Columnمحمد مبشر انوار

قرضے اور ڈالر

محمد مبشر انوار( ریاض)
ہر عروج کو زوال ہے اور دائمی عروج فقط اللہ رب العزت کی ذات اور اس کے بنائے ہوئے اصول و احکامات کو ہے۔ بنی نوع انسان بنیادی و فطری طور پرمفاد و موقع پرست واقع ہوا ہے اور اپنے مفادات کی خاطر ہی اقدامات اٹھاتا نظر آتا ہے البتہ ریاستی سطح پر اٹھائے گئے اقدامات کا مقصد ریاستی مفادات سے براہ راست اور عوام سے بالواسطہ متعلقہ ہوتا ہے بشرطیکہ ارباب اختیار ملکی و قومی مفادات کو مقدم رکھیں۔ عروج و زوال کو پلٹنے کے حوالے سے اللہ رب العزت قرآن کریم میں واضح ارشاد فرماتا ہے کہ وہ اسے انسانوں میں پھیرتا رہتا ہے ،کوئی بھی قوم جب اللہ کریم کے احکامات کو تسلیم کرتے ہوئے یا ان کی آفاقیت کو سمجھتے ہوئے، ان پر عمل پیرا ہوتا ہے تو اللہ رب العزت اسے اقوام عالم میں سرخرو فرماتا ہے،اسے دنیاوی رفعتوں سے نوازتا ہے، اقوام عالم کو تسخیر کرنے کی قوت عطا کرتا ہے لیکن مکرر کہ یہ صلاحیت و حیثیت صرف ایک محدود مدت کے لئے ہوتی ہے۔بنی نوع انسان کی سرشت میں شامل ہے کہ جیسے جیسے اسے ترقی و منزلت ملتی ہے،اس میں عاجزی کا عنصر ناپیدہوتا جاتا ہے،اس میں انکساری کی جگہ رعونت و تکبر لے لیتا ہے،یہیں سے اس کا زوال شروع ہوتا ہے جبکہ اسی اثاء میں کوئی دوسری قوم،اس کی جگہ لینے کے لئے ابھرتی دکھائی دیتی ہے،اور مروجہ اصولوں کے مطابق نئی طاقت بن کر سامنے آ جاتی ہے۔سابقہ کاقت کا غرور تکبر خاک میں ملادیتی ہے اور نظام دنیا نئے سرے سے ،اس کی حاکمیت کے زیر اثر چلنا شروع ہو جاتا ہے،کھیل کے نئے قواعد و ضوابط ترتیب دئیے جاتے ہیں،جس زمینی مالک نئی طاقت ہوتی ہے اور باقی ریاستیں،اپنے نظام کو اس کے مطابق ڈھالنے میں مشغول ہو جاتی ہیں۔ماضی میں اس کی کئی ایک مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ کس طرح برطانیہ اور اس سے قبل دیگر اقوام نے دنیا پر حکومت کی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ سب دنیاوی طاقتیں اپنے انجام کو پہنچ گئے جبکہ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر نئی طاقت امریکہ کرہ ارض پر اپنی حکومت کر رہا ہے گو کہ اس دوران امریکہ کے مدمقابل سوویت یونین بھی موجود رہا لیکن سوویت یونین کے حصے بخرے ہونے کے بعد امریکہ اکلوتی عالمی طاقت کے طور پر کرہ ارض کو اپنی مرضی و منشا کے مطابق چلاتا رہا ہے۔ طاقت کے اس بے محابا استعمال میں امریکہ بھی بعینہ وہی غلطیاں دہراتا رہا ہے جو کسی بھی بااختیار کے زوال کی وجہ بنتی ہیں، مثلا اسرائیل کی نسل کشی پر امریکی ہٹ دھرمی و بے جا حمایت جبکہ دیگر مسلم ریاستوں کے اندرونی معاملات میں بے جا مداخلت اور عالمی تجارت پر کلی قبضہ کی ناجائز خواہش، اس کے زوال کی کہانی سنا رہی ہیں۔
