یہ معاملہ کوئی اور ہے

رفیع صحرائی
واقفانِ حال جانتے ہیں کہ میثاقِ جمہوریت ( 2007 ) کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کے درمیان متعدد نورا کشتیاں ہو چکی ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جہاں یہ نورا کشتیاں مذکورہ دونوں پارٹیوں کے لئے فائدہ مند ثابت ہوئیں وہیں پر ملک کے لیے بھی یہ نیک شگون لے کر آئیں اور عوام بھی سکون سے رہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی برسراقتدار آئی تو یہ میثاقِ جمہوریت ہی کا ثمر تھا کہ اس نے انتقامی سیاست کو دفن کر دیا اور ماضی کی سیاہ رات کو بھلا کر نئے عزم سے آغازِ سحر کی بنیاد رکھ دی۔ 2008ء سے 2013ء کا دور سیاسی لحاظ سے سنہری دور تھا۔ پورے پانچ سال میں کوئی ایک سیاسی مقدمہ بنا نہ کوئی سیاسی قیدی جیل میں گیا۔ گو پیپلز پارٹی کے ساتھ ساتھ اس کا کریڈٹ مسلم لیگ ن کو بھی جاتا ہے کہ میاں نواز شریف پانچ سال تک فرینڈلی اپوزیشن کے طعنے سنتے رہے مگر انہوں نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور ہر قسم کے ایڈونچر سے اجتناب کیا۔ دراصل آصف زرداری اور نواز شریف منجھے ہوئے سیاست دان ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت سوچ سمجھ کر سیاست کی بساط پر چالیں چلتے ہیں۔ دونوں نے ماضی سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ وہ سمجھ گئے ہیں کہ آپس کی لڑائی نے ہمیشہ ان دونوں ( پارٹیوں) کا نقصان کیا ہے اور ان کی چپقلش سے ہر دفعہ تیسری قوت کو موقع ملا ہے۔ تاہم اپنے ورکرز کو مطمئن رکھنے کے لئے اختلاف اور مخالفت کے متعدد ڈرامے بھی رچائے جاتے رہے ہیں۔ 2013ء میں نواز شریف برسرِ اقتدار آئے تو آصف زرداری نے بھی اپنا طے شدہ کردار بخوبی نبھایا جو تیسری قوت کو پسند نہیں آیا۔ ملک سیاسی اور معاشی استحکام کی جانب چل پڑا تھا۔ دونوں پارٹیوں کی لیڈر شپ نے صوبوں کو زیادہ بااختیار بنا دیا تھا۔ طالع آزمائوں کو اپنا کردار محدود ہوتے ہوتے ختم ہونے کی فکر پڑ گئی تھی چنانچہ عمران خان کی صورت میں نیا سیاسی مہرہ آگے بڑھایا گیا اور ملک کو تیزی سے تنزلی کے راستے کی طرف گامزن کر دیا گیا۔ وہ تو عمران خان کی سیمابی طبیعت نے انہیں نچلا نہ بیٹھنے دیا اور وہ خود کو سچ مچ کا لیڈر سمجھ کر لانے والوں سے ہی ٹکرا گئے جس کے نتیجے میں آج کل پابندِ سلاسل ہیں ورنہ تو 1973ء کا آئین ردی کی ٹوکری میں پھینک کر 1935ء تک کی منصوبہ بندی کر لی گئی تھی۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور تحریکِ عدم اعتماد کو کامیاب کروا کر اپنے سیاسی مستقبل کو بچا لیا۔ گو دونوں پارٹیوں نے ہی بہت بڑا رسک لیا تھا۔ معیشت کی راہ میں بچھی ہوئی بارودی سرنگوں کا انہیں اندازہ تو تھا مگر سنگینی اور خطرناکی کا پتا نہ تھا۔ یہ سرنگیں صاف کرنے کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔
انتخابات 2024ء کی انتخابی مہم کے دوران لڑی گئی نورا کشتی میں بلاول بھٹو زرداری نے کامیاب اداکاری کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے اپنی توپوں کا رخ عمران خان کی طرف سے ہٹا کر میاں نواز شریف کی طرف کئے رکھا۔ دونوں پارٹیوں کے درمیان یہ معاہدہ ہو چکا تھا کہ دونوں پارٹیوں میں سے مرکز میں زیادہ سیٹیں لینے والی پارٹی کو وزارتِ عظمیٰ اور دوسری پوزیشن حاصل کرنے والی پارٹی کو ملک کی صدارت ملے گی۔ یہ طے تھا کہ حکومت میں دونوں پارٹیاں اتحادی ہوں گی۔ جناب بلاول زرداری کی انتخابی مہم سیاسی مخالفت سے زیادہ سیاسی دشمنی لگ رہی تھی۔ انہوں نے نواز شریف پر ذاتی حملے بھی شروع کر رکھے تھے۔ ہم نے تب بھی عرض کیا تھا کہ یہ اختلاف صرف8فروری 2024ء کی شام تک ہے۔ اور ایسا ہی ہوا۔
