CM RizwanColumn

وائرل ویڈیوز کا محتاج احساس

سی ایم رضوان
اسلام سے قبل زمانہ جاہلیت کی ایک تصویر ہماری قومی تاریخ کے ایک بطل حریت مولانا الطاف حسین حالی نے اپنے منظوم کلام میں یوں کھینچی ہے کہ ’’ کہیں تھا مویشی چرانے پہ جھگڑا کہیں پہلے گھوڑا بڑھانے پہ جھگڑا، لبِ جُو کہیں آنے جانے پہ جھگڑا، کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا، یوں ہی روز ہوتی تھی تکرار ان میں، یوں ہی چلتی رہتی تھی تلوار ان میں ‘‘ یعنی اسلام سے قبل عرب کے جاہل معاشرے کی یہ حالت ہوتی تھی کہ ایک دوسرے کے کھیتوں یا زمینوں میں بھولے سے اگر کوئی مویشی یا جانور چلا جاتا تو ان میں اس نوعیت کی باہمی دشمنیاں شروع ہو جاتیں جو صدیوں، نسلوں، علاقوں اور قبیلوں تک چلتی رہتی۔ ایک دوسرے سے پہلے گھوڑا دوڑانے جیسے چھوٹے چھوٹے واقعات پر وہ دوسروں کی جانوں کے دشمن بن جاتے تھے۔ پانی کے گھاٹ پر پہلے سے کھڑے ہونے اور دوسرے کو جگہ نہ دینے پر بھی قتل و غارتگری کا ایسا سلسلہ شروع ہوتا کہ الحفیظ الامان۔ اس طرح ان میں مسلسل لڑائیاں ہوتی رہتیں اور تلوار چلتی رہتی تھی۔ اسلام نے آ کر اس جاہل معاشرے کو امن و سلامتی کا مرکز بنا دیا مگر یہ امن بھی عارضی اور محدود ہی رہا۔ یہاں تک کہ آج کے پاکستانی مسلم معاشرے کی تصویر کھینچیں تو عرب کے زمانہ جہالت کی روح فرسا یادیں تازہ ہو جاتی ہیں۔
آج کے جدید دور میں پاکستان کے بزعم خود مسلم معاشرے میں بیٹیوں کو قتل کر دینے، کمزوروں کو کچل دینے، غریبوں سے دو وقت کا نوالہ چھین لینے، بچوں اور خواتین کو انتہائی بیدردی سے جنسی اور شیطانی ہوس کا نشانہ بنانے، والدین تک کو ذبح کر دینے، مردوں تک کو قبروں سے نکال کر کفن اور اعضاء چرا لینے جیسے انسانیت سوز واقعات یہاں عام ہیں۔
اسی طرح کے ایک جاہلیت سے بھرپور واقعہ میں گزشتہ روز سندھ کے علاقے سانگھڑ میں بااثر افراد نے اونٹ کی ٹانگ کاٹ دی لیکن پولیس نے سب کچھ جانتے ہوئے بھی بااثر وڈیرے کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے بجائے نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا۔ پھر کیا تھا سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو تیزی سے وائرل ہوئی جس میں اونٹ کو کٹی ہوئی ٹانگ کے ساتھ زخمی حالت میں دیکھا جا سکتا ہے، ملک کے نامور صحافیوں سمیت سوشل میڈیا کے دیگر صارفین اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائی اور انصاف کا مطالبہ کیا۔ ایک نامور صحافی نے ایکس پر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا ’ بااثر وڈیرے کی زرعی زمین میں اونٹ داخل ہوا تو وڈیرے کو غصہ آ گیا اور ملازمین کے ہمراہ مل کر اونٹ کو پکڑ کر تشدد کیا پھر بھی غصہ ٹھنڈا نہ ہوا تو تیز دھار آلے سے اونٹ کی ٹانگ کاٹ دی‘۔ ایک اور صحافی نے بھی اسی قسم کی پوسٹ کی، انہوں نے کہا کہ بااثر وڈیرا پاگل ہوگیا ہے۔ ایک دیگر صحافی نے وزیر اعلیٰ سندھ، شازیہ مری اور چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ عینی مری کے ضلع سانگھڑ کے وڈیرے غلام رسول شر نے اونٹ پر بے رحمانہ ظلم کیا، اونٹ چِلاتا رہا مگر جانور وڈیرے کو رحم نہ آیا، ابھی تک اس معاملے پر پولیس نے کوئی ایکشن نہیں لیا، کیونکہ پولیس تو وڈیروں کی غلام ہے۔ خولہ چودھری نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’ معصوم، بے زبان جانوروں پر ظلم کرنے والوں پر اللہ کا عذاب آئے گا، کیسے معصوم اُونٹ اپنے اللہ کے آگے رو رہا ہے، اللہ اس کو رُلانے والوں کا خود حساب لے گا‘۔ نسیم نامی صارف کا کہنا تھا کہ یاد رکھیں اونٹ شعائر اللہ ( اللہ کی نشانی) میں سے ہے، یہ بے زبان بھی کہتا ہوگا اے اللہ میں تیرے انسان سے پناہ مانگتا ہوں، دل خُون کے آنسو رو رہا ہے،
بہرحال ابتداء میں تو روایتی طور ہر سندھ پولیس نے وڈیرے کو پکڑنے کے بجائے نامعلوم افراد کا نام ڈال کر قصہ ہی ختم کر دیا تھا لیکن بعد ازاں اونٹ کا مالک سومر بھن اونٹنی کی کٹی ہوئی ٹانگ لے کر پریس کلب سانگھڑ پہنچ گیا، یہ ویڈیوز بھی وائرل ہو گئیں تو سوشل میڈیا پر وڈیرے کے ظلم کے خلاف آوازیں تیز اور زیادہ ہو گئیں۔ تاریخ، اخلاقیات اور تہذیب کے واسطے دے کر حکومت سندھ اور ذمہ داروں کے ضمیر جھنجوڑے گئے۔ پوری ملک میں بس یہی بات کی گئی کہ ظالم وڈیرے نے بے زبان اونٹنی پر بہت ظلم کیا ہے۔ یہ ظلم اس واسطے ہوا ہے کہ اونٹنی کا مالک ایک عام شہری تھا۔ اونٹنی کے مالک نے انصاف کا مطالبہ کیا، میڈیا کے دبا کے بعد سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی کے کرتا دھرتا حرکت میں آئے۔ ایک معروف صحافی نے ایک اور ٹوئٹ میں لکھا ’ سانگھڑ پولیس کا ایک ڈی ایس پی بے زبان اونٹنی کی ٹانگ کاٹنے کے واقعے کو ظلم تو قرار دے رہا ہے لیکن کسی ذمہ دار کا نام لینے کے لئے تیار نہیں، موصوف کو یہ تو پتہ ہے کہ جس جگہ واقعہ پیش آیا وہ غلام رسول شر کی ہے اس نے وہ رقبہ جعفر پنجابی کو ٹھیکے پر دیا ہوا ہے لیکن ایف آئی آر نامعلوم افراد پر کاٹی گئی‘۔
القصہ وقوعہ کے چوبیس گھنٹوں کے بعد کے عرصے میں اونٹنی کے بلبلانے، کٹی ہوئی ٹانگ مذکورہ ظالم وڈیرے کے ساتھ دکھانے اور حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کی کونچیں کاٹ دینے کے واقعہ کی مثالیں دینے والے بیانات کی حامل سوشل میڈیا صارفین کی لاتعداد ویڈیوز اس قدر وائرل ہو گئیں اور یہ واقعہ اس حد تک زبان زد عام ہو گیا کہ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی جانب سے سانگھڑ میں غریب شخص کی اونٹنی کی ٹانگ کاٹنے کا نوٹس لئے جانے کے بعد 5افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔ ان کے خلاف ریاست کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا۔ صوبائی وزیر شرجیل انعام میمن بھی میدان میں آ گئے۔ فریال تالپور نے بھی ممکنہ اقدامات اٹھانے کی سختی سے ہدایات جاری کیں۔ شرجیل میمن نے کہا کہ ملزمان اور اونٹنی کے مالک کے درمیان معاملات طے ہو چکے تھے، لیکن انسانی طور پر یہ عمل ناقابل قبول ہے، اس لئے ریاست کی مدعیت میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ دوسری جانب گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری نے سانگھڑ میں بااثر وڈیرے کے مبینہ ظلم کے شکار شخص کو دو اونٹ دینے کا اعلان کیا۔ گورنر سندھ کا کہنا تھا کہ پولیس واقعہ کے اصل ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرے اور شہری کو انصاف دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اونٹ کی ٹانگ کاٹ کر غریب شخص سے اس کی روزی چھین لی گئی، کھیت میں داخل ہونے پر اونٹ کی ٹانگ کاٹ دینا انسانیت نہیں، جانوروں سے ایسا سلوک کسی انسان کو زیب نہیں دیتا، قربانی کا مہینہ دوسروں کے دکھ درد کا احساس جگانے کے لئے ہے نہ کہ بیدردی سے کسی بے زبان کی ٹانگ کاٹ لینے کے لئے۔
