئے آئندہ سال ان غلطیوں کو دوبارہ دہرانے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ زائرین حج و عمرہ اپنے فرض کی ادائیگی کے لئے سعودی عرب آتے رہیں گے۔ حج ایسا فریضہ تو ہر مسلمان کا جزو ایمان ہے لیکن سعودی حکومت کو حجاج کرام کو پیش آنی والی مشکلات کی ذمہ دار کمپنیوں کو محض جرمانہ کرنا کافی نہیں بلکہ انہیں آئندہ کے لئے حج کے کاموں کیلئے ہمیشہ کے لئے نااہل قرار دینا چاہیے۔ اگرچہ حج کا احرام باندھتے وقت حج آسان کرنے کی دعا کرنے کا حکم ہے لیکن ایسی مشکلات جو انسان کی خود پیدا کردہ ہوں کم از کم ان کا مستقبل میں اعادہ نہیں ہونا چاہیے۔

جواب دیں

Back to top button