لایعنی کلام

علیشبا بگٹی
حضرت ایاس بن معاویہ بصرہ کے بہت بڑے قاضی تھے، آپ نے صحابہؓ اور بڑے بڑے تابعین سے علم حاصل کیا، بڑے ذہین و فطین تھے، ان کی ذہانت اور سمجھ بوجھ کی مثالیں دی جاتی تھیں، چوں کہ آپ بڑے قاضی تھے، اس لئے لوگ اپنے مقدمات اور جھگڑوں کا فیصلہ کرانے آپ کے پاس آتے۔ ایک مرتبہ دو شخص ایک مقدمہ لے کر ان کے پاس عدالت میں آئے ، ان میں سے ایک نے دعویٰ کیا کہ میں نے اپنے ساتھی کو مال بطور امانت دیا تھا ، مگر اب وہ دینے سے انکار کر رہا ہے ۔ قاضی ایاس نے دوسرے ساتھی سے پوچھا کہ کیا تمہارے اس ساتھی نے تم کو امانت کے طور پر مال رکھنے دیا تھا ؟ تو اس نے کہا میں نے مال لیا ہی نہیں، یہ جھوٹ بول رہا ہے اور مجھے بدنام کر رہا ہے، اگر اس کے پاس کوئی دلیل یا ثبوت ہے تو پیش کرے ، ورنہ میں قسم دینے کے لیے تیار ہوں ، میں بے گناہ ہوں ، یہ سراسر مجھ پر الزام ہے ۔ قاضی ایاس کو اللہ تعالیٰ نے خوب سمجھ بوجھ دی تھی ، انہوں نے بھانپ لیا کہ یہ جھوٹی قسم کے ذریعے اپنے ساتھی کے مال کو ہڑپ کرنا چاہتا ہے۔۔۔۔۔ تو انہوں نے دعویٰ کرنے والے شخص سے پوچھا کہ تو نے اسے کس جگہ اپنا مال بطور امانت دیا تھا ؟ اس نے کہا، یہاں سے کچھ فاصلے پر ایک محلہ ہے، وہاں میں نے دیا تھا۔ قاضی ایاس نے پوچھا ، وہاں کوئی ایسی نشانی ہے ، جہاں تم نے اس کو یہ امانت دی تھی ؟ اس نے کہا : ہاں ۔ وہاں ایک درخت ہے اس درخت کے نیچے کھانا کھایا اور پھر میں نے اپنا مال اس کے سپرد کیا۔ قاضی ایاس نے کہا ۔ تم ابھی وہاں جائو، شاید تم کو وہاں یاد آجائے۔ کہ تم نے اپنا مال کہاں رکھا تھا، کس کو دیا تھا اور اس جگہ کا جائزہ لے کر سیدھے میرے پاس آجانا اور مجھے آکر خبر دینا کہ تم کو کیا یاد آیا، وہ شخص اس جگہ کی طرف روانہ ہوگیا۔ قاضی ایاس نے مال کا انکار کرنے والے شخص سے کہا۔ تم اپنے ساتھی کے واپس آنے تک میرے پاس بیٹھے رہو، وہ وہاں خاموش ہوکر بیٹھ گیا، قاضی ایاس دوسرے مقدمات نمٹانے میں مصروف ہوگئے، لیکن قاضی صاحب دوسرے لوگوں کے معاملات سنتے ہوئے چپکے چپکے اس شخص کی طرف بھی دیکھتے رہتے اور اس طرح وہ اس کے چہرے کے تاثرات معلوم کرنا چاہتے تھے، جب انہوں نے دیکھا کہ یہ شخص بالکل آرام و سکون سے بیٹھا ہوا ہے اس کے چہرے پر کوئی خوف و ڈر نہیں ، تو قاضی صاحب دوسرے مقدمات سنتے سنتے ایک دم اس شخص کی طرف متوجہ ہوئے اور پوچھا آپ کا کیا خیال ہے کہ وہ اس جگہ پہنچ گیا ہوگا، جہاں اس نے مال تیرے سپرد کیا تھا۔۔۔؟ اس نے بے خیالی میں جواب دیا۔ نہیں۔ وہ جگہ یہاں سے کافی دور ہے، ابھی وہ راستے میں جا رہا ہوگا، قاضی صاحب نے غضب ناک ہوکر کہا۔ ایک طرف تو مال لینے کا انکار کرتا ہے اور دوسری طرف اس جگہ کا اعتراف کرتا ہے جہاں تو نے مال لیا تھا، بخدا تو ہی خائن جھوٹا اور بد دیانت ہے۔ وہ اچانک یہ حملہ دیکھ کر خوف سے کانپنے لگا اور اس نے اپنے جرم کا اعتراف کر لیا اور امانت واپس کر دی۔ لہٰذا انسان جب بھی بولے تو ذرا سوچ سمجھ کے بولے۔ کبھی کبھی جلدی میں بولے گئے الفاظ بھی اپنے ہی گلے پڑتے ہیں۔