مسلم ریاستوں میں جس طرح امریکی اثرو نفوذ جاری ہے اور جس طرح ان ریاستوں کو بے بس کررکھا ہے،بے دست و پا بنایا گیا ہے،وہ سب کے سامنے ہے کہ آج ببانگ دہل سوائے ایران ، کوئی ایک مسلم ریاست بھی غزہ میں جاری نسل کشی کے خلاف میدان جنگ میں دکھائی نہیں دیتی۔جس کی قیمت ایران مسلسل ادا کررہا ہے لیکن اپنے کردار سے پیچھے ہٹنے کو تیار نظر نہیں آتا جبکہ دیگر اسلامی ممالک کی طرف نظر دوڑائیں تو یہ حقیقت واضح دکھائی دے رہی ہے کہ سب زبانی جمع خرچ میں مصروف ہیں ،میدان کارزار میں کوئی ایک بھی اترتا دکھائی نہیں دے رہا۔پاکستان جسے کسی زمانے میں بزعم خود امت مسلمہ کی قیادت کا خواب چرایا تھا ،آج اس دوڑ میں کہیں دکھائی نہیں دیتا،جس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ اقوام عالم میں اثرورسوخ پیدا کرنے کے لئے خالی نعرے کافی نہیں بلکہ جیب بھری ہونا بنیادی شرط ہے۔ بارہا ذکرکیا جا چکا ہے کہ پاکستان پر حق حکمرانی پر فائز خاندان ،جسے صرف اسی لئے فوقیت دی گئی تھی کہ یہ ایک صنعتکار گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں،اس لئے ملکی معیشت میں صنعتکاری کو فروغ دے کر،پاکستان کو اپنے پیروں پر کھڑا کرپائیں گے لیکن بدقسمتی سے اس خاندان نے ملکی صنعت کا پہیہ کیا متحرک و فعال کرنا تھا،ذاتی محرومیوں کو بدلا اس ملک وقوم سے ایسے لیا ہے کہ آئندہ کئی دہائیوں تک ملکی صنعت کو بستر نزاع پر ڈال دیا ہے۔ملکی معیشت کو نچوڑنے میں ایک طرف غیر ملکی قرضوں کی بھرمار ہے تو دوسری طرف ایسے ایسے غیر پیداواری منصوبے ہیں کہ الامان الحفیظ،جس کا تصور تک یہ صنعتکار گھرانہ اپنی ذاتی صنعت میں نہیں کر سکتا،اسے ملکی خزانے پر لاد دیا گیا ہے،پاور کے ضمن میں جس طرح ملکی وسائل کو روزانہ کی بنیاد پر ،خون چوسنے والی جونکوں کی نذر کر دیا گیا ہے،یہ بذات خود ایک ایسا عذاب ملکی معیشت کو لاحق ہے ،جس سے چھٹکارا دکھائی نہیں دیتا۔ایسے اقدامات کرنے کے بعد رہی سہی کسرمنی لانڈرنگ کے ذریعے ،ملکی معیشت کو کھوکھلا کر کے پوری کی جار ہی تھی اور ڈالر جو جنرل مشرف کے دور حکومت میں صرف ساٹھ روپے کا تھا،پی ڈی ایم کے پہلے دور حکومت میں تین سو انتیس روپے تک جا پہنچا تھا،جس کو سپہ سالار کی مداخلت سے دو سو پچھتر تک لایا گیا ،تب شنید یہ تھی کہ سپہ سالار کی خصوصی دلچسپی سے ڈالر کو دوسو روپے تک لایا جائے گا،لیکن افسوس کہ جیسے ہی سپہ سالار کی نظر کرم اس معاملے سے ہٹی یا ہٹائی گئی،ڈالر کی قیمت نہ صرف دو سو پچھتر پر مستقل ہو گئی بلکہ اب پھر اوپن مارکیٹ میں اس کی قدر بڑھنے کی خبریں سنائی دے رہی ہیں۔اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت بڑھنے کا مطلب ہے کہ پاکستان پر واجب الادا قرضوں کاحجم مقامی کرنسی میں مزید بڑھ گیا اور جیسے جیسے ڈالر کی قیمت بڑھے گی،پاکستان پر واجب الادا قرضوں کاحجم بھی بڑھتا جائے گا،جس کا خمیازہ پاکستانی شہریوں کو مزید ٹیکسوں اور مہنگائی کی صورت بھگتنا پڑے گا۔اس کا کوئی علاج چارہ گران کے پاس ہے یا اس کا اظہار ان کے کسی عمل/قدم سے دکھائی دیتا ہے یا پاکستان کو توکل اللہ گردن تک دلدل میں ڈبو کر یہ چارہ گران اپنے دیس بدیس سدھار جائیں گے؟؟بظاہر تو پاکستان ایک صارف منڈی کی حیثیت اختیار کر چکی ہے،جہاں دنیا بھر کی مصنوعات بکنے کے لئے تو آتی ہیں لیکن پاکستان کے پاس اپنی کوئی پراڈکٹ ایسی نہیں بچی جسے عالمی منڈی میں فروخت کر کیزر مبادلہ کما سکے،اس کی آمدن ،اس کے اخرجات سے نصف سے بھی کم ہے ،جیسا کہ موجودہ بجٹ میں دکھایا گیا ہے،ان حالات میں توقع رکھنا کہ پاکستان اپنے وادبالادا قرض ادا کر پائے گا،نا ممکن دکھائی دیتا ہے۔
