اور اب مدر ملک بینک

سیدہ عنبرین
ماڈرن ازم کے نام پر اس ملک میں کیا کیا کھلواڑ نہ ہوئے، سابق صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنی گرفت مضبوط کر لی تو ان پر پاکستان کو ماڈرن بنانے کی دھن سوار ہو گئی، خواتین کی ہر شعبہ زندگی میں شمولیت معیار قرار پائی۔ زنانہ سنگھار سے پاکستان کا چہرہ نکھارنے کا کام شروع ہو گیا، بعض ایسے شعبوں میں بھی خواتین کو بھرتی کیا گیا ہے جہاں کم از کم ہماری خواتین میلان طبع نہ رکھتی تھیں۔ امریکہ اور یورپ کو دکھانے کیلئے کہ آپ کی خواتین مسافر جہاز اور لڑاکا جہاز اڑا سکتی ہیں تو ہماری خواتین بھی یہ سب کچھ کر سکتی ہیں ۔
فیصلہ کیا گیا کہ جی ڈی پی میں بھی خواتین کو شامل کیا جائے چار خواتین نے ٹریننگ مکمل کی جلد دو کے جہاز کریش ہو گئے باقی دو نے جہاز اڑانے کی بجائے کوئی اور ڈیوٹی سنبھال لی یا ریٹائرمنٹ لے لی کچھ خبر نہیں انہوں نے کیا کیا۔ لیکن وہ ان حادثات کے بعد جہاز اڑاتی کسی فلائی پاسٹ کی قیادت کرتی یوم پاکستان کے موقع پر جہازوں کو اٹھاتی پلٹاتی ہوا میں جہازوں کو غوطے دیتی اور اوپر اٹھاتی نظر نہیں آئیں۔ اسی دور میں خواتین کے لڑاکا جہاز اڑانے کا باب بند ہوا، لیکن معاشرے میں ان کی لڑاکا حیثیت اب بھی برقرار ہے، اسی روش کو آگے بڑھاتے ہوئے خواتین بینک قائم کیا گیا، ایک خاتون کو اس کا سربراہ بنایا گیا، ملک بھر میں اس کی برانچیں کھولی گئیں۔ طبقہ امراء کی پڑھی لکھی لڑکیوں کو بغیر کسی میرٹ کے تھوک کے حساب سے بھرتی کیا گیا کچھ تو پروفیشنل بینکوں سے یہاں آئیں، وہ تو کسی حد تک اپنا کام جانتی تھیں، لیکن بیشتر ایسی تھیں جنہیں نوکری کی ضرورت یا خواہش نہیں تھی اس طبقے سے تعلق رکھنے والی لڑکیاں کام کی بجائے کسی اور کام میں زیادہ دلچسپی لیتی تھیں۔ چند برس تو خواتین بینک کو دھکا لگا کر چلایا جاتا رہا۔ لیکن بینک بزنس بڑھانے والی خواتین کی ٹیم گرم و سرد موسم میں دفتروں سے باہر نکل کر بزنس اکائونٹس لانے کی بجائے ایئرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر مختلف زاویوں سے اپنی تصویریں بنانے میں مصروف رہتیں یا زیادہ سے زیادہ انٹرنیٹ پر مصروف رہتیں۔ بینک اس کارکردگی پر نہیں چل سکتے تھے۔ مسلسل کئی برس کے خسارے کے بعد بینک بکنے کی نوبت آگئی، خواتین بینک میں سفارشی بھرتیاں نہ ہوتیں اسے کاروباری اصولوں کے مطابق چلایا جاتا تو یہ بینک ترقی کر سکتا تھا، یہ معاملہ صرف خواتین بینک کا نہیں دیگر درجن سے زائد اداروں کا بھی یہی حال ہے جنہیں خواتین نہیں مرد چلاتے تھے، لیکن برسوں بعد معلوم ہوا اداروں کو چلا یا نہیں لوٹا جاتا رہا اب انہیں بیچنے کا موسم ہے وہ بھی اونے پونے بکائو مال میں ہمارے بڑے بڑے ایئر پورٹ بھی شامل ہیں لاہور ایئر پورٹ کے بارے میں خبر آرہی ہے کہ اسے بھی آئوٹ سورس کیا جائے گا، یعنی پٹے پر دیا جائے گا۔ ہر ایئر پورٹ کی روزانہ کمائی کروڑوں روپے ہوتی ہے ہر مسافر ایئر پورٹ پر کاروباری ٹھیکے درجنوں کی تعداد میں ہوتے ہیں سب سے بڑھ کر جہازوں کی پارکنگ اور فری فیولنگ سے ہونے والی کمائی ہے جس کا کوئی اندازہ نہیں، خلیجی ریاستوں میں سے ایک کی بنائی گئی ایئر لائن اور اس کے ایئر پورٹ اربوں ڈالر کما رہے ہیں اور ملکی معیشت میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں یہی حال باقی دنیا کے ہر چھوٹے اور بڑے ملک کا ہے، ہم سے پاکستان کی قومی ایئر لائن اور قومی ریلوے نہیں چل سکی ایئر لائن کا سودا آج کل میں ہو جائے گا۔ ریلوے کا نقصان ناقابل بیان اور حالات نا گفتہ بہ ہیں مگر اسکا خریدار کوئی نہیں، ان حالات میں چین سے سود پر لئے گئے بھاری قرض سے ایک اور ریلوے لائن بچھانے کا منصوبہ ہے۔ جس پر انیس سو ارب روپے کا تخمینہ ہے، اس ریلوے لائن اور اس پر چلنے والی ریلویز کا ہم کیا حشر کریں گے یقیناً وہی جو موجودہ ریلوے کا کر چکے ہیں۔
بعض بینکوں اور خواتین بینک کی نجکاری کے بعد شاید اس خلا کو پورا کرنے کیلئے ایک نئے بینک کا قیام عمل میں لایا گیا ہے اس بینک میں کیش آئے گا نہ آپ کیش جمع کرا سکتے ہیں نہ نکلوا سکتے ہیں، اسے مبینہ طور پر ’’ ماں دودھ بینک‘‘ کا نام دیا گیا ہے، یہاں بھیڑ، بکریوں، گائے، بھینسوں کا نہیں بلکہ عورتوں کا دودھ جمع کیا جائے گا اور اس کے ضرورت مندوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ کراچی میں ماں دودھ بینک کا قیام عمل میں آیا ہے اس کی افتتاحی تقریب میں اہم خواتین نے شرکت کی اور مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کے عزم کو دہرایا افتتاحی تقریب کی تصویر سوشل میڈیا پر مع خبر دیکھی جاسکتی ہے۔ ’’ ماں دودھ بینک‘‘ میں دودھ کیسے جمع کیا جائے گا، اس کی تفصیلات کا انتظام ہے، لیکن طریقے نہیں ہو سکتے ہیں جن خواتین کو دودھ کی ضرورت نہیں وہ بینک میں آکر دودھ ڈیپازٹ کرائیں گی۔ جنہیں ضرورت ہے وہ یہاں سے دودھ حاصل کریں گے۔ اس میں ہوم کلیکشن ہو گی تو کون سا عملہ فون کال پر دودھ لائے گا اور بینک میں جمع کرائے گا۔ اس ہوم کلیکشن میں دودھ کو بگڑنے سے روکنے کیلئے کیا انتظامات ہوں گے۔ دودھ دینے اور لینے والوں سے کیا اور کس حساب سے معاوضہ طے جائے گا یا سب کچھ اسی طرح فی سبیل اللہ ہوگا جیسے خون دینے والوں کو اجر اللہ تعالیٰ کے ذمے اور خون لینے والوں ضرورت مندوں سے معاوضہ سو فیصد نقد وصول کیا جاتا ہے۔ ماں کا دودھ واحد دودھ ہے جو خالص ترین ہے اور بچے تک براہ راست اس کی ماں کے سینے سے پہنچتا ہے۔ ’’ ملاوئستان‘‘ میں اس بات کی کوئی گارنٹی نہ ہو گی کہ اس طرح جمع کیا جانے والا دودھ خالص حالت میں کسی اور بچے تک پہنچ جائے اس میں ملاوٹ نہ ہو۔
تمام کام مثبت انداز میں بھی ہوں تو غیر شرعی کام ہو گا یہاں سے کون کس ماں کا دودھ پی کر جوان ہوگا۔ ایک ہی ماں کا دودھ پینے والے دس بچے اور ان کے ماں باپ اس بات سے بے خبر ہونگے یوں وہ ایک دوسرے کے دودھ بھائی بہن ہونگے۔ لاعلمی میں ان کے ہونے والے نکاح اور ازدواجی تعلقات حرام ہو نگے۔ سورۃ النساء میں یہ معاملہ کھول کر بیان کیا گیا ہے انسانی رشتوں کے شرعی نظام کو تباہ و برباد کرنے کی ایک کوشش میں دنیا کو اپنا ماڈرن چہرہ دکھانے کی کوشش ہے۔ دینی حلقوں اور علمی مراکز کو اس پر توجہ دے کر حرام کاری کو فروغ دینے کی کوششوں کو روکنا چاہیے۔