بے ضرورت ایک جملہ بھی زبان سے نکل جائے تو دل سیاہ ہو جاتا ہے۔ ایک بزرگ نے راستہ سے گزرتے ہوئے ایک شخص کو سلام نہیں کیا۔ اور جب اسی راستہ سے لوٹے تو وہ شخص زمین کرید رہا تھا۔ ان بزرگ نے اس کو سلام کیا، لوگوں نے دریافت کیا کہ حضرت اس میں کیا راز تھا ؟ کہ اس شخص کو آپ نے پہلے تو سلام نہیں کیا اور اب کیا۔۔ فرمایا کہ پہلے وہ بے کار بیٹھا تھا، اس لیے اس کے قلب میں شیطان تصرف کر رہا تھا اور اب مشغول ہے، گو بے کار ہی فعل میں صحیح، جو معصیت بھی نہیں، اس لیے شیطان اس سے دور ہے ۔
حضرت علیؓ فرماتے ہیں بولو کہ پہچانے جائو، بولنا آدمی کی پہچان ہوتی ہے جب آدمی کا تعارف ہی بولنے کا محتاج ہے۔ تو پھر اپنے اچھے تعارف کے لئے اسے بامعنی گفتگو کرنا چاہیے۔ کسی جاہل کے ساتھ علمی بات کا کرنا اتنا ہی بے معنی ہو گا۔ جتنا کسی عالم سے جاہلانا بات کا قبول کرانا۔ بے معنی ہو گا۔ مطلب یہ کہ ہر بات اپنے تناظر میں ہی بامعنی یا بے معنی ہوتی ہے۔
معنی خیز خاموشی بے معنی گفتگو سے بہتر ہے رشتوں اور تعلقات میں خرابی بالعموم اُس وقت پیدا ہوتی ہے۔ جب لوگ بولنے کے معاملے میں احتیاط کا دامن چھوڑ دیتے ہیں اور جو بھی منہ میں آئے بولتے چلے جاتے ہیں۔ کسی بھی معاملے میں لب کشائی کرتے وقت یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ جو کچھ بھی کہا جائے گا۔ وہ تیر کے مانند ہوگا جو کمان سے نکلنے کے بعد واپس نہیں آتا۔ کمان سے نکلنے والے تیر کو کہیں نہ کہیں لگنا ہوتا ہے۔ اِسی طور منہ سے نکلے ہوئے الفاظ بھی کسی نہ کسی کے پردہ سماعت سے ٹکرا کر کوئی نہ کوئی اثر ضرور مرتب کرتے ہیں۔ اگر ہم محض بولنے پر توجہ دیں۔ اور الفاظ کے ممکنہ اثرات کے بارے میں نہ سوچیں تو اِسے سادہ لوحی ہی کہہ سکتے ہیں۔ مگر دنیا اِسے حماقت ہی سے تعبیر کرے گی۔
دنیا بھر میں بولنے اور لکھنے کا فن سیکھا اور سکھایا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں اِس حوالے سے متوجہ ہونے کا رجحان اب تک پروان نہیں چڑھ سکا۔ عام گفتگو میں بھی ہم محض بولنے کو کافی سمجھ لیتے ہیں۔ یہ نہیں سوچا جاتا کہ الفاظ کا انتخاب اور لہجے کی نوعیت بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ ہم جو کچھ بھی اور جس طرح بولتے ہیں وہ ہماری شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ لکھنا ہو یا بولنا۔۔۔ دانائی شرطِ اول ہے۔ آپ کا اظہارِ خیال آپ کے بارے میں سب کچھ بیان کر دیتا ہے۔
ہمیں اللہ تعالیٰ نے لفظوں کے ہنر کو آواز میں پرونے کا سلیقہ عطا کیا۔ زندگی کا اعلیٰ معیار گفتگو کے فن کا مرہون منت ہے۔ لفظوں کو پرکھنے کا سلیقہ بھی ہر کسی کے پاس نہیں ہوتا۔