دوسری طرف عالمی تجارتی دنیا میں ایک نیا موڑ آ چکا ہے اور پیٹرو ڈالر معاہدہ اپنی مدت پوری کر کے تاحال غیر فعال ہو چکا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ و سعودی عرب کے درمیان ہونے والے اس معاہدے کے تحت،تیل کی عالمی تجارت جو صرف ڈالر میں ممکن تھی،عالمی دنیا اب اس پابندی سی آزاد ہو چکی ہے تاوقتیکہ امریکہ و سعودی عرب اس معاہدے کی تجدید کرکے اس کو دوبارہ فعال نہ بنائیں،جس کا امکان موجودہ صورتحال میں ممکن دکھائی نہیں دیتا۔اس معاہدے سے فریقین کو کیا فوائد حاصل رہے ہیں،یہ ساری دنیا بخوبی جانتی ہے کہ سعودی عرب کے لئے اس معاہدے میں ایک طرف بادشاہت کا تحفظ تھاتو دوسری طرف اس کی سرزمین سے معدنی تیل کی پیداوار میں امریکی ہنرمندی شامل تھی جبکہ اس کے برعکس امریکہ نے اس معاہدے سے جو ثمرات سمیٹے،اس کی بدولت امریکی کرنسی ڈالر اقوام عالم میں سب سے مضبوط کرنسی رہی،دنیا بھر میں تیل کی خرید و فروخت کے لئے ریاستوں کو ڈالر کی ضرورت رہی ،جس کے نتیجہ میں ڈالر کی حیثیت مستحکم رہی۔ جبکہ تیل کی خرید و فروخت سے حاصل ہونے والا منافع بھی امریکی ٹریژری بانڈز کی صورت امریکی بنکوں اور امریکی معیشت میں خون کی طرح دوڑتا رہاہے وگرنہ عین ممکن ہے کہ امریکہ بہت عرصہ پہلے ہی اپنے زوال کی طرف گامزن ہو جاتا۔بہرکیف ابھی بھی یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ صرف اس معاہدے کے اختتام پذیر ہوتے ہی امریکی معیشت یا امریکی اثرورسوخ انتہائی تیزی کے ساتھ زمین بوس ہو جائے کہ بحیثیت عالمی طاقت، امریکہ کا انحصار صرف پیٹرو ڈالر پر ہی نہیں ہو گامتبادل انتظامات بھی ممکن ہوں گے اور اگر متبادل انتظامات امریکی منصوبوں کے مطابق بروئے کار نہیںآتے تو عین ممکن ہے کہ امریکی اثرورسوخ زمین بوس ہو جائے۔تاہم بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا کے مصداق اگر مستقبل قریب عالمی تجارت میں ڈالر کی مانگ میں مسلسل کمی دیکھی گئی یا دیگر ممالک نے تیل کی خریدوفروخت دیگر کرنسیوں میں شروع کر دی،جیسا کہ ماضی قریب میں دیکھا گیا ہے،تو یقینی طور پر عالمی تجارت میںامریکی ڈالر کی مانگ /ضرورت کم ہوتی جائے گی،اس صورت میں ڈالر مستحکم رہتا دکھائی نہیں دیتا۔اس وقت یہی ایک مفروضہ ہے کہ جس کی بدولت یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ عالمی سطح میں امریکی ڈالر اگر اپنی حیثیت مستحکم نہیں رکھ پاتا تو اس کا اثر یقینی طور پر پاکستان میں دکھائی دے گا اور ڈالر کی قیمت میں کمی سے پاکستان پر واجب الادا قرضوں کا بوجھ مقامی طور پر کم ہوتا دکھائی دے گا،کیا پاکستانی حکام اس معجزے ،اگر وقوع پذیر ہوتا ہے تو، سے فائدہ اٹھا پائیں گے؟؟؟

جواب دیں

Back to top button