قارئین کو یاد ہو گا کہ گزشتہ سال انہی دنوں میں جناب بلاول بھٹو وزیرِ خارجہ ہوتے ہوئے بھی پی ڈی ایم کی حکومت کے خلاف ہو گئے تھے اور انہوں نے میاں شہباز شریف کی حکومت کو دھمکی دی تھی کہ وہ قومی اسمبلی سے سالانہ بجٹ پاس نہیں ہونے دیں گے۔ پھر جب سیلاب متاثرین کی بحالی کے لئے سندھ حکومت کو وفاقی حکومت سے بیس ارب روپے جاری ہو گئے تو بلاول زرداری اپنے وزیرِ اعظم کا دایاں بازو بن گئے۔
اب پھر خبر آئی ہے کہ موجودہ حکومت اور پیپلز پارٹی کے درمیان شدید اختلافات پیدا ہو گئے ہیں۔ اختلافات کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بجٹ اجلاس سے پہلے پیپلز پارٹی کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا تو ایم این ایز کی اکثریت نے بجٹ اجلاس میں شرکت نہ کرنے کے حق میں ووٹ دیا۔ جناب بلاول بھٹو بھی اس موقع پر حکومت سے سخت ناراض نظر آئے اور انہوں نے نہ صرف اپنے اراکین قومی اسمبلی کے فیصلے کی توثیق کی بلکہ ممبران کو یہ اجازت بھی دے دی کی اگر وہ بجٹ پاس ہونے کی مخالفت میں ووٹ دیں گے تو بھی ان کے اس فیصلے پر ان اراکین کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ یہ حکومت کے لئے سخت پیغام تھا۔ چنانچہ ڈپٹی وزیرِ اعظم جناب اسحاق ڈار حرکت میں آئے اور بلاول بھٹو کو علامتی طور پر اجلاس میں شرکت پر آمادہ کر لیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کو شکوہ ہے کہ بجٹ سازی کے موقع پر اسے وعدہ کے باوجود شامل نہیں کیا گیا جبکہ دوسری طرف صورتِ حال کو جاننے والوں کا کہنا ہے کہ بجٹ سازی میں تو حکومت کا اپنا کردار بھی نہ ہونے کے برابر تھا۔ بہرحال بلاول بھٹو نے حکومت کو بہت واضح پیغام دے دیا ہے کہ اگر ان کے مطالبات تسلیم نہ کئے گئے تو وہ بجٹ پاس کروانے کے عمل میں شریک نہیں ہوں گے۔ اگر ایسا ہو گیا تو شہباز شریف حکومت کا برقرار رہنا مشکل ہو جائے گا کیونکہ بجٹ پاس نہ ہونے کا مطلب ان پر عدم اعتماد کا اظہار ہو گا۔ انہیں قومی اسمبلی سے دوبارہ اعتماد کا ووٹ لینا پڑے گا جو بہت مشکل ہو جائے گا۔ بلاول بھٹو نے بہت سمارٹ گیم کھیلی ہے اور عین اس وقت ضرب لگائی ہے جب لوہا خوب گرم ہو چکا ہے۔ اس سے پہلے انہوں نے اپنے ارادوں کی خبر کسی کو نہیں ہونے دی۔ اب حکومت کے پاس بلاول بھٹو کی شرائط ماننے کے سوا چارہ نہیں ہے۔
یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ بلاول بھٹو کو بجٹ سے مسئلہ نہیں ہے۔ بجٹ کے معاملے میں وہ بھی حکومت کی بے بسی سے پوری طرح واقف ہیں۔ بلاول بھٹو دراصل پنجاب میں پاور شیئرنگ چاہتے ہیں۔ حکومت مرکز میں انہیں بھرپور حصہ دینا چاہتی ہے۔ جناب اسحاق ڈار کو ڈپٹی وزیراعظم اسی لئے بنایا گیا ہے کہ بوقتِ ضرورت وزارتِ خارجہ کا قلمدان ان سے واپس لے کر بلاول بھٹو کو دیا جاسکے لیکن بلاول بھٹو پنجاب میں حصہ لینے میں زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں۔ وہ اپنے ایم پی ایز کے لئے مسلم لیگ ن کے ممبران صوبائی اسمبلی کی طرح فنڈز چاہتے ہیں۔ وہ پنجاب میں وزارتیں بھی لینا چاہتے ہیں تاکہ صوبہ پنجاب میں اپنی پارٹی کو مضبوط کر سکیں۔ وہ پنجاب میں نئی صف بندی کر رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں معروف پارلیمنٹیرین اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں منظور وٹو سے ملاقات کر کے جناب بلاول بھٹو انہیں اپنی پارٹی میں واپس لا چکے ہیں جس سے پنجاب میں ان کی دلچسپی واضح ہوتی ہے۔ امید ہے دونوں پارٹیاں مل بیٹھ کر معاملات طے کر لیں گی اور وفاقی بجٹ آسانی سے پاس ہو جائے گا۔ تب تک بیان بازی کی حد تک پیپلز پارٹی کے مسلم لیگ ن اور اس کی حکومت پر حملے جاری رہیں گے۔