دوسری جانب ٹانگ کاٹے جانے والی اونٹنی کی دیکھ بھال کرنے والی کراچی کی غیر سرکاری تنظیم کا کہنا ہے کہ اونٹنی کا زخم بھرنے میں دو مہینے لگیں گی جس کے بعد اسے مصنوعی ٹانگ لگائی جائے گی۔ یاد رہے کہ یہ واقعہ سانگھڑ کے علاقے منڈھ جمڑائو کے قریب منگلی پولیس تھانے کی حدود میں 13جون کو پیش آیا۔ پولیس نے 14جون کو واقعے کا مقدمہ ریاست کی مدعیت میں نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا تھا۔ ایس ایس پی سانگھڑ اعجاز احمد شیخ کے مطابق پانچ ملزمان کو گرفتار کیا گیا جن میں سے دو نے اعتراف جرم کر لیا۔ سوشل میڈیا پر اس واقعے پر کافی غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔ لوگوں کا مطالبہ ہے کہ ملزمان کو سخت سزا دی جائے۔ میڈیا پر واقعے کی کوریج کے بعد زخمی اونٹی کو سانگھڑ سے کراچی میں جانوروں کے حقوق کی تنظیم سی ڈی آر ایس کے نجی پراجیکٹ فار اینیمل ویلفیئر کے شیلٹر ہوم منتقل کر دیا گیا۔ شیلٹر ہوم کی سربراہ سارہ جہانگیر نے اتوار کو میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ آٹھ ماہ کی اونٹنی کا زخم ابھی تازہ ہے اور شدید درد کو کم کرنے اور زخم خشک کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اونٹنی کے مکمل علاج کے لئے مختلف ماہرین سے بات کی جا رہی ہے۔ اونٹنی کا مستقل حل مصنوعی ٹانگ ہے، مگر زخم بھرنے میں دو مہینے لگ سکتے ہیں، جس کے بعد مصنوعی ٹانگ لگائی جائے گی۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اونٹنی کی مصنوعی ٹانگ کا بندوبست چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری دبئی سے کروا رہے ہیں۔ سیکرٹری لائیو سٹاک کاظم جتوئی کے مطابق اونٹنی کا زخم ٹھیک ہو رہا ہے۔
عید کے دنوں میں پاکستانی معاشرے کی جانب سے سوشل میڈیا کے ذریعے جس طرح ایک بے زبان اونٹنی پر وڈیرے کے ظلم کی مذمت کی گئی۔ جس طرح ایک غریب شخص کی ہمدردی میں پوسٹیں کی گئیں اور جس طرح حکومت اور ذمہ داروں نے اقدامات کئے سب درست اور عین انصاف ہیں مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے ذمہ داروں اور پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا احساس ویڈیو وائرل ہونے کے بعد ہی جاگتا ہے۔ کیا ویسے ہمارے معاشرے میں ضمیر اور احساس نام کی کوئی چیز نہیں کہ جب تک دنیا میں ہماری اخلاقیات اور تہذیب کو لے کر شور نہ پڑے ہمارا احساس بیدار ہی نہیں ہوتا۔ کیا ایک اونٹنی پر ظلم پر ہم اس قدر احساس مند ہو گئے ہیں تو کیا اپنے عوام اور فلسطین کے معصوم بچوں کی ہلاکتیں ہمارے ضمیر کو جھنجوڑنے کے لئے کافی نہیں۔ کیا صرف سوشل میڈیا ہی اب ہماری اخلاقیات کو سنوارے اور بگاڑے گا۔ کیا ہم لائیک، شئیر اور سبسکرپشن جیسی اصلاحات کے غلام بن کر رہ گئے ہیں کہ باقی کوئی چیز ہمیں کسی اچھے کام اور بہتر اقدام پر مجبور یا آمادہ ہی نہیں کرتی۔

جواب دیں

Back to top